'میرا جسم میری مرضی‘ کے سلوگن نے ایک بخار سا چڑھایا ہوا ہے جبکہ دنیا بھر میں اس وقت جان لیوا وبائی مرض کورونا وائرس کا خوف طاری ہے اور یہ وائرس اب تک اسّی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ چین‘ ایران‘ کوریا اور اٹلی سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں شامل ہیں۔ امریکہ برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ممالک سے لے کر بے شمار ترقی پذیر ممالک بھی اس قاتل وائرس سے محفوظ نہیں ہیں۔ دنیا بھر کی سٹاک ایکس چینجز مسلسل گراوٹ کا شکار ہیں۔ سعودی عرب حکومت نے غیرملکیوں کے بعد اب اپنے مقامی شہریوں کے لیے بھی عمرہ جیسی عبادت پابندی عائد کردی ہے۔ امسال حج کے متاثر ہونے کا خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔ پاکستان سمیت اکثر ممالک نے اپنی زمینی اور فضائی سرحدوں کو سِیز کر دیا ہے اور ملک میں داخل ہونے والے شہریوں کو الگ تھلگ رکھنے کیلئے آئسولیشن سٹی بسائے جا رہے ہیں تاکہ کوئی متاثرہ شخص شہر میں داخل نہ ہونے پائے۔ خوف کا عالم یہ ہے کہ وائرس میں مبتلا ایک متاثرہ شہری حیدرآباد ہسپتال سے فرار ہو گیا‘ جس کے بعد پانچ اضلاع کی انتظامیہ کی دوڑیں لگ گئیں اور مفرور مریض کو تلاش کرنے کیلئے ایمرجنسی بنیادوں پر جیوفینسنگ سے یہ پتا چلایا گیا کہ وہ مریض سانگھڑ میں روپوش ہے۔ بہت سے ممالک اپنے اعدادوشمار چھپا رہے ہیں تاکہ وہ پابندیوں سے محفوظ رہ سکیں اور ان کے ہاں معاشی سرگرمیاں معمول کے مطابق جاری رہیں۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق کورونا وائرس کا بیس کیمپ چین ہی ہے اور یہیں سے پھر یہ دوسرے ملکوں میں متاثرہ انسانوں کے ذریعے پہنچا اور یہ بھی کہ یہ وائرس ایسے جانوروں سے انسانوں کو منتقل ہوا‘ جو دین اسلام میں حرام ہیں اور ان کو کھانے سے منع کیا گیا ہے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ مسلم ممالک کے نامور سکالرز میدان میں اترتے‘ موقع کو غنیمت جانتے ہوئے اسلامی تعلیمات کو فروغ دیتے اور اسلامو فوبیا کو پھیلانے والے عناصر میں عقل و دانش کے ذریعے دین اسلام میں حلال و حرام کے تصور کو اجاگر کرتے۔
کورونا وائرس سے بچاؤ کے لئے جو حفاظتی تدابیر اور طور طریقے بتائے جا رہے ہیں‘ وہ تو دین اسلام کی بنیادی تعلیمات ہیں۔ صفائی کو ہمارے دین میں نصف ایمان کہا گیا ہے۔ کورونا وائرس سے بچاؤ کیلئے عوامی شعور پیدا کیا جا رہا ہے کہ چھینک آئے تو منہ پر ہاتھ رکھا جائے اور چھینک منہ ایک طرف کرکے ماری جائے تاکہ کوئی دوسرا شخص اس سے متاثر نہ ہو۔ اسلامی تعلیمات میں بھی چھینک مارنے کے علاوہ جمائی لیتے وقت بھی ہاتھ منہ پر رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے اور اس کے بعد اپنے ہاتھ صاف کرنے کا بھی درس دیا گیا ہے۔ کورونا وائرس سے بچنے کیلئے دوسری حفاظتی تدبیر کے طور پر بتایا جا رہا ہے کہ اپنے ہاتھوں کو بار بار دھوتے رہیں تاکہ وائرس ہاتھوں کے ذریعے منہ کے راستے آپ کے جسم میں داخل نہ ہو سکے۔ دینِ اسلام میں پانچ نمازیں فرض ہیں اور نوافل کی ادائیگی پر کوئی قدغن نہیں، صرف طلوع اور غروب کے وقت سجدوں سے منع کیا گیا ہے۔ نماز کی ادائیگی کیلئے وضو کو لازم قرار دیا گیا ہے۔ خود اندازہ لگا لیجئے کہ دینِ اسلام پر عمل پیرا ایک مسلمان دن میں کم از کم پانچ بار اپنے ہاتھ منہ بازو اور پاؤں تک کو دھوتا ہے اور مزید یہ کہ کھانا کھانے سے پہلے اور بعد میں بھی ہاتھ دھونے اور کُلی کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ طہارت کے بعد بھی اپنے آپ کو پاک صاف رکھنے کی تعلیمات اسلام میں موجود ہیں‘ غرض یہ کہ اسلامی تعلیمات میں روحانی و جسمانی صفائی کی خاص ہدایات ہیں۔ اکثر مسلمان اس پر عمل پیرا ہوتے ہیں اور دین اسلام کا پیروکار کم و بیش دن میں دس سے پندرہ بار اپنے ہاتھ منہ کو صاف کرتا ہے۔ اسی طرح مسواک یا ٹوتھ برش کی بھی تعلیمات موجود ہیں۔ جبکہ وبائی مرض پھیلنے کی صورت میں رحمت العالمین آخری پیغمبرالزماں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ متاثرہ علاقے میں نہ کوئی داخل ہو اور نہ ہی کوئی متاثرہ علاقے سے نکلے جب تک کہ وبائی مرض پر قابو نہ پا لیا جائے۔
اب ذرا ایک جائزہ لیں تو کورونا وائرس کے پھیلنے کی وجوہ سے لے کر اس سے بچنے تک کیلئے عالمی ادارہ صحت نے جو ہدایات جاری کی ہیں‘ کیا ان تمام اقدامات کی تعلیمات دین اسلام کا لازمی جزو نہیں ہیں؟ جواب سو فیصد اثبات میں ہے۔ تو پھر دنیا بھر میں پھیلے ہمارے تمام مسلم سکالرز اور دانشور اس نازک موقع پر اپنا فرض ادا کیوں نہیں کر رہے؟ اور اقوام عالم کو دین اسلام کی حقانیت سے آگاہ کیوں نہیں کر رہے لیکن بالعموم دین کی پوری تعلیمات اپنے علما بھی عام لوگوں کے سامنے پیش نہیں کرتے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارا دین ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس کیلئے آخری الہامی کتاب قرآن مجید اتاری گئی جو پندرہ صدیوں کے بعد بھی اصلی حالت میں ہمارے پاس موجود ہے اور قیامت تک قرآن پاک کی حفاظت کی ذمہ داری بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمے لی ہے۔ پہلی سورہ فاتحہ کی پہلی آیت 'الحمدللّٰہ رب العالمین‘ سے لے کر آخری سورہ‘ سورۃ الناس کی آخری آیت 'مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ‘ تک قرآن پاک پوری کائنات سے مخاطب ہے اور سب کو ایک ضابطہ حیات دیتا ہے۔ قرآن پاک کی عملی تفسیر آخری پیغمبر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسوہ حسنہ اور حیات مبارکہ ہے۔ سونے جاگنے سے لے کر شب و روز کے معمولات تک زندگی کیسے گزارنی ہے‘ قرآن مجید میں بیان کر دیا گیا ہے۔ کاروبار کی کیا اخلاقیات ہیں؟ ناپ تول کیسے کرنا ہے؟ یتیموں‘ مساکین، بے سہارا لوگوں کے ساتھ کیسا برتاؤ کرنا ہے‘ رشتے داروں ہمسایوں کے حقوق کیا ہیں؟ سورہ ماعون میں تو یہاں تک بتایا گیا کہ ہلاکت ہے ایسے لوگوں کیلئے جو یتیموں کو دھکے دیتے ہیں جو مسکینوں کو کھانا نہیں کھلاتے جو ریاکار ہیں جو عام استعمال کی چیزیں دوسرے بھائیوں کو دینے میں بخیلی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ایسے نمازیوں کو بھی متنبہ کیا گیا جو اپنی نمازوں سے غافل ہیں۔ رشتوں کی حرمت، بچوں کے حقوق، بڑوں کے فرائض‘ شوہر اور بیوی کے حقوق و فرائض اور وراثت میں خواتین بیوگان‘ ماں بیٹیوں کا حصہ تک مقرر کیا گیا ہے۔ ماں‘ بیٹی اور بیوی کے لیے تو شوہر اور والدین‘ دونوں کی طرف سے جائیداد میں حصے کا تعین بڑا واضح کر دیا گیا ہے۔
جانوروں کے حقوق‘ ہمسایوں کے حقوق گویا ایک ایک حق کی وضاحت کر دی گئی اور جو ان حکامات کی خلاف ورزی کریں گے‘ ان کیلئے دردناک عذاب کی خبر سنائی گئی ہے۔ خواتین کے حقوق‘ ان کے رشتوں کی حرمت و تقدس کے بارے میں خاص احکامات بیان کیے گئے ہیں۔ باپ‘ شوہر‘ بھائی‘ بیٹے کے پورے کرنے کے بارے میں بڑی فصاحت کے ساتھ حکم صادر کیا گیا ہے۔ خواتین کی عصمت‘ شرم و حیا کی حفاظت کیلئے بھی واضح تلقین اور قواعد و ضوابط بیان کیے گئے ہیں۔ خواتین کے ہر رشتے کو ایک پاکباز اعلیٰ و ارفع مقام دیا گیا ہے‘ پیدائش سے لے کر لحد میں اتر جانے تک ایک مکمل ضابطہ حیات دیا گیا ہے۔ حکمرانوں کو عوام کا خادم کہہ کر ان کو فرائض کے بوجھ تلے دیا گیا ہے کہ وہ عوام کی خدمت پر مامور ہیں نہ کہ رعونت اور تکبر کیلئے۔ خالق کائنات نے انسان سمیت ہر چیز کو ایک قاعدے قانون کے تحت تخلیق کیا ہے اور قواعد و ضوابط کا پابند بنایا ہے‘ جس کے تحت اسے زندگی گزارنا ہے۔ اسے محدود اختیار دیا گیا ہے تاکہ کائنات کا نظم و نسق ایک ڈسپلن کے تحت چلے نہ کہ مادر پدر آزادی کے ذریعے کوئی بھی انسان معاشرے کو تہ و بالا کر دے۔ اس لئے ہر انسان اور ریاست کا ہر شہری ایک قانون ضابطے کا پابند ہے۔ وہ اپنی سوچ، اپنی خواہشات کی تکمیل، اپنے فیصلے کرنے میں مادر پدر آزاد ہرگز نہیں۔ اس کا جسم‘ اس کی روح‘ اس کی سوچ‘ اس کے حواس خمسہ خالق کے عطا کردہ ہیں‘ نہ میرا جسم اپنا ہے نہ میری مرضی لا محدود ہے‘ اس لئے اللہ تعالیٰ نے خود کشی کو بھی حرام قرار دیا ہے۔ زندگی دینے زندگی گزارنے اور زندگی واپس لینے کا اختیار بھی خالق کائنات نے اپنے پاس ہی رکھا ہے۔