ماضی میں جنوبی پنجاب کے لوگوں کو
صرف سیاسی وعدوں سے بہلایا گیا: بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان احمد بزدار نے کہا ہے کہ ''ماضی میں جنوبی پنجاب کے لوگوں کو صرف سیاسی وعدوں سے بہلایا گیا‘‘ حالانکہ انہیں غیر سیاسی وعدوں سے بھی نہایت خوبصورتی سے بہلایا جا سکتا تھا‘ جیسا کہ ہم غیر سیاسی وعدوں سے ان لوگوں کو بہلا رہے ہیں ‘جبکہ وہاں سیکرٹریٹ بنانے کا وعدہ بھی سراسر غیر سیاسی ہے‘ جو اگر پورا نہ ہوا تو اس کا سیاست سے کوئی تعلق نہ ہوگا‘ کیونکہ نہ ہم سیاست کرتے ہیں اور نہ ہی ہمیں سیاست کرنا آتی ہے‘ جبکہ میں تو کبھی سیاسی تھا ہی نہیں‘ پہلی بار ایم پی اے منتخب ہوا تو مجھے وزیراعلیٰ بنا دیا گیا؛ حالانکہ میرا کوئی قصور نہیں تھا اور انہیں اپنی غلطی کا احساس ہو جانا چاہیے تھا‘ لیکن ایسا بھی نہیں ہوا‘ کیونکہ انہیں سیاست کا کچھ پتا نہیں اور وہ خود بھی پہلی بار اقتدار میں آئے تھے اور امید ہے کہ انہیں اب تک کافی عبرت حاصل ہو چکی ہوگی اور آئندہ اس قسم کی حرکت سے اجتناب کریں گے۔ آپ اگلے روز لاہور میں جنرل (ر) کے ایم عارف کے انتقال پر اظہارِ تعزیت کر رہے تھے۔
کم ظرف حکومت حواس کھو چکی ہے: مریم اورنگزیب
سابق وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات اور نواز لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''کم ظرف حکومت حواس کھو چکی ہے‘‘ اور اس کی کم ظرفی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ نواز شریف کو واپس بلوانے پر تل گئی ہے ‘بلکہ سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے صحتمند ہونے کا ارادہ ہی ترک کر دیا ہے‘ کیونکہ جتنی صحت انہیں میسر ہے‘ اسے وہ اپنے لیے کافی سمجھتے ہیں‘ بلکہ کافی سے بھی کچھ زیادہ ہے‘ جسے وہ نارمل اور کم کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں‘ جبکہ وہ علاج بالغذا میں یقین رکھتے ہیں‘ جس کے لیے وہ کھانوں میں کمی بیشی کرتے رہتے ہیں‘ یعنی کبھی کم اور بیشی زیادہ اور جس کے بعد انہیں بھاری ورزش اور دوڑ شور بھی لگانی پڑتی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور سے ایک بیان جاری کر رہی تھیں۔
نواز شریف کا اسی ماہ علاج ہو جائے گا: رانا ثناء اللہ
سابق وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ ''نواز شریف کا اسی ماہ علاج ہو جائے گا‘‘ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ واپس بھی آ جائیں گے‘ اس لیے حکومت کو زیادہ بغلیں بجانے کی ضرورت نہیں ہے اور اگر شہباز شریف ہی واپس آ جائیں تو اسی کو غنیمت سمجھا جائے ‘کیونکہ نا اہل حکومت کے ہوتے ہوئے وہ واپس نہیں آ سکتے اور یہ نا اہل حکومت اگلے بیس سال تک کہیں جاتی نظر نہیں آتی‘ اس لیے حکومت اور اپوزیشن کو خاکسار پر ہی گزارہ کرنا پڑے گا اور وہ بھی اس شرط پر کہ مستقل سرکاری مہمان نہ بن جائوں‘ جس کے نہایت روشن امکانات موجود ہیں‘ کیونکہ منشیات کے مقدمہ سے جان چھوٹ گئی تو اثاثوں والے مقدمے سے تو گلو خلاصی کی کوئی صورت نظر ہی نہیں آتی‘ اس لیے ایسا لگتا ہے کہ ملک کو میری خدمات سے استفادہ کرنے کا موقع ملنے والا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں انسدادِ منشیات عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
درستی
ہماری اپنی ڈاکٹر عمرانہ مشتاق نے اپنے ایک کالم میں ایک شعر اس طرح نقل کیا ہے؎
جہاں ہم نشیں در من اثر کرد
وگرنہ من ہماں خاکم کہ ہستم
اس کا پہلا لفظ ''جہاں‘‘ نہیں ‘بلکہ ''جمال‘‘ ہے‘ جو ظاہر ہے کہ ٹائپ کی غلطی ہے۔ میرا آج کا مطلع‘ کل غلط چھپ گیا تھا‘ صحیح اس طرح سے ہے ؎
حصارِ اہلِ زباں میں گھرا ہُوا ہے ظفرؔ
اور ان کے بیچ میں یہ بے زبان آخری ہے
اور‘ اب آخر میں عامر ؔسہیل کی غزل:
حوض تک پانیوں کا منظر ہے
یہ مہارانیوں کا منظر ہے
ہم سے خواجہ سرا الجھتے ہیں
زہر خورانیوں کا منظر ہے
گردنوں کا مدار سر پہ نہیں
جشن کے ثانیوں کا منظر ہے
کوئی اندر دھنش جدائی کا
جس میں ویرانیوں کا منظر ہے
سجدۂ سہو ہار جائیں گے
جیسا پیشانیوں کا منظر ہے
آخری عشق ہے ترے رخسار
آخری ثانیوں کا منظر ہے
سو رہی ہو مرے شبستاں میں
کیا فراوانیوں کا منظر ہے
اور تاخیر سے بندھی لڑکی
اور سیلانیوں کا منظر ہے
جلد ہے یا کوئی ٹِشو پیپر
دیر حیرانیوں کا منظر ہے
ایک افسانوی سی انگڑائی
دُور عُریانیوں کا منظر ہے
باغ میں چپ کا کرفیو عامرؔ
اور من مانیوں کا منظر ہے
آج کا مقطع
بولا ہے ظفرؔ جھوٹ ہی لوگوں سے کچھ اتنا
اب آئے گی کیا بات میں تاثیر ہماری