عورت کو جو عزت‘ احترام‘ آزادی ‘تحفظ اورحقوق اسلام فراہم کرتاہے ‘ دنیا کاکوئی دوسرا مذہب یا معاشرہ دے ہی نہیں سکتا۔ ایک عام تاثر ہے کہ شاید مغرب میں عورت کی بڑی عزت ہے‘ وہاں خواتین کا بڑااحترام کیاجاتاہے۔ شاید یورپ اور امریکا سمیت مغربی ممالک میں عورت کو ہرقسم کی آزادی حاصل ہے اور شاید وہاں خواتین کی عصمت انتہائی محفوظ ہے‘ لیکن حقیقت بالکل برعکس ہے۔ مغربی دنیا کام‘ کاروبار‘ محنت ومزدوری میں عورت کو نہ تو کوئی رعایت دیتی ہے اورنہ ہی کوئی خصوصی مراعات‘ بلکہ خواتین ٹرک ڈرائیونگ سمیت وہ تمام سخت جان کام کرنے پرمجبور ہیں ‘جو وطن ِ عزیز میں نوے فی صد صرف مرد حضرات کی ذمہ داری سمجھے جاتے ہیں۔ مغربی ممالک میں عورت کا احترام تو بہت دور کی بات‘ وہاں تو بس میں سیٹ بھی کوئی نہیں دیتا‘ جہاں تک بات آزادیٔ نسواں کی ہے تو وہاں واقعی نیم لباسی اورعریانی کی آزادی ضرور ہے‘ مگر گزشتہ سال عورت مارچ میں خواتین نے جو بینر اور پلے کارڈ اٹھارکھے تھے اور ان پر جو نعرے درج تھے‘ ان کی دنیا کاکوئی بھی مہذب معاشرہ اجازت نہیں دیتا اور کسی بھی ملک میں وہاں کے آئین وقانون ‘ رسم ورواج اور ثقافت سے ماورا کسی اقدام کی آزادی نہیں جاتی ۔ تحفظ کی بات بھی کریں تو صرف اسلام ہی دنیا واحد مذہب ہے‘ جو عورت کو سب سے زیادہ تحفظ فراہم کررہاہے اوراگر کسی کو شک ہوتو زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں‘ مقبوضہ کشمیرکی مثال ہمارے سامنے ہے ‘جہاں نام نہاد بھارتی جمہوریت کی چھتری تلے کشمیری عورتوں کے ساتھ اجتماعی زیادتی ہو رہی ہے‘ روہنگیا میں عورتوں کے بازئو ں کوکاٹ کر کباب بنا کر کھایا گیا‘ لیکن نسوانی حقوق کے نام پر اسلام دشمنوں کاایجنڈا پھیلانے والی کسی نام نہاد ٹھیکیدار نے مظلوم عورتوں کے حقوق کیلئے آواز بلند نہیں کی ۔نسوانی حقوق کی بات بھی آئے توتاریخ گواہ ہے کہ اسلام سے پہلے بیٹیوں کو زندہ درگور کردیاجاتاتھا‘ لیکن ہمارے پیارے آقاﷺ نے عورت کو عزت‘ تحفظ اور حقوق دئیے اور اسلام نے عورت کو ماں‘ بہن اوردیگر خاندانی رشتوں کے تحت بہترین تحفظ اورحقوق سے نوازاہے۔
آج کل سب سے زیادہ ''میراجسم‘ میری مرضی‘‘ کا نعرہ موضوع بحث بناہوا ہے ‘ جس کی ہر مہذب شہری اور سنجیدہ طبقہ مذمت کررہاہے‘ یہ نعرہ مغرب کی ایک کتاب '' My Body my will‘‘ سے لیاگیاہے ‘جس میں اسقاطِ حمل کے بارے میںترغیب دی گئی ہے ‘جو کہ اسلام میں سختی سے منع ہے۔وطن ِعزیز پاکستان میں پہلے بھی اسلامی ثقافت کوپامال کرنے کیلئے کئی حملے ہوچکے ہیں‘ اس بار بھی عریانی وفحاشی کے سیلاب میں شدت لانے کیلئے مذکورہ کتاب سے ہی آئیڈیا لیاگیا اوراسی کاانگریزی سے ترجمہ کرکے یہ نعرہ لگایاگیا تاہم یہ بات خوش آئند ہے کہ ان عورتوں کی پاکستانی معاشرے کے کسی طبقے نے بھی پذیرائی نہیں کی ۔ اس سازش کے پیچھے کارفرما اسلام وپاکستان دشمن قوتوں کوبھی اس متنازع نعرے کاکھل کردفاع کرنے کی ہمت نہیں ہورہی اور ہوبھی کیسے سکتی ہے‘ کیونکہ ہمارے معاشرے میں ہزار خامیاں ہوسکتی ہیں ‘لیکن کلمہ طیبہ کی بنیاد پر بننے والے ملک میں کوئی غیر اسلامی یاغیرشرعی بات کبھی مقبول نہیں ہوسکتی۔
اسلام صرف ایک مذہب ہی نہیں ‘بلکہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور زندگی کے ہرپہلو کی قرآن و حدیث میں مکمل تشریح موجود ہے ‘جن پرعمل کرکے نا صرف انسان اپنی زندگی کو آسان اورپرآسائش بنا سکتاہے ‘بلکہ آخرت میں بھی کامیابی ملے گی۔ اسلام نے خواتین کی حفاظت کیلئے ہی پردے کاحکم دیاہے ‘ عام مشاہدے میں بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ جو بچیاں یا خواتین پردہ کرتی ہیں‘ وہ گلی محلے کے آوارہ لڑکوں کی چھیڑچھاڑ کے ساتھ غیرضروری تنقید سے بھی محفوظ رہتی ہیں۔ سورۃ الاحزاب میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (ترجمہ)۔'' اے نبی ! اپنی بیبیوں اورصاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرما دو کہ اپنی چادروں کاایک حصہ اپنے منہ پر ڈالے رہیں‘یہ اس سے نزدیک تر ہے کہ ان کی پہچان ہوتو ستائی نہ جائیں اوراللہ بخشنے والا مہربان ہے‘‘ اسی طرح سورۃ النور میں ارشاد باری تعالیٰ ہے (ترجمہ): ''گندی عورتیں‘ گندے مردوں کیلئے ہیں اور گندے مرد گندی عورتوں کیلئے ہیں اور پاک عورتیں پاک مردوں کیلئے ہیں اور پاک مرد پاک عورتوں کیلئے ہیں۔ یہ لوگ اس سے بری کئے ہوئے ہیں‘ جو وہ کہتے ہیں‘ ان کیلئے بڑی بخشش اور باعزت روزی ہے۔‘‘ ایک روایت میں آیاہے کہ ایک عورت اپنی دو بیٹیوں کو ساتھ لیکر اُم المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں آئی‘ تو انہوں نے اس عورت کو تین کھجوریں دیں ‘ اس عورت نے ایک ایک کھجور دونوں بیٹیوں کو دی اور تیسری کھجور کے(بھی )دو ٹکڑے کر کے دونوں بیٹیوں کے درمیان تقسیم کردی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اس کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ''تمہیں تعجب کیوں ہے ؟ وہ تو اس کام کی وجہ سے جنت میں داخل ہوگئی۔‘‘ ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:''تم میں سے کسی کے پاس تین لڑکیاں یاتین بہنیں ہوں اوروہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے تو جنت میں ضرور داخل ہوگا۔‘‘ اسی طرح انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''جس نے دولڑکیوں کی کفالت کی تو میں اوروہ جنت میں اس طرح داخل ہوں گے‘‘ اورآپ نے کیفیت بتانے کے لیے اپنی دونوں انگلیوں(شہادت اور درمیانی) سے اشارہ کیا۔
گزشتہ سال بھی عورت مارچ ہوا اورمغربی کتاب سے لیاگیا مذکورہ بالا مخصوص نعرہ لگایاگیا ‘لیکن اس کے بعد اگر حقوق ِنسواں کی ان نام نہاد ٹھیکیداروں کی کارکردگی کاجائزہ لیاجائے تو کوئی ایک بھی ایسا واقعہ نہیں ملتا ‘جس سے ثابت ہوکہ انہوں نے پورے سال میں کسی ایک بھی مظلوم یا مجبور حوا کی بیٹی کے حقوق کی بات کی ہو یا خاموشی اور باعزت طریقے سے کسی مستحق غریب عورت کوا مداد فراہم کی ہو ‘بلکہ سال بھر متعدد خواتین تشدد کانشانہ بنتی رہیں‘ حقوق پامال ہوتے رہے‘ ایک نہیں کئی بیٹیاں گھر چھوڑنے پرمجبور ہوئیں‘ لیکن کسی نے ان کے مسائل کی حقیقت جاننے کی کوشش ہی نہیں کی ۔ کسی غریب متاثرہ لڑکی کو اپنی تشہیر‘ فنڈز جمع کرنے اور مذموم مقاصد پورے کرنے کے لیے میڈیا کے سامنے پیش کرنا نہ تو سماجی خدمت ہے اورنہ ہی اس سے کسی غریب کی عزت واپس آتی ہے‘ بلکہ اسے معاشرے اورخاندان کی نظروں میں مزید جھکا دیاجاتاہے۔ درحقیقت ملک میں مخصوص نعروں سے قوم کی بیٹیوں کو گمراہ کرنے اورمغربی ثقافتی یلغار کوہوا دینے کی بجائے‘ ایسی قانون سازی کی ضرورت ہے‘ جس سے کسی بھی متاثرہ ماں‘ بہن یابیٹی کی حقیقی معنوں میں دادرسی بھی ہو ‘ تشدد کرنے کا حقوق پر ڈاکہ ڈالنے والے ملزمان کو قرار واقعی سزا بھی مل سکے۔
امریکا اوریورپ سے فنڈز کھانے کیلئے مخصوص نعرے کو ہوا دینے والوں کو کوئی یہ بتائے کہ پاکستانی عورت کامسئلہ لباس نہیں ‘ ہماری بہن اوربیٹی تو پورے لباس میں خود کوزیادہ محفوظ سمجھتی ہے اور خوش رہتی ہے۔ اس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ خواتین کی الگ جامعات کے قیام کے بعد اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ ہمارے معاشرے میں خواتین کی اکثریت کا سب سے اہم مسئلہ خاندانی وراثت میں اپنے جائز وقانونی حق سے محرومی ہے ‘جس کے لئے آئین وقانون موجود ہونے کے باوجود آج تک صحیح عمل درآمد نہیں ہوا ہے ۔ کئی جاگیردار تو اپنی بچیوں کی شادی محض اس لئے نہیں ہونے دیتے کہ اگر شادی کرائی تو اسے جائیداد میں سے قانونی حصہ دینا پڑے گا۔آج ہمیں یوم خواتین کے موقع پر ایک مخصوص مغربی نعرے کے نان ایشو کو ایشو نہیں بنانا چاہیے‘ جس کی وجہ سے ان عورتوں کیلئے ناجائز ترغیب کی تشہیر ہو ‘بلکہ انہیں تمام جائز حقوق دینے کاعہد کرناچاہیے۔