تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     07-03-2020

بات بات کا تماشا بنانا

عورت مارچ ہوا یا پاکستان پہ حملہ ہونے والا ہے؟ پاکستان نہیں اُس کی نظریاتی سرحدوں پہ حملہ۔ ہمارا واحد ملک ہے جس کی دو سرحدیں ہیں، ایک جغرافیائی اور دوسری نظریاتی۔ جغرافیائی سرحدوں کا ہماری تاریخ میں تھوڑا بہت رَدّوبدل ہوتا رہا ہے۔ شمالی کشمیر کے کچھ علاقے جو کہ ہماری تحویل میں تھے دوسری طرف جا چکے ہیں۔ حاجی پیر پاس یا درہ ہمارا ہوا کرتا تھا، اب اوروں کا ہے۔ 1984ء تک سیاہ چن ویسے ہی پڑا ہوا تھا، کسی کے قبضے میں نہیں تھا۔ ہم قبضے کا سوچتے ہی رہ گئے، اوروں نے پہل کر دی اور زیادہ حصے پہ قبضہ کر لیا۔ مشرقی پاکستان کی مثال کیا دینی لیکن جغرافیائی سرحدوں کی سب سے بڑی تبدیلی تو وہ تھی۔
یہ تمام صدمے ہم نے کمال ہمت و استقامت سے برداشت کیے لیکن جو چیز ہماری برداشت سے باہر ہے وہ نظریاتی سرحدوں پہ حملہ ہے۔ یہ سرحدیں ہیں بھی اتنی حساس کہ چھوٹی چھوٹی چیزوں سے انہیں خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ مسئلہ کہیں اور کا ہو خطرے میں ہماری نظریاتی سرحدیں پڑ جاتی ہیں۔ عورت مارچ کیا ہوا یہ بھی کچھ معزز زعما کی نظروں میں ہماری نظریاتی اساس پہ حملہ ہے۔ کیا کیا فلسفیانہ بحثیں اس پہ ہو رہی ہیں۔ جو اس کے حق میں ہیں وہ عجیب باتیں کر رہے ہیں اور جو اِسے پاکستانی تشخص پہ حملے کے مترادف سمجھتے ہیں وہ بھی کمال کر رہے ہیں۔ 
چند خواتین نے کسی نعرے کے تحت بھی کوئی ریلی نکال لی اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ایک دن کی بات ہے، آئے گا اور گزر جائے گا۔ لیکن ہمارے ڈنڈا بردار ہیں جنہوں نے ایسی چیزوں کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے۔ اُن کا تو کام ہے کہ اخلاقیات کے ہمہ وقت پہرے دار ٹھہریں۔ انہوں نے تو ایسی چیزوں پہ اعتراض اُٹھانا ہی ہے لیکن ہر چھوٹی دھمکی سے مرعوب ہونا کہاں کی سمجھداری ہے۔ کوئی فلم بنتی ہے، اس میں ایک آدھ سین تھوڑا ہٹ کے ہو جاتا ہے اور اس پہ ایسا شور اٹھتا ہے کہ حکومت وقت مرعوب ہوتی اور فلم پہ پابندی لگ جاتی ہے۔ تاریخی طور پہ یہ سرزمین‘ جو اب پاکستان کہلاتی ہے‘ تنگ نظروں کی سرزمین نہیں تھی۔ یہاں کے تمام لوگ، جو بھی اُن کی زبان ہو جو بھی ان کا کلچر ہو، شغل میلہ کرنے والے رہے ہیں۔ ہمارے لوک گیت دیکھ لیجیے۔ جو اس دھرتی سے شاعری اُٹھی ہے اس میں کوئی تنگ نظری کا شائبہ بھی ملتا ہے؟ کہاں ہیر کی داستان اور بلھے شاہ کی شاعری اور کہاں ہماری مصنوعی تنگ نظری؟
یہ جو خانقاہوں اور مزاروں کے حوالے سے سالانہ عرس یا میلے ہوتے ہیں‘ ایک زمانے میں ان کا روپ اور ہی ہوا کرتا تھا۔ ان کو مذہبی موقعوں سے زیادہ تہواروں کے طور پہ منایا جاتا تھا۔ بری امام سرکار کا عرس ہوتا تھا تو لاہور کے اس بازار‘ جو سردار ہیرا سنگھ کے نام سے جانا جاتا ہے‘ کے مکین بھاری تعداد میں نہ صرف عرس پہ حاضری دیتے تھے بلکہ باقاعدہ دھمال ڈالی جاتی تھی۔ یہی حال دوسری خانقاہوں کا ہوتا تھا۔ میرے گاؤں بھگوال کے پاس کرسال کا مقام ہے، وہاں کا میلہ اب بھی ہوتا ہے لیکن گزرے وقتوں میں اس کی جھنکار کچھ اور ہی ہوا کرتی تھی۔ لاہور وغیرہ سے یہاں کون کون سے لوگ نہیں آتے تھے۔ امیر و غریب سب کے لئے کچھ نہ کچھ ہوتا تھا۔ اندر بیٹھکوں میں محفلیں سجتی تھیں لیکن کھلے میدان میں آسمان اور تاروں تلے بھی بہت کچھ ہوتا تھا۔ سیہون شریف میں تو میں نے خود اپنی گناہگار آنکھوں سے وہ مناظر دیکھے جن سے لگتا تھا کہ تمام اندرون سندھ سے گویے اور دھمال ڈالنے والے یہاں پہنچے ہوئے ہیں۔ یہ چالیس سال پہلے کی بات ہے لیکن جو دھمال تب دیکھی وہ آج تک ذہن پہ نقش ہے۔ 
پھر وہ نامراد وقت آیا جب ایسے میلوں کی اصلاح شروع ہوئی‘ پابندیاں لگیں، نت نئے قدغن ایجاد کیے گئے۔ ان میلوں کی ساری روح مار دی گئی۔ بری امام کا عرس اب بھی ہوتا ہے لیکن کہاں پہلے کی سرمستی اور کہاں آج کی سوکھی ویرانی۔ روح کے علاوہ مزاروں کی شکل محکمہ اوقاف نے بگاڑ کے رکھ دی ہے۔ آج بیشتر مزار ایک جیسے ہی لگتے ہیں۔ یہ تہوار عام آدمیوں کے، غریبوں اور مسکینوں کے تہوار ہوا کرتے تھے۔ ان کی روح کو مسخ کرکے اس دھرتی کے عام آدمی سے زیادتی کی گئی ہے۔
غربت اور زیادتی اس دھرتی کی تاریخ کاحصہ رہے ہیں۔ لیکن ظلم و زیادتی کے باوجود عام آدمی اپنی خوشیاں کسی نہ کسی طریقے سے ڈھونڈ نکالتے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد جو اخلاقیات کے بخار اس دھرتی پہ آئے اس سے اور تو کچھ نہیں ہوا، معاشرہ کسی بلند سطح پہ نہیں چلا گیا، فقط عام آدمی کی خوشیاں محدود ہوئیں۔ جو آرام میں رہتے ہیں انہیں ایسی چیزوں سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اُن کی تسکین و عشرت کے اپنے سامان ہوتے ہیں اور معاشرے کے تغیر سے اس سامان پہ کوئی اثر نہیں پڑتا۔ یہ ازلی حقیقت ہے اور تاریخ کے ہر دور میں ایسا ہی ہوا ہے۔ امرا اپنا کام نکال لیتے ہیں۔ یا حالات بہت خراب ہوں جیسے افغانستان اور ایران میں اوپر کے طبقات کیلئے ہوئے تو وہ ہجرت کر جاتے ہیں۔ اپنی دولت سمیٹ کے اپنی کمین گاہیں کہیں اور لے جاتے ہیں۔ 
پاکستان میں امیر لوگ ہیں لیکن بنیادی طور پہ یہ امیروں کا ملک نہیں۔ یہاں کی بھاری اکثریت بس گزارہ ہی کرتی ہے۔ ان کے حالات ہم نے کیوں مشکل بنا دئیے؟ جب پرانی طرز پہ عرس یا میلے ہوا کرتے تھے تو کسی کو کیا نقصان پہنچتا تھا؟ حکمران اپنے فیصلے کر رہے تھے کہ یہاں سے قرض لینا ہے، فلاں ملک کی گود میں جا بیٹھنا ہے اور فلاں دفاعی معاہدے کرنے ہیں تو کم از کم اس معاشرے کی تاریخی حقیقت اور اقدار کو برباد نہ کرتے۔ لیکن ایک مصنوعی اخلاقیات کے نام پر پاکستان کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔ چلیں جو ہو گیا سو ہو گیا۔ رونے پیٹنے کا کیا فائدہ۔ بگاڑ کی اب اصلاح ہونی چاہیے۔ تاریخ کا پہیہ جو غلط سمتوں کو گیا وہ پیچھے موڑنا چاہیے۔ لیکن یہاں اخلاقیات کے ٹھیکیدار ہر وقت نان ایشوز کو موضوع بنائے رکھتے ہیں اور حکومتیں اِن کے سامنے جھکتی رہتی ہیں۔ 
ہم کیا دیگر ممالک سے بہتر ہیں؟ ہمارے اخلاقیات کے پیمانے کیا زیادہ پختہ اور صاف ہیں؟ کیا ان معاشروں میں جھوٹ زیادہ بولا جاتا ہے اور یہاں جھوٹ ڈھونڈنے کو نہیں ملتا؟ اُن معاشروں میں عورت مار چ چھوڑئیے، کون کون سے مارچ نہیں ہوتے۔ میں تو وہ نام بھی نہیں لے سکتا جن نعروں کے تحت دیگر معاشروں میں ریلیاں اور مارچ نکالے جاتے ہیں۔ لیکن مارچ کرنے والے مارچ کرتے ہیں اور دوسرے لوگ اپنے کاموں میں مصروف رہتے ہیں۔ برداشت اور رواداری کا مظاہرہ مارچ کرنے والے اور عام شہری دونوں برابر کا کرتے ہیں۔ اسلام کا نام ہم لیتے ہیں، رواداری تو یہاں زیادہ ہونی چاہیے۔ لیکن منہ سے بات نکلی نہیں اور دوسری طرف سے ڈنڈوں کا لہرانا شروع ہو جاتا ہے۔ مذہبی رہنما دوسرے ملکوں میں بھی ہوتے ہیں لیکن اُن کا لہجہ وہ نہیں ہوتا جو یہاں عموماً پایا جاتا ہے۔
عام پنجابی، سندھی اور پختون کی حسِ مزاح بڑی تیز ہے۔ ہم اپنی زبانوں میں اور اپنے احوال کی نسبت سے جو لطیفے گھڑتے ہیں‘ کیسے ہنسا دینے والے ہوتے ہیں۔ لیکن اجتماعی معاشرے کا مزاج کیوں حسِ مزاح سے تقریباً خالی ہے؟ بہت ساری ایسی چیزیں روزمرہ زندگی کی ہوتی ہیں جنہیں ہنس کے ٹال دینا چاہیے۔ لیکن ہمارے زعما فوراً ہی دھمکیوں پہ اُتر آتے ہیں۔ بولتے ایسے ہیں کہ لگتا ہے منہ سے جھاگ اڑنے والی ہے۔ معاشرے کے مسائل ویسے ہی بہت ہیں۔ اجتماعی موڈ کو تھوڑا نرم کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی جاتی؟ عام لوگ آپس میں بیٹھیں تو ان باتوں پہ ہنس دیتے ہیں۔ لیکن زعما اور حکمران ہیں کہ لگتا ہے ہمیشہ غصے کی کیفیت میں رہتے ہیں۔ 
معاشرے کو تھوڑا نارمل کی طرف لے جانے کی ضرورت ہے۔ معاشی حالات اتنے اچھے نہیں اور جلد انہوں نے ٹھیک نہیں ہونا۔ کم از کم جو آسانیاں لوگوں کی زندگیوں میں پیدا کی جا سکتی ہیں وہ کوشش تو ہونی چاہیے۔ اب میں کیا ذکر کروں کہ اپنے لیے ہم نے کیا کیا مشکلات کھڑی کی ہوئی ہیں۔ یہ مشکلات ایسی ہیں جو آپ کو دنیا کے بیشتر حصوں میں نہیں ملیں گی۔ لیکن اخلاقیات کے ٹھیکیدار جو ہم ٹھہرے۔ ذاتی زندگی میں ہم جو بھی کرتے رہیں وہ ٹھیک ہے لیکن جہاں قوم کی اخلاقیات کی بات آئے ڈنڈا نہ لہرائیں تو آرام کیسے آئے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved