کون سی قیامت آ گئی اگر عورتوں نے اپنے حقوق کی جنگ کو ذرا آگے بڑھانے کے لیے گزشتہ سال ملک کے ہر بڑے شہر میں جلوس نکال ڈالے‘ ہزاروں کی تعداد میں عورتیں سڑکوں پہ نکلیں‘ رنگا رنگ پوسٹر بنائے‘ اپنے حقوق کے حوالے سے پُر جوش اور پُر عزم نعرے لگائے‘ مطالبات کا انبار قوم کے حکمرانوں کے سامنے رکھا‘ اور شام تک گھروں کو لوٹ گئیں۔ مارچ کی بازگشت کئی ہفتوں تک سماجی اور سیاسی ماحول میں ارتعاش پیدا کرتی رہی۔ عورتوں کی نحیف اور کمزور آواز کی نسبت قدامت پسندوں کا رد عمل شدید‘ جذباتی اور کئی لحاظ سے غیر منطقی تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا‘ مذہبی‘ روایتی اور جاگیردارانہ سماج کے مفادات سے وابستہ سب ثقافتی اور سیاسی طاقتیں یکجا ہو گئی ہیں۔ عورت مارچ کے چند پوسٹرز اور خصوصی طور پر ایک نعرے ''میرا جسم میری مرضی‘‘ نے رد عمل کا ایسا طوفان پیدا کر دیا کہ ایک سال گزرنے کے بعد بھی تھما نہیں۔ رواں سال مارچ کا اعلان ہوتے ہی پدرسری کی محافظ سماجی اور مذہبی طاقتیں پھر حرکت میں آ چکی ہیں۔
کچھ نعروں اور پوسٹرز پہ لکھی گئی تحریروں اور خاکوں پر اعتراض ہو سکتا ہے اور کوئی اعتراض کرے بھی تو وہ اظہارِ رائے کی آزادی کے زمرے میں آئے گا‘ عین اسی طرح جیسے ہماری خواتین‘ مارچ‘ اس کے نعروں اور منشور کا دفاع اور جواز آزادیٔ رائے کے بنیادی جمہوری حق سے نکالتی ہیں۔ مگر یہ معاملہ اتنا سیدھا اور آسان نہیں ہے۔ عورت مارچ اور اس کے مخالفین کے درمیان ایک نظریاتی خلیج حائل ہے‘ جس کو پاٹنا کسی کے بس کی بات نہیں۔ سوچ اور نظریے کا یہ فرق محض پاکستان یا کسی مسلم معاشرے کے لیے ہرگز مخصوص نہیں‘ یہ بھارت‘ امریکہ‘ تمام مغربی ممالک اور باقی سب جگہ‘ جہاں عورتوں کو آزادیاں نصیب ہوئی ہیں‘ ایک سماجی اور سیاسی تصادم کی صورت میں موجود ہے۔ ہم میں سے کچھ حضرات‘ دانشور‘ سیاسی زعما اور بڑی حد تک قابل احترام مذہبی علما عورتوں کی عصری آزادی کی تحریک کو مذہب کے رنگ میں دیکھتے ہیں۔ صورتِ احوال امریکی اور مغربی معاشروں میں بھی کچھ مختلف نہیں۔ وہاں مذہبی گروہوں نے عورتوں کے سماجی حقوق اور شخصی آزادی کے خلاف مخصوص حلقوں کو متحرک کر رکھا ہے۔
عورتوں کے حقوق کی سیاسی جدوجہد کی طویل تاریخ ہے۔ یہ تقریباً ڈیڑھ صدی پہ محیط ہے۔ مغربی جمہوریتوں میں گزشتہ صدی کی دوسری اور کہیں تیسری دہائی میں جا کر عورتوں کو ووٹ دینے کا حق ملا تھا۔ ہمارے معاشرے کی طرح مغرب کے صنعتی معاشرے میں بھی مرد کے قائم کردہ سماجی اور سیاسی نظام میں برابری کے درجے کا مطالبہ کرنا آسان نہ تھا۔ سب معاشروں میں وہی جاگیردارانہ سماج کا بیانیہ غالب تھا کہ مرد اور عورتیں بھلا کیسے برابر ہو سکتی ہیں؟ عورتوں کی جگہ گھر میں ہے‘ باہر کی دنیا میں سیاست‘ حکمرانی‘ معیشت اور روزی کمانا مرد کی ذمہ داری ہے۔ یہ صرف ہمارے اور دیگر مشرقی مذاہب کا نقطہ نظر نہیں کہ مرد عورت کا محافظ ہے‘ یہ تو صدیوں تک مغرب کا بھی مقالہ رہا ہے۔
مغرب میں سیاسی‘ قانونی اور آئینی برابری تو عورت کو ملی‘ مگر تنخواہ‘ ترقی اور مراتب میں نا ہمواری اور عدم مساوات ابھی تک قائم ہے۔ تعلیم اور ایسے دیگر شعبوں میں جہاں مردوں کی اجارہ داری تھی‘ عورتیں اپنے حقوق حاصل کرنے میں کئی قدم آگے بڑھی ہیں‘ مگر ابھی تک ''شیشے کی چھت‘‘ بلند پروازی کی راہ میں حائل ہے۔ اوپر دیکھ تو سکتی ہیں‘ مگر اڑان ایک حد تک ہی ہے۔ عورت کی شخصی آزادی کی تحریک کا تعلق مغرب میں کئی سیاسی اور سماجی تبدیلیوں سے ہے۔ ویت نام پر مسلط کی گئی جنگ کے خلاف امریکہ کے نوجوانوں نے بغاوت کی اور صنعتی معاشرے میں ''ترقی‘‘ کے فلسفے سے بھی۔ اس عمل میں عورتیں بھی شامل تھیں۔ بات آگے بڑھ گئی۔ شادی‘ خاندان‘ بچے کتنے ہوں گے‘ یا نہیں ہوں گے‘ من پسند لباس اور یہ کہ اکیلا رہنا ہے یا کس کے ساتھ رہنا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر قطع حمل کا حق‘ ایسے معاملات تھے‘ جن سے مردوں پہ مرکوز مغربی سماجی نظام شدید جھٹکے محسوس کرنے لگا تھا۔ مرد عورت کی آزادی سے خائف مذہب‘ روایات اور خاندان کی بقا کے فلسفوں کا سہارا لینے لگے۔
پاکستان میں عورتوں کے حقوق کے جواز اور ان کے خلاف دلائل اور خدشات‘ دونوں مغرب میں کئی دہائیوں سے جاری سماجی تصادم کا عکس ہیں۔ صرف ہماری محدود پاکستانی دنیا نہیں بلکہ تمام عالم جس ترقی کی زد میں ہے‘ اس تصادم سے نہ تو بچا سکتا ہے اور نہ ہی اس کا کوئی آسان سیاسی حل کسی کے پاس موجود ہے۔ عورتوں کو برابری کے حقوق کہیں بھی اور خصوصاً قدامت پسند مذہبی سماجوں میں میسر نہیں۔ ہمارا قبائلی اور جاگیردارانہ معاشرہ مردانہ نوعیت کا ہے۔ لاکھوں نہیں کروڑوں عورتوں کی جگہ اب بھی گھر کی چاردیواری‘ حفاظت‘ سلامتی اور عزت پدرسری کا بیانیہ ہے۔ عورتوں کے حقوق کا مسئلہ وطنِ عزیز میں بہت گمبھیر ہے۔ عورتوں نے آواز بلند کرنا شروع کی ہے؛ اگرچہ شہروں میں اور بہت محدود پیمانے پر‘ تو ان کی محرومیوں‘ ذلتوں‘ نا انصافیوں اور حقوق کی پامالی کو یہ کہہ کر نہیں ٹال سکتے کہ اسلام نے عورت کو سب حقوق دے دئیے ہیں۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ مسئلہ اسلام کا نہیں‘ مسلمان کا ہے کہ کیا وہ ان حقوق کی پاسداری کرنے کے لئے تیار ہے‘ جو اسلام نے تفویض کر رکھے ہیں۔ ہم میں سے کتنے ہیں جو زندگی کا ہر معاملہ اور مسئلہ اسلام کے حوالے سے طے کرتے ہیں؟
ہر معاشرے میں عورتوں کو احتجاج کا حق حاصل ہے۔ یہ ان کا آئینی حق بھی ہے۔ بجائے اس کے کہ ہم ان کے حق میں آواز بلند کریں‘ ان کے ساتھ روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی نا انصافیوں کے خلاف کھڑے ہوں‘ الٹا فحاشی‘ عریانی اور بے حیائی کے لیبل ان عورتوں کے ماتھے پر چسپاں کرنے لگتے ہیں۔ حق بات تو یہ ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں خواتین ہر سال خاندانی عزت کے نام پہ بے دردی سے قتل کر دی جاتی ہیں۔ اپنے بچپن سے لے کر آج تک اپنے علاقے میں عورتوں کا ظالمانہ طریقے سے قتل ہونا دیکھ رہا ہوں۔ آنکھیں نم ہو جاتی ہیں جب کچھ واقعات جو والدہ محترمہ مرحومہ کی زبانی معلوم ہوئے‘ اور یاد آ جاتے ہیں۔ بیسیوں ایسے قتل ہیں کہ خاندان کے لوگوں نے لاشیں دریا میں ڈال دیں۔ پولیس کو اگر معلوم ہو گیا تو سکے پھینک کر مقدمہ تک درج نہ ہونے دیا گیا۔
کس زمانے میں آپ رہتے ہیں اور کس فلسفے کا آپ سہارا لیتے ہیں کہ بچیوں کی شادیاں کمسنی میں کر دی جائیں‘ انہیں زیور تعلیم سے آراستہ نہ کیا جائے‘ وہ شعور اور آگہی کی دولت سے محروم رہیں اور مالی معاملات میں مرد کے زیر تسلط رہیں۔ عورتوں کی کفالت کی ذمہ داری بھی کیا خوب دھوکا ہے کہ وہ ہر وقت کچھ لینے کے لئے ترستی رہیں اور مرد حضرات کی دست نگر رہیں۔ اس سے بڑا عقل کا دیوالیہ پن کیا ہو سکتا ہے کہ ایک ماہر خاتون معالج کو یہ کہہ کر گھر میں بٹھا دیا جائے کہ خاندان کو رقم کی ضرورت نہیں۔ ہزاروں معالجوں کو ہم نے گھروں میں محدود کر رکھا ہے کہ خاوند یا اس کا باپ اصرار کرتا ہے کہ باہر کام کرنے کی ضرورت نہیں۔ میرا خیال یہ ہے کہ تجربہ کرکے دیکھیں کہ عورت باہر کام کرے اور مرد کو گھر کی ذمہ داریوں میں مصروف رکھا جائے اور باہر نکلے تو چادر اوڑھ کر یا برقعہ پہن کر۔ وہی گھسی پٹی باتیں کہ عورت اور مرد کو مختلف بنایا گیا ہے۔ کوئی شبہ نہیں مگر وہ یکساں انسان ہیں‘ ان میں ایک جیسی روح ہے‘ ان کی آنکھیں ایک جیسے خواب دیکھتی ہیں۔
یہاں تحریک انصاف کا انتخابی نعرہ جاذب محسوس ہوتا ہے‘ روکنا ہے تو روک لو‘ عورت مارچ ہو کر رہے گا۔ نعرے بھی لگیں گے‘ پوسٹر اب زیادہ نمایاں اور رنگین ہوں گے‘ وہ کپڑے بھی زرق برق زیب تن کریں گی۔ کچھ کا تو وہ منہ بھی چڑائیں گی۔ نہ معلوم مرد حضرات گھبرا کیوں گئے ہیں؟ کیوں سمجھتے ہیں کہ عورتیں جلوس کی صورت میں خود مختاری کا منشور اور عَلم لے کر نکلیں تو روایات‘ خاندان کی اکائی اور عزت‘ سب خاک میں مل جائیں گے۔ ٹھنڈے ہوں‘ آرام اور سکون سے رہیں‘ کچھ نہ بھی کریں‘ مظلوموں کی آواز تو سن لیں۔