29 فروری کو آخر کار امریکا اور طالبان کے درمیان وہ چار نکاتی ''امن معاہدہ‘‘طے پا گیا‘ جس میں فریقین نے سیز فائر‘غیر ملکی فورسز کے انخلاء کا ٹائم فریم اور بین الافغان مذاکرات کے علاوہ انسداد ِدہشت گردی کی ضمانتیں شامل ہیں‘لیکن اس معاہدہ کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ امریکی مقتدرہ نے طالبان کی اس جلا وطن امارات ِاسلامی کوتسلیم کر لیا‘جو طالبان اور امریکا کے درمیان اصل وجہ تنازع بنی تھی‘جسے عالمی امن کیلئے خطرہ سمجھ کے مغربی ممالک نے پہلے طالبان حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کیا۔بعدازاں دہشت گردی کے الزامات لگا کرامریکی قیادت میں مغربی طاقتیں اس پامال ملک پہ چڑھ دوڑیں ‘جس میں پتھروں اور افلاس کے سوا کچھ باقی نہیں بچا تھا۔اب ‘سوال یہ ہے کہ اٹھارہ سال پہ محیط تباہ کن جنگ کے بعد امریکا نے امارات ِاسلامی افغانستان کے اس تصور کو قبول کیوں کر لیا‘ جسے وہ مغربی تہذیب کیلئے خطرہ سمجھتے تھے؟کیا دنیا کی واحد سپرپاور بے سر وسامان طالبان سے شکست کھا کے عالمی برتری کے دعوے سے پسپا ہوگئی؟ کیا طالبان واقعی اس قدر طاقتورتھے کہ امریکا سمیت روئے زمین کی کوئی قوت انہیں تسخیر نہیں کر سکی؟یا پھر مغرب کی دجالی قوتیں افغان جنگ کا رخ کسی اور سمیت پھیرنے کیلئے حکمت عملی کے تحت تزویری پسپائی اختیار کرکے کوئی نئی چال چلنا چاہتی ہیں؟علیٰ ہٰذالقیاس! یہ اور اسی طرح کے کئی اور تلخ سوالات ہر ذہن میں کُلبُلاتے ہوں گے۔اس امن معاہدہ بارے خود امریکی اہل ِدانش کو بھی شرح صدر نہیں ملی۔تجزیہ کاروں کے مطابق‘امن اور پسپائی دو مختلف چیزیں ہیں اور اس ڈیل میں امن کی کوئی امید شامل نہیں‘ بلکہ اس معاہدہ نے امریکی دوستوں کی تعداد کم اور دشمنوں کو زیادہ طاقتور بنا دیا‘پیس ڈیل دراصل طالبان کو فائدہ پہنچانے کی سکیم نظر آتی ہے۔پہلے ایک سو پینتیس دنوں میں امریکی فورسز کی تعداد 8600 جوانوں تک گھٹا دی جائے گی‘پھرچودہ ماہ میں غیرملکی فورسزکا انخلاء مکمل کرکے طالبان کیلئے میدان صاف کردیا جائے گا۔دوسری جانب پانچ ہزار طالبان قیدیوں کی رہائی طالبان کی فوجی قوت میں اضافہ کا سبب بنے گی۔معاہدہ کی رو سے طالبان رہنماؤں پہ عاید سفری پابندیاں ختم‘اسلحہ کی خریداری اورمنجمد اثاثہ جات بحال اورمیڈیا سے بات چیت کی آزادی مل جائے گی ‘لیکن اس معاہدہ میں افغان گورنمنٹ کے خلاف طالبان حملوں پہ کوئی پابندی نہیں لگائی گئی؛چنانچہ اس ڈیل سے افغانستان میں طاقت کا توازن بدل جائے گا۔امریکی دانشور کہتے ہیں کہ پیس ڈیل کی بجائے ‘اگر غیر ملکی فورسز کے انخلاء کے یک نکاتی ایجنڈا پہ اکتفاکر لیا جاتا ‘توطالبان کو طاقت نہ ملتی‘ لیکن مایوس امریکی مقتدرہ نے چند ناقابل ِعمل وعدوں کے ایفا کی امید پہ ناقابل بھروسہ دشمن کو سہولتیں مہیا کر دیں۔طالبان سے وعدہ لیا گیا کہ وہ افغانستان میں القاعدہ کو اڈے نہیں دیں گے۔گویا اب‘ امریکا کو اپنی نیشنل سکیورٹی کیلئے طالبان پہ انحصار کرنا پڑے گا۔اس وعدہ میں یہ پیغام تو پنہاںہے کہ القاعدہ اب بھی امریکا کیلئے خطرہ ہے‘ لیکن معاہدہ میں متذکرہ وعدوں کی تکمیل کی کوئی ضمانت نہیں ملتی؛چنانچہ جس دن امریکا‘ افغانستان سے نکل گیا تو وہ ان وعدوں پہ عملدرآمدکی استعداد بھی کھو دے گا۔ادھر ٹرمپ انتظامیہ کہتی ہے کہ افغان جنگ میں ہماری فورسز سکیورٹی اہداف حاصل کرنے میں ناکام نہیں ہوئیں‘جنگ کے ذریعے طالبان کواقتدار سے محروم کرنے کے علاوہ القاعدہ کو دوبارہ عالمی سطح پہ ابھرنے کیلئے درکار محفوظ پناہ گاہیں تباہ کردی گئیں؛اگرچہ ہم طالبان کو مٹا سکے‘ نہ افغان سماج کی قلب ِماہیت (Trasform) کرنے میں کامیاب ہوئے‘ لیکن قومی دفاع کا فریضہ خوب نبھایا اور اب بھی کم سے کم جانی نقصانات کے بدلے دفاع جاری رکھیں گے‘لیکن ڈیموکریٹ ناقدین کہتے ہیں کہ حقیقت یہ ہے کہ امریکیوں نے دشمنوں کو طاقت فراہم کر کے افغان اتحادیوں کو دھوکا دیا‘ کیونکہ انہیں یقین ہے کہ وہ ناکام ہو گئے ہیں اور اس معاہدہ کو ''کبھی نہ ختم ہونے والی جنگ‘‘کے آشوب سے نکلنے کا بہترین موقعہ سمجھتے ہیں‘مگر افسوس کہ طویل جنگوں کے اکتائے ہوئے امریکی ٹرمپ انتظامیہ کی پسپائی کے خلاف مزاحمت نہیں کر سکتے‘اس لیے وائٹ ہاؤس شکست کے بیانیہ کو مسترد کر رہا ہے؛ حالانکہ دنیا میں ''کبھی نہ ختم ہونے والی جنگ‘‘سے زیادہ مہیب بلائیں موجود ہیں‘اگر ہم ابدی سچائیوں پہ شک کریں گے ‘تو اندرون مین ہٹن کی طرح یہ فانی خطرات زمین کے کسی بھی کونے سے ابھر کے ہمارے سامنے آ سکتے ہیں‘‘۔
شاید اسی تنقید سے زچ ہو کے امریکی فضائیہ نے ان طالبان جنگجوؤں کی پوزیشنوں پہ علامتی حملے کئے جو افغان گورنمنٹ کے کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ بہرحال‘اس معاہدہ میں افغانستان کے انحطاط کے مظاہر سے نمٹنے کی کوشش کی گئی‘ نہ عوام کے دکھوں کے مداوے کا سوچا گیا ؛حالانکہ ان جنگوں میں سب سے زیادہ دکھ افغان شہریوں نے اٹھائے۔2001 ء سے اب تک157000 لوگ زندگی گنوا بیٹھے‘جن میں43000 سویلین شامل تھے‘پچھلے پانچ سال میں 45000 افغان فوجی و افسران ہلاک اور 25 لاکھ لوگ نقل مکانی پہ مجبور ہوئے‘لیکن اس سب کے باوجود امن معاہدہ میں ملک کے مستقبل کا تعین کیا گیا ‘نہ تقسیم اختیارارت کے فارمولہ پہ بات ہوئی۔آئین اور جمہوری اداروں کی تخلیق کی ضمانت نہیں دی گئی؛حتیٰ کہ طالبان جنگجوؤں کو غیر مسلح کر کے معاشرے کا کارآمد شہری بنانے کی سکیم تک زیر غور نہیں آئی۔کسی نے یہ نہیںسوچا کہ کمزور مرکزی حکومت کیلئے نسلی تضادات‘فرقہ وارانہ تعصبات اور قبائلی تنازعات میں الجھی سوسائٹی کو ریگولیٹ کرنا بھلا کیسے ممکن ہو گا؟حالیہ الیکشن میں نو ملین رجسٹرڈ ووٹرز میں سے صرف اٹھارہ لاکھ افراد ووٹ کاسٹ کر سکے‘پولنگ سٹیشنز پہ حملے ہوئے‘گزشتہ کئی ماہ سے انتخابی نتائج رکے ہوئے ہیں‘ لیکن موجود صدراشرف غنی نے اپنی جیت کا یک طرفہ اعلان کر کے سیاسی تفریق بڑھا دی۔اس پورے تناظر میں قرین قیاس تو یہی ہے کہ عالمی طاقتیں یہاں امن لانے کی بجائے افغان سرزمین کو کسی نئی جنگ کا میدان کارزار بنانے کی پالیسی پہ عمل پیرا ہیں‘جس کا ممکنہ ہدف روس کی قیادت میں ایران‘ترکی‘عراق اورشام پہ مشتمل ابھرتا ہوا ‘ وہ عسکری اتحاد ہوگا‘جس میں مڈل ایسٹ پہ غلبہ پانے کی صلاحیت موجود ہے۔الغرض امن معاہدہ میں امارات ِاسلامی کو تسلیم کرنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اب ‘افغانستان میں الیکشن نہیں ہوں گے ‘بلکہ وہاں ایسی آمریت مسلط کر دی جائے گی ‘جس کی اساس یک جماعتی استبداد پہ رکھی ہو گی‘اسی احساس نے افغان صدر اشرف غنی اورچیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کو امن معاہدہ طے پانے کے فوراً بعد طالبان قیدیوں کی رہائی سے انکار پہ مجبورکیا ہو گا‘کیونکہ وہ افغان سماج کی نفسیات کو جانتے ہیں‘اگر وہ مزاحمت نہ کر سکے توان کے کل حامی فاتح طالبان کا استقبال کریں گے۔
لاریب‘یہاں لوگ کسی جذباتی نصب العین کی نہیں‘ قوت کی اطاعت کرتے ہیں۔ہرچند کہ طالبان کے سابق سفیر ملا عبدالسلام ضعف کہتے ہیں: ''اگر چین‘پاکستان اور ایران مداخلت نہ کریں‘ تو افغان اپنے داخلی تنازعات کو سنبھال لیں گے‘‘ تاہم امر واقعہ یہ ہے کہ جفاکش افغان لمبی مزاحمتی جنگیں لڑنے کا ہنر ضرور جانتے ہوں گے‘ لیکن رموزِ حکمرانی کے آرٹ سے بالکل ناواقف ہیں‘لہٰذا پچھلے پانچ سو سال میں غیر محدودجنگیں لڑنے اورعظیم الشان فتوحات کے باوجود وہ چھوٹے سے افغانستان کو منظم مملکت بنا سکے‘ نہ فرسودہ قبائلیت کو ارتقاء پذیر سماجی دھارے میں بدل پائے۔اکیسویں صدی میں بھی وہاں قبائلیت میں پھنسی اجتماعی زندگی جبلی عصبیتوں سے اوپر اٹھ کے مقصدیت کی صبح ِنور کو دیکھ نہیں سکتی؛ چنانچہ غیر معمولی مزاحمت کی علامت طالبان اورافغانوںکی پرُشکوہ سیاسی قیادت سے افغانستان کو ایک آزاد‘خود مختار اور مربوط مملکت بنانے کی توقع رکھنا محال ہو گا‘اس لیے ہمیشہ کی طرح اب‘ بھی انہیں بیرونی قوتوں کے ''تعاون‘‘کی ضرورت پڑے گی!