تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     07-03-2020

خطرے کی گھنٹیاں

پاکستان میں ہمارے ارد گرد متعدد خاموش خطرات موجود ہیں لیکن ہم نے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں‘ بالکل ویسے ہی جیسے بلی کو دیکھ کر کبوتر آنکھیں موند لیتا ہے، کہ خطرہ ٹل گیا ہے‘ لیکن یہ کبوتر کی خوش فہمی بلکہ غلط فہمی ہوتی ہے۔ اگلے ہی لمحے بلی اسے دبوچ لیتی ہے۔ ہم نے سپر سانک رفتار سے بڑھتی ہوئی آبادی سے چشم پوشی کی ہوئی ہے۔ کالے یرقان کا چھپا ہوا آتش فشاں ہم دریافت کرنے اور اس کا تدارک کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔ ہمارے میڈیا میں عمومی طور پر لا یعنی موضوعات پر بحث ہوتی رہتی ہے۔ اٹارنی جنرل نے خود استعفیٰ دیا یا ان سے لیا گیا‘ یہ بحث تمام چینلز پر کئی روز ہوتی رہی۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ہم ایسے موضوعات پر سارا فوکس کیوں رکھتے ہیں۔ آبادی ، صحت اور تعلیم پر اتنی کم بات کیوں کرتے ہیں؟
چند ہفتے پہلے فوڈ سکیورٹی کے فیڈرل وزیر خسرو بختیار نے بیان دیا تھا کہ مستقبل قریب میں پاکستان نیٹ فوڈ امپورٹر بن جائے گا۔ نیٹ فوڈ امپورٹر کا مطلب ہے کہ ہماری خوردنی اجناس کی برآمدات کی آمدنی درآمدات کی قیمت سے کم ہو جائے گی، مثلاً ہم چاول ایکسپورٹ کرتے ہیں۔ ہم چائے اور خوردنی تیل امپورٹ کرتے ہیں۔ اس تجارت کے توازن میں گڑ بڑ ہو جائے گی اور بڑی وجہ ہماری تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔
1951ء کی مردم شماری کے مطابق مغربی پاکستان کی آبادی تین کروڑ سینتیس لاکھ (33.7 M) تھی۔ آج ہماری تعداد 22 کروڑ ہو چکی ہے اور اس میں افغان مہاجرین، کراچی میں رہنے والے غیر قانونی لوگ شامل نہیں اور نہ ہی آزاد کشمیر کے شہری اس تعداد میں شمار کئے گئے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق 2050 میں پاکستان کی آبادی تیس کروڑ ہو گی یعنی 1951ء کے مقابلے میں آٹھ گنا۔ 2050ء میں تمام پاکستانیوں کو خوراک مہیا کرنے کے لیے ہمیں اپنی خوردنی اجناس میں پچاس فیصد اضافہ کرنا ہو گا۔ کیا ہم ایسا کر پائیں گے۔ مجھے یہ مشکل نظر آ رہا ہے اور اس کی متعدد وجوہ ہیں۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ زرخیز زرعی زمین ہائوسنگ کی نذر ہو رہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق لاہور میں ٹھوکر نیاز بیگ سے آگے ہائوسنگ سیکٹر سوا لاکھ ایکڑ زرعی زمین ہڑپ کر چکا ہے۔ اس میں دوسری نئی آبادیاں مثلاً ڈی ایچ اے اور جوہر ٹائون وغیرہ شامل نہیں۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ زرعی بیجوں کی کوالٹی بہتر نہیں ہو رہی۔ میرا خیال ہے کہ انڈیا میں زرعی بیج کی کوالٹی ہم سے بہتر ہے کیونکہ وہاں زرعی ریسرچ زیادہ ہوتی ہے اور اس کے نتائج کسان تک پہنچائے جاتے ہیں۔ آپ کو یاد ہو گا کہ 1960ء کی دہائی میں میکسی پاک کے بیجوں کی وجہ سے گندم کی پیداوار خاصی بڑھ گئی تھی۔ اس کے بعد بیجوں کے فیلڈ میں کوئی بڑا بریک تھرو نہیں ہوا۔ اس سال کپاس کے کم ہونے کی ایک وجہ ناقص بیج بتائی جاتی ہے۔ کپاس صرف ٹیکسٹائل انڈسٹری میں استعمال نہیں ہوتی۔ بنولہ سے خوردنی تیل نکالا جاتا ہے اور یہ دودھ دینے والے جانوروں کی غذا کا اہم جزو ہے۔ 
آبادی کے سیلاب کے دو ڈائریکٹ نتائج غربت میں اضافہ اور محدود جسمانی اور دماغی گروتھ ہے‘ جسے انگریزی میں Stunted Growth کہا جاتا ہے‘ یعنی ہمارے لڑکے اور لڑکیاں مکمل امکانی جسمانی اور ذہنی نشوونما نہیں کر پاتے اور اس کی بنیادی وجہ صحت بخش خوراک کی کمی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت 37 فیصد پاکستانی غذائی طور پر عدم تحفظ کا شکار ہیں‘ یعنی وہ غذا کے پورے حرارے حاصل نہیں کر سکتے اور اس وجہ سے وہ پست قد اور ذہنی طور پر سست رہ جاتے ہیں۔ ایسے لوگ ملکی ترقی میں بھی اپنا پورا حصہ نہیں ڈال سکتے بلکہ الٹا ہسپتالوں کا ورک لوڈ بڑھاتے ہیں۔
غربت میں اضافے کی وجہ سے لاغر اور پست قد آبادی میں اضافہ ہوتا ہے۔ کمزور والدین صحت مند بچے پیدا نہیں کر سکتے اور نہ ہی ان کی جدید اصولوں کے مطابق پرورش کر سکتے ہیں۔ مجھے 2007ء کا واقعہ یاد آ رہا ہے۔ میں مسقط میں سفیر تھا۔ ڈاکٹر اقرار خان ان دنوں سلطان قابوس یونیورسٹی کے شعبہ زراعت میں پروفیسر تھے۔ بعد میں فیصل آباد زرعی یونیورسٹی کے وائس چانسلر بنے۔ ڈاکٹر صاحب کی بڑی خوبی یہ ہے کہ ہر وقت متحرک رہتے ہیں۔ اس زمانے میں بھی پاک عمان زرعی تعاون کا فروغ ان کا مطمح نظر تھا۔ ایک روز مجھے ڈاکٹر صاحب کا فون آیا کہ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے طلبا اور طالبات سٹڈی ٹور پر عمان آئے ہوئے ہیں‘ اچھا ہو گا اگر آپ ان سے ملنے کے لیے کچھ وقت نکالیں۔ میں نے کہا کہ ضرور ملیں اور انہیں اپنی رہائش گاہ پر مع ڈاکٹر صاحب چائے پر مدعو کر لیا۔
زرعی یونیورسٹی کے طلبا عام طور پر دیہی بیک گرائونڈ کے ہوتے تھے اور خاصے صحت مند۔ یہ کھلی فضائوں میں پلنے والے بچے خالص دودھ اور دیسی گھی کھا کر پلتے تھے۔ انہیں کیلشیم اور وٹامن ڈی وافر مقدار میں ملتے تھے۔ اس لیے ان کے قد لمبے ہوتے تھے۔ سکولوں اور کالجوں میں یہ لڑکے فٹ بال، ہاکی، کبڈی، والی بال جیسے کھیل کھیلتے تھے، اس لیے ان کے جسم کسرتی اور مضبوط ہوتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب لڑکے لڑکیوں کو لے کر سفیر پاکستان کی رہائش گاہ میں داخل ہوئے تو مجھے حیرت ہوئی کہ اکثر کوتاہ قد اور دبلے پتلے ہیں۔ میں نے ڈاکٹر صاحب سے وجہ پوچھی تو جواب ملا کہ یہ سب ٹاپر ہیں پڑھتے بہت ہیں اور اسی وجہ سے کمزور لگتے ہیں۔ میرے لیے یہ تاویل زیادہ قرین قیاس نہ تھی۔ دراصل دیہات میں چھوٹے زمین دار اب دودھ اور گھی بیچنے پر مجبور ہیں اس لیے ان کے اپنے بچے بناسپتی گھی پر پلتے ہیں۔
یرقان کی تین بڑی اقسام ہیں۔ ان میں سے ہیپاٹائٹس سی یعنی کالا یرقان سب سے خطرناک سمجھا جاتا تھا۔ یہ مرض ایڈز کی طرح خون سے منتقل ہوتا ہے۔ اتائی ڈاکٹر‘ جو ایک ہی سرنج سے کئی مریضوں کو ٹیکے لگاتے ہیں‘ اناڑی قسم کے دندان ساز اور لاپروا حجام اس مرض کی بڑی وجہ ہیں۔ یرقان کے مریضوں کی کل تعداد کے حوالے سے پاکستان دنیا کے ٹاپ کے ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں کل آبادی کے پانچ فیصد اشخاص ظاہری یا پوشیدہ حالت میں اپنے جسموں میں یرقان کے جراثیم لیے پھرتے ہیں۔ اس مرض کی خطرناک بات یہ ہے کہ علامتیں ظاہر ہونے میں پندرہ سال لگ جاتے ہیں۔ پنجاب کے چند اضلاع میں تو یہ مرض وبا کی طرح پھیلا ہے اور یہ پچھلے پینتالیس سال سے پاکستان میں کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے۔ اب شکر ہے کہ ہیپاٹائٹس سی قابل علاج ہو گیا ہے مگر یرقان کی دائمی بی قسم اب بھی لا علاج ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وسیع پیمانے پر مستقل آگہی مہم چلائے۔
سموکنگ کے لحاظ سے پاکستان دنیا بھر میں تیرہ (13) نمبر پر ہے۔ سگریٹ کے دھویں میں ہزاروں زہریلے مادے ہوتے ہیں۔ ہماری اکثر حکومتیں ٹیکس کے لالچ میں سگریٹ بنانے والی کمپنیوں کی حوصلہ شکنی نہیں کرتیں۔ پاکستان میں اب بھی تیس ہزار لوگ ہر سال تپ دق کی وجہ سے لقمۂ اجل بن جاتے ہیں‘ حالانکہ دنیا بھر میں یہ مرض قابل علاج ہے۔ اگلے روز سینیٹ میں وقفہ سوالات میں بتایا گیا کہ ناقص صفائی کی وجہ سے پاکستان میں 22 ہزار اموات سالانہ ہوتی ہیں۔ میرے خیال میں پولیو کے قطرے پلانے والے فرشتے ہیں جو کم اجرت میں بڑا کام کرتے ہیں۔ اس نیک کام میں مارے جانے والے شہید ہیں۔ ان کی فیملی کو حکومت کی طرف سے معقول اجر ملنا چاہئے۔
حکومت کو چاہئے کہ فیملی پلاننگ کے محکمہ کو پھر سے فعال کرے۔ یرقان کے تدارک کا جامع منصوبہ بنائے اور عوام کو چاہئے کہ صفائی مہم میں حکومت کا ساتھ دیں۔ صحت مند شہری ہی خوش حال پاکستان بنا سکتے ہیں۔ کشکول والی قوم غیرت مند نہیں بن سکتی۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved