کبھی کبھی میں سوچتا ہوں زندگی کی بساط پر بعض اوقات محض ایک چال سے کیسے پورے کھیل کی بازی الٹ جاتی ہے۔ اس کا اندازہ مجھے 1987ء میں ہوا۔ 1987ء کا سال کرکٹ کے حوالے سے میرے لیے ایک یادگار سال ہے۔ اس سال مجھے کرکٹ کے دو بڑے میچ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ پہلا میچ برمنگھم میں ایج بسٹن کے گرائونڈ پر پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان تھا۔ ان دنوں میں یونیورسٹی آف مانچسٹر کا طالب علم تھا اور میرا پڑھائی کا آخری سال تھا۔ مجھے یاد ہے ہم کچھ پاکستانی طالب علم ایک وین میں مانچسٹر سے برمنگھم گئے تھے۔ وین پر پاکستان کا بڑا سا پرچم لہرا رہا تھا۔1987 ء کی پاکستانی کرکٹ ٹیم نے انگلینڈ کی ٹیم کو اسی کے میدان میں شکست دے کر ٹیسٹ سیریز جیت لی تھی۔ اس سیریز میں عمران کی بائولنگ اور جاوید میاں داد کی بیٹنگ کو کون بھول سکتا ہے‘ لیکن 25 مئی کو ایج بسٹن میں ہونے والے ون ڈے میں سٹیڈیم میں ہزاروں تماشائیوں کی داد کے باوجود پاکستانی ٹیم ہار گئی تھی۔ میں اسی سال اگست یا ستمبر کے مہینے میں اپنی تعلیم مکمل کرکے پاکستان آ گیا۔
اسی سال ریلائنس ورلڈ کپ کھیلا جانا تھا۔ یہ کرکٹ کا چوتھا ورلڈ کپ تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان کے کھیلوں کے میدان آباد ہوتے تھے۔ دنیا بھر کی ٹیمیں یہاں آتی تھیں۔ سکیورٹی کے نام پر سڑکیں بند نہیں ہوتی تھیں۔ غیر ملکی ٹیموں کے کھلاڑیوں کو ہوٹل میں آسانی سے ملا جا سکتا تھا۔ یہ اسی زمانے کی بات ہے جب ورلڈکپ کے کچھ میچ پاکستان میں بھی ہوا کرتے تھے۔ ریلائنس ورلڈ کپ کا دورانیہ 8 اکتوبر سے 8 نومبر 1987ء تک تھا۔ اس ٹورنامنٹ کا ایک سیمی فائنل4 نومبر کو پاکستان اور دوسرا 5 نومبر کو بھارت میں کھیلا جانا تھا۔ پاکستان کی ٹیم سیمی فائنل میں پہنچ چکی تھی جہاں اس کا مقابلہ آسٹریلیا کی ٹیم سے تھا۔ ادھر پاکستان کا روایتی حریف بھارت بھی سیمی فائنل میں پہنچ چکا تھا جہاں اس کا مقابلہ انگلینڈ کے ساتھ تھا۔ یہ دوسرا سیمی فائنل 5 نومبر کو بھارت میں کھیلا جانا تھا۔
کرکٹ کے ماہرین کا خیال تھا کہ پاکستان بہ آسانی سیمی فائنل جیت جائے گا۔ اس کی بڑی وجہ آسٹریلیا کی ٹیم تھی۔ یہ ایک کمزور ٹیم تھی جس کے تجربہ کار کھلاڑی ریٹائر ہو چکے تھے۔ کچھ کھلاڑیوں پر جنوبی افریقہ کے دورے کے بعد پابندی لگ چکی تھی۔ آسٹریلیا کی ٹیم میں صرف ایلن بورڈر ایک تجربہ کھلاڑی تھے۔ باقی سب کھلاڑیوں کا ون ڈے میچوں کا تجربہ بہت مختصر تھا۔ اس جوش و خروش کی فضا میں ٹاس ہوا جو آسٹریلیا نے جیت لیا اور بیٹنگ کا فیصلہ کیا۔ آسٹریلیا کی طرف سے جیف مارش اور ڈیوڈ بون اننگز کا آغاز کرنے آئے۔ پاکستان کی طرف سے بائولنگ کا آغاز عمران خان اور سلیم جعفر نے کیا۔ کرکٹ کے جاننے والوں کے لیے یہ بات نئی تھی کہ وسیم اکرم کو نئی بال نہیں دی گئی تھی۔ بہرحال آسٹریلیا کے اوپنرز نے اپنی ٹیم کو 73 رنز کا مضبوط سٹارٹ دیا۔ آسٹریلیا کی پہلی وکٹ 73 کے سکور پر گری۔ اس کے بعد ایک اہم واقعہ ہوا۔ پاکستان کے سپن بائولر عبدالقادر نے ڈین جونز کو بال کروائی جو اس کے پیڈ پر لگی جو وکٹ کے بالکل سامنے تھا‘ لیکن امپائر نے اسے آئوٹ نہیں دیا۔ اگلی ہی بال پر ڈین جونز نے ایک چوکا لگایا۔ اس سے اگلی بال وکٹ کے پیچھے کھڑے وکٹ کیپر سلیم یوسف کے منہ پر جا کر لگی۔ سلیم یوسف کی جگہ جاوید میاں داد پیڈ پہن کر وکٹ کیپر بن گئے۔ ادھر آسٹریلیا کے سکور میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا۔ 30 اوورز میں 150 رنز بن چکے تھے۔ پاکستانی ٹیم میں بائولرز کی فہرست میں عمران خان، وسیم اکرم، سلیم جعفر، عبدالقادر، توصیف اور سلیم ملک شامل تھے۔ 49 اوورز کا کھیل مکمل ہو چکا تھا اور صرف ایک اوور کا کھیل باقی تھا۔ آسٹریلیا نے 49 اوورز میں249 رنز بنا لیے تھے۔ اب عمران خان کو فیصلہ کرنا تھا کہ آخری اوور کس کو دیا جائے وسیم اکرم، عمران خان، عبدالقادر اور توصیف اپنے اوورز کا کوٹا مکمل کر چکے تھے۔ عمران کی سلیم جعفر کے حق میں ایک دلیل تھی کہ وہ سپشلائزڈ بائولر تھا‘ لیکن دوسری طرف اس میچ میں اس کی کارکردگی ابھی تک بہت ناقص رہی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ چھ اوور کرانے کے بعد اس کو بائولنگ سے روک دیا گیا تھا۔ ان چھ اوورز میں اس کا کوئی میڈن اوور نہیں تھا اور سلیم جعفر نے کوئی وکٹ لیے بغیر 9.5 کی اوسط سے چھ اوورز میں57 رنز دیے تھے۔ عمران کے پاس دوسرا چوائس سلیم ملک تھا۔ سلیم ملک نے ابھی تک چار اوور کرائے تھے اور 5.4 کی اوسط سے صرف 22 رنز دیے تھے اور ایک وکٹ بھی حاصل کی تھی۔ سب کا خیال تھا کہ آخری اوور سلیم ملک کو دیا جائے گا‘ لیکن عمران خان نے توقعات کے برعکس آخری اوور سلیم جعفر سے کرانے کا فیصلہ کیا۔ یہ کرکٹ کے ماہرین کے لیے حیران کن فیصلہ تھا‘ جو پاکستان کے لیے مہنگا ثابت ہو سکتا تھا۔ سلیم جعفر نے پہلی بال کرائی جس پر ایک چھکا لگا۔ پورے قذافی سٹیڈیم میں سناٹا چھا گیا۔ دوسری بال پر ایک چوکا لگا۔ اب سلیم جعفر واضح طور پر نروس نظر آ رہا تھا۔ وہ تیسری بال کراتے ہوئے اپنا رن اپ بھول گیا اور درمیان میں رک گیا۔ اس بال پر دو رنز بنے۔ چوتھی بال پر بھی دو رنز کا اضافہ ہوا۔ پانچویں بال پر کوئی رن نہیں بنا‘ یوں ابھی تک پانچ بالوں پر چودہ رنز بن چکے تھے۔ آخری بال پر بیٹسمین کی شاٹ فیلڈر نے چھوڑ دی اور وہ بائونڈری کراس کر گئی۔ یوں سلیم جعفر کے اس ڈرائونے اوور کا خاتمہ ہوا جس میں اٹھارہ رنز بنے۔ اس طرح آسٹریلیا نے 50 اوورز میں 8 وکٹوں کے نقصان پر 267 رنز بنا لیے تھے۔
یہ اس زمانے میں ون ڈے کا ایک بڑا سکور تھا‘ لیکن قذافی سٹیڈیم میں بیٹھے ہمیں یقین تھا کہ ہماری ٹیم یہ ہدف حاصل کر لے گی۔ رمیز راجہ اور منصور اختر پاکستانی ٹیم کی طرف سے کھیل کا آغاز کرنے آئے۔ پہلے اوور کی دوسری بال پر ہی رمیز راجہ کریز میں گر گئے اور رن آئوٹ ہو گئے۔ اسی طرح منصور اختر صرف 9 رنز بنا کر آئوٹ ہو گئے۔ مدثر نذر جیسے اوپننگ بیٹس مین کو نظر انداز کر کے منصور اختر کی ٹیم میں شمولیت بھی لوگوں کے لیے حیران کن تھی۔ یوں پاکستانی ٹیم کا آغاز اچھا نہیں تھا لیکن پھر ایک وقت ایسا آیا جب عمران اور جاوید میاں داد کریز پر تھے اور ہمیں 90 گیندوں پر 118 رنز چاہئیں تھے۔ یوں لگتا تھا کہ پاکستان میچ جیت جائے گا‘ لیکن عمران خان 58 کے سکور پر آئوٹ ہو گئے۔ کہتے ہیں بعد میں امپائر ڈکی برڈ نے عمران کو غلط آئوٹ دینے پر معذرت بھی کی تھی۔ عمران کے 58 اور میاں داد کے 70 رنز پاکستان کو شکست سے نہ بچا سکے اور پاکستان کی پوری ٹیم 249 رنز بنا کر آئوٹ ہو گئی‘ یوں پاکستان 18 رنز سے یہ سیمی فائنل ہار گیا۔ کہتے ہیں کہ یہ وہی 18 رنز تھے‘ جو سلیم جعفر نے اپنے آخری اوور میں دیے تھے۔
اس بات کو تینتیس برس گزر چکے ہیں لیکن اب بھی میں لاہور جائوں اور قذافی سٹیڈیم کے قریب سے گزروں تو مجھے 4 نومبر کا دن یاد آ جاتا ہے اور پھر سلیم جعفر کا وہ اوور جس میں اس نے 18 رنز دیے تھے اور میں سوچتا ہوں کہ زندگی کی بساط پر بعض اوقات محض ایک چال سے کیسے پورے کھیل کی بازی الٹ جاتی ہے۔
اس بات کو تینتیس برس گزر چکے ہیں لیکن اب بھی میں لاہور جائوں اور قذافی سٹیڈیم کے قریب سے گزروں تو مجھے 4 نومبر کا دن یاد آ جاتا ہے اور پھر سلیم جعفر کا وہ اوور جس میں اس نے 18 رنز دیے تھے اور میں سوچتا ہوں کہ زندگی کی بساط پر بعض اوقات محض ایک چال سے کیسے پورے کھیل کی بازی الٹ جاتی ہے۔