تحریر : عرفان حسین تاریخ اشاعت     25-05-2013

ایم کیو ایم کے سامنے کچھ زمینی حقائق

ایک تشویش ناک سوچ دل میں جاگزیں ہے کہ ایم کیو ایم کے قیام، جو اسّی کی دہائی میں عمل میں آئی، سے لے کر اب تک الطاف حسین اور فاروق ستار کے سوااس کی اعلیٰ قیادت کا ہر شخص اس دنیا سے رخصت ہو چکا ہے۔ ان میں سے کسی کی بھی وفات طبعی نہیں تھی۔چاہے یہ ہلاکتیں متحارب گروہوں یا ایجنسیوں کے ہاتھوں میں ہوئی ہوں یا اپنوںکے ہاتھوں، اس شہر میں ہونے والا تشدد نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ جب پی ٹی آئی کی زہرہ شاہد کو کراچی میں این اے 250 کے دوبارہ انتخابات سے ایک دن پہلے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تو بہت سے رائے دہندگان نے گھروںسے نکلنے کی جرأت نہ کی۔چھائی ہوئی خوف کی فضا اور ایم کیو ایم اور دیگر پارٹیوںکی طرف سے کیے جانیوالے بائیکاٹ کی وجہ سے ٹرن آئوٹ صرف دس فیصد رہا۔ یہاں مجھے کہنے دیجیے کہ زہرہ شاہدکے قتل کی اطلاع نے مجھے بے حد اذیت اور صدمے سے دوچار کر دیا۔ اُن کے ساتھ میری کئی سالوں کی دوستی تھی؛ تاہم افسوس، ہماری اتنی ملاقاتیں نہ ہو سکیں جتنی ہونی چاہیے تھیں۔ میں اُن کی فعالیت اور حوصلے کی بہت قدر کرتا تھا۔کچھ عرصے سے وہ مجھ پر زور دے رہی تھیںکہ میںبلوچستان میں اُن کے شروع کیے گئے ایک تعلیمی منصوبے کو دیکھنے آئوں۔ میں ایسا کرنا چاہتا تھا لیکن افسوس، یہ خواہش پوری نہ ہو سکی۔ بہرحال چند ایک حلقوں میں کم ٹرن آئوٹ اور دھاندلی کے الزامات سے مجموعی طور پر منصفانہ اور شفاف ہونے والے انتخابات کی ساکھ پر حرف نہیںآنا چاہیے۔ غیر جانبدا ر مبصرین کے مطابق گیارہ مئی کو ہونے والے انتخابات شفاف ترین تھے جن کا انہوں نے مشاہدہ کیا ۔زرداری صاحب کے الزامات کہ پنجاب میں ’’افسرشاہی اور غیر ملکی ہاتھ ‘‘ نے دھاندلی کی، کو نظرانداز کردینا ہی دانائی ہے۔ اگرچہ باقی ملک میں سیاسی منظر نامہ تبدیل ہو گیا ہے لیکن سندھ میں مجموعی طور پر کوئی تبدیلی واقع نہیںہوئی ہے۔ یہاں صورت ِ حال جوں کی توں ہے ۔پی پی پی نے اندرون ِ سندھ میں بھاری کامیابی حاصل کی ہے جبکہ شہری علاقوںمیں میدان ایم کیو ایم کے ہاتھ رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں جماعتیں مل کر سندھ میں حکومت بنائیںگی جبکہ اے این پی منظر سے غائب ہو چکی ہے۔ ملک کے سیاسی خدوخال یہ بنتے نظر آرہے ہیںکہ مرکز اور پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ (ن) حکومت بنائے گی جبکہ چھوٹے صوبوں میں علاقائی جماعتیں اقتدار میںہوںگی۔ چونکہ آئینی ترامیم کے ذریعے مرکز کے بہت سے اختیارات صوبوں کو تفویض کیے جائے چکے ہیں، اس لیے اب اسلام آباد صوبوںکے معاملات میں زیادہ مداخلت نہیں کر سکتا۔ ایک اور سیاسی تبدیلی یہ ہے کہ نواز شریف کو حکومت سازی کے لیے کسی کولیشن پارٹنر کی ضرورت نہیںہے، چنانچہ اس صورت ِ حال کا پی پی پی سے زیادہ ایم کیو ایم پر اثر پڑے گا۔ 2007 ء میں مشرف کے خلاف چلنے والی طاقتور تحریک کے نکتہ عروج پر میں نے ایم کیو ایم کے ایک رہنما سے پوچھا کہ وہ ایک آمر کا ساتھ کیوں دے رہے ہیں تو اُس نے جواب دیا :’’ہمیں اسلام آباد میں ایک طاقتور دوست کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘ اب پی ایم ایل (ن) کی ایم کیو ایم سے دوستی نہیںہے۔ ان دونوں جماعتوں کی تاریخ ایک دوسرے سے مخاصمت اور عدم اعتماد کے جذبات سے لبریز ہے۔ گزشتہ تین عشروںسے زوال کے باوجود، کراچی اب بھی پاکستان کی معاشی شہ رگ ہے۔ جب بھی کراچی یا کہیں اور یوم احتجاج یا یوم سوگ منایا جاتا ہے تو ملکی معیشت کو اربوں کا نقصان ہو جاتا ہے۔ اگر پی ایم ایل (ن)خود کو ایم کیو ایم سے دور کیے ہوئے ہے، پی پی پی نے اس کی گروہی قوت کی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے ساتھ مصالحت کر رکھی ہے۔ اس صوبے کی قوم پرست قوتیں جو بھی سوچ رکھتی ہوں، ان دونوں بڑی جماعتوںکی قیادت اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ اس صوبے میں سندھیوں اور مہاجروں نے مل کر رہنا ہے۔ ان دونوں جماعتوں کے اشتراک اور تعاون کی ایک اور وجہ کراچی میں طالبان کا بڑھتا ہوا اثر ہے۔ ان انتہاپسندوںنے اے این پی کو کراچی میں پشتون آبادی کی نمائندگی سے دور دھکیل دیا ہے۔ اس شہر کی حکومت ان دہشت گردوںکے سامنے بے بس ہے، اس لیے ایسا دکھائی دیتا ہے کہ کوئی مسلح اور منظم طاقت ہی ان کے مقابلے پر کھڑی ہوسکتی ہے۔ تاہم، جیسا کہ حالیہ واقعات ظاہر کرتے ہیں، ایم کیو ایم کی اس شہر پر اجارہ داری ماضی کی بات ہے۔ نہ صرف اس کا ووٹ بنک متاثر ہوا ہے بلکہ اس کی صفوں میں نظم و ضبط، جو اس کاخاصہ رہا ہے، کا بھی فقدان دیکھنے میں آیا ہے۔ گزشتہ پانچ برسوںکے دوران جب ایم کیو ایم مرکز اور سندھ میں کولیشن پارٹنر تھی، اس کا کردار زیادہ تر اپوزیشن پارٹی کے طور پر دیکھنے میں آیا۔ حکومت کی نااہلی کا الزام اپنے سر لینے کی بجائے اپنی ہی حکومت کے فیصلوں پر تنقید کی گئی۔ یہ متعدد مرتبہ مخلوط حکومت سے باہر گئی اور پھر واپس آئی۔ جب مقامی حکومتوںکے مسئلے پر پی پی پی اور ایم کیو ایم میں شدید اختلافات دیکھنے میں آئے یا پھر جب انتخابات سے پہلے یہ حکومت سے الگ ہوگئی، اس کے گورنر ڈاکٹر عشرت العباد بدستور اپنے منصب پر موجود رہے۔ در حقیقت ایم کیو ایم پی پی پی کی کمزوریوں اور قومی اسمبلی میں اس کی نشستوں کی تعداد میں کمی کا فائدہ اٹھاتی رہی ہے ، تاہم نئی بننے والی حکومت کو ایسا کوئی مسئلہ پیش نہیں آئے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ ایم کیوایم کی سیاسی قوت کمزور ہو جائے گی۔اس سے بھی زیادہ اس کو جس خطرے کا سامنا ہے وہ کراچی کی آبادی کے تبدیل ہوتے ہوئے معروضات ہیں۔ اگرچہ کراچی میں مہاجروںکی تعداد میں بھی اضافہ ہورہا ہے لیکن سندھی اور پشتون آباد ی کی یہاں ہجرت بھی جاری رہتی ہے۔ جب بھی قبائلی علاقوں میں کوئی فوجی آپریشن ہوتا ہے یا قدرتی آفت آتی ہے تو وہاں سے بھاری تعداد میں افراد اس شہر میں آجاتے ہیں، پھر وہ واپس بمشکل ہی جاتے ہیں۔ اگر ان معروضات کو ذہن میں رکھا جائے تو لگتا ہے کہ اگلے پانچ سال تک کراچی میں امن کی فضا ایک خواب ہی رہے گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved