تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     10-03-2020

… تو کدھر جائیں گے؟

کئی دنوں سے مرزا تنقید بیگ قبض کی سی کیفیت سے دوچار ہیں۔ اُن پر ایک نظر ڈالتے ہی کوئی بھی اندازہ لگاسکتا ہے کہ وہ شدید کرب سے دوچار ہیں۔ ہم نے جب بھی اُنہیں ایسی حالت میں دیکھا ہے‘ جی بھر کے ہدفِ استہزاء بنایا ہے۔ اُن کے لَتّے لینے میں ہمیں بہت مزا آتا ہے۔ ایسا نہیں کہ ہم بات بے بات مزے لینے کے عادی ہیں۔ بات کچھ یوں ہے کہ مرزا کسی ٹھوس جواز کے بغیر اس طور پریشان رہتے ہیں کہ کوئی انجانا دیکھے تو یہ محسوس کرے کہ شاید ان کے جہاز ڈوب گئے ہیں یا کھڑی فصلیں تباہ ہوگئی ہیں! 
خیر‘ آج کل مرزا ایک ایسے دکھ میں مبتلا ہیں کہ ہم چاہیں بھی تو اُن کاتمسخر نہیں اڑا سکتے۔ ہم بہت سے معاملات سے لطف کشید کرنے کے عادی اور شوقین ہیں‘ مگر خیر‘ اب ہم اتنے بھی سَفّاک نہیں کہ کسی کی جان پر بنی ہو اور ہم ہاہا ہی ہی کرتے پھریں۔ ملک کے حالات پر کڑھنا مرزا کی تقدیر میں لکھا ہے۔ ہم جانتے ہیں ‘وہ سدا سے ایسے ہی ہیں‘ مگر اب کے معاملہ کچھ اور ہے۔ کہتے ہیں ؛شیر شیر آیا کہہ کر لوگوں سے کھلواڑ نہ کی جائے ‘کیونکہ کبھی کبھی شیر آ بھی جاتا ہے۔ مرزا کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ 
ایک زمانہ تھا کہ وہ حالات کے حوالے سے پریشان ہوتے تھے تو اس پریشانی میں اداکاری کا عنصر غالب رہا کرتا تھا۔ لوگ رفتہ رفتہ اُن کی چالاکی سمجھتے گئے اور یوں اُنہیں پریشان دیکھ کر پریشان ہونے کی بجائے اُن سے کھیلنے لگے۔ 
کل ملاقات ہوئی تو ہمیں یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوا کہ مرزا کو حالات نے واقعی اَدھ مُوا اور پژ مُردہ کردیا ہے۔ ایک دور وہ بھی تھا کہ مہنگائی کے بارے میں بحث کرتے وقت مرزا کا جوش قابلِ دید ہوا کرتا تھا۔ وہ حکومت کو لتاڑنے پر آتے تھے تو ایسا کیفیت پیدا ہو جاتی تھی کہ لوگ پہلے تو مزے لیتے تھے اور پھر اس قدر مسحور ہو جاتے تھے کہ لطف اندوز ہونا بھی بھول جاتے تھے‘ صرف حیران رہ جانا یاد رہتا تھا۔ 
اچھے اچھوں سے جو کام نہ ہوسکا‘ وہ حالات نے کر دکھایا ہے‘ یعنی مرزا کے ہونٹوں پر چُپ کی مہر لگادی ہے۔ ہم نے پوچھا اب ایسی بھی کیا پریشانی کہ آپ تو ہنسنے بولنے سے بھی گئے۔ مرزا نے نیم دلانہ انداز سے جواب دیا ''بھائی! ایک عمر اس دشت کی سیّاحی میں گزری ہے۔ سیاست کے کوچے کی خاک چھانتے چھانتے بہت کچھ جاننے‘ جانچنے اور پرکھنے کا ہنر آگیا‘ مگر اب کے بات کچھ اور ہے۔ ذہن نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔‘‘ 
ہم نے کہا کہ آپ کا ذہن اگر کام نہیں کر رہا تو اس کا الزام حکومت پر عائد کرنا زیادتی ہے۔ یہ پہلے کون سا کام کر رہا تھا؟ اِس پر مرزا نے خاصی خوں خوار نظروں سے ہماری طرف دیکھا۔ ہم اُن کی آنکھوں کی یہی خوں خواریت دیکھنے کے متمنّی تھے۔ وہ جب کسی بات پر تپ جاتے ہیں تب اُن کے منہ سے ''پھول‘‘ جھڑنے لگتے ہیں۔ کان کے راستے یہ ''پھول‘‘ اتنی بڑی تعداد میں ہمارے ذہن میں اترے ہیں کہ وہاں ایک ''گلستاں‘‘ سا پایا جاتا ہے! 
مرزا نے اپنی نظروں کی خوں خواریت برقرار رکھتے ہوئے خاصے غُرّاتے ہوئے لہجے میں کہا ''ہر معاملے میں بے تُکی بات کرنے کی تمہاری عادت گئی نہیں۔ ہم حالات کے ہاتھوں پریشان ہیں اور تمہیں طنز سُوجھ رہا ہے۔ اس حکومت نے ایسے حالات پیدا کردیئے ہیں کہ کوئی اگر لطیفہ سُنانے کی بات کرے تو لگتا ہے وہ طنز کرنے پر تُلا ہوا ہے۔‘‘ ہم نے عرض کیا یہ کیفیت تو ہر حکومت میں رہی ہے۔ موجودہ حکومت اس حوالے سے کسی اختصاص کی حامل نہیں۔ عمران خان کی قیادت میں بھی ہم خاصی مضحکہ خیز صورتحال ہی سے دوچار ہیں۔ اب تو اس کیفیت کا عادی ہو جانا چاہیے۔ یہ بات سُن کر مرزا نے اپنی آنکھوں میں خوں خواریت کا گراف نیچے لاتے ہوئے قدرے مِنمِناتے ہوئے لہجے میں آہستگی سے کہا : ''ارے بھائی! اس حکومت نے تو کمال ہی کردیا ہے۔ لوگ بہتر زندگی کا سوچا کرتے تھے کہ اُسے کیونکر یقینی بنائیں۔ اب معاملہ یہ ہے کہ انسان دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرنے کی زحمت سے نجات نہیں پارہا۔ اِس جھنجھٹ کو پچھاڑ کر سر اٹھانے کا موقع ملے تو انسان کچھ سوچے۔‘‘ 
مرزا کی بات ہمارے لیے حیران کن کم اور پریشان کن زیادہ تھی۔ ہم نے عرض کیا کہ دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرنا تو ہر دور میں پاکستانیوں کا انتہائی بنیادی مسئلہ رہا ہے۔ اس میں پی ٹی آئی کی حکومت کا کیا کمال ہے؟ 
مرزا نے جھٹ سے جواب دیا ''کمال کیوں نہیں‘ صاحب؟ ہمارے وزیر اعظم عمران خان بھی تو صورتحال کی نزاکت کو بھانپنے کے بعد کہہ چکے ہیں کہ انسان کو جیتے جی سُکون کا صرف خواب ہی دیکھنا چاہیے۔ اس خواب کی تعبیر قبر میں ہے‘ یعنی حقیقی سُکون تو مرنے کے بعد ہی مل سکے گا! وزیر اعظم کی یہ بات ہمارے جی کو لگی ہے۔ ایسی حقیقت پسندی‘ بلکہ 'روحانیت‘ ہمیں کسی اور وزیر اعظم میں دکھائی نہیں دی۔ اور پھر ''زندہ دلی‘‘ و ''انسان دوستی‘‘ دیکھیے کہ جیسے تیسے زندگی بسر کرنے والوں کی دل آزاری کے بجائے اُنہوں نے ''بشارت‘ ‘دے ڈالی کہ یہ سارے دکھ یہیں رہ جائیں گے‘ اُس دنیا میں قدم رکھنے کے ساتھ ہی ہر طرف سکون کا دور دورہ ہوگا‘‘۔ 
ہم نے اعتراض داغا کہ وزیر اعظم کا کام مرنے کے بعد کے سُکون کی یقین دہانی کرانا نہیں‘ بلکہ اس دنیا ہی میں عوام کے لیے زیادہ سے زیادہ سُکونِ قلب یقینی بنانا ہے۔ وزیر اعظم معاملات کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے ہوتا ہے‘ محض دلاسے دینے کے لیے نہیں۔‘‘ 
مرزا کو چند لمحات کے لیے چُپ سی لگ گئی۔ کہتے بھی کیا؟ وزیر اعظم نے خیر سے کہنے کو چھوڑا بھی کیا ہے؟ جب وہ کسی بات کی یقین دہانی کراتے ہیں تو لوگ سہم جاتے ہیں۔ اُنہوں نے جب بھی کسی چیز کے دام نیچے لانے کی بات کی ہے‘ اگلے ہی دن وہ چیز خاصے بلند نرخ پر فروخت ہوتی ہوئی پائی گئی ہے! 
ایک مرزا تنقید بیگ پر کیا موقوف ہے‘ اس قوم کے خدا جانے کتنے ہی مرزا حکومتی اقدامات کی نوعیت اور اثرات دیکھ کر دم بخود ہیں اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کا اب تک معاملہ یہ رہا ہے کہ ع 
پاؤں رکھتا ہوں کہیں ... اور کہیں پڑتا ہے! 
اس قوم کا نصیب کہ موجودہ وزیر اعظم کو بھی اُنہوں نے گھیر رکھا ہے جو بات بے بات ہاں میں ہاں ملاتے ہیں اور خوشامد سے ذرا بھی دامن کش نہیں ہوتے۔ عمران خان کیریئر کرکٹر ہیں‘ کیریئر پولیٹیشین نہیں۔ حاشیہ برداروں کی ٹولی نے شبانہ روز محنت کے ذریعے اُنہیں یہ باور کرنے پر مجبور کردیا ہے کہ وہ سیاست ہی کے لیے پیدا ہوئے ہیں‘ کرکٹ کی طرف تو بس یونہی چلے گئے تھے۔ سیاست کے بنیادی اطوار سے شدید ناواقفیت کے باعث عمران خان اب تک ایسا کچھ بھی نہیں کر پائے ‘جو اُن کا نام سیاست دان کی حیثیت سے زندہ رکھنے میں معاون ثابت ہو۔ اُن کی وزارتِ عظمیٰ کے عہد میں ملک بگڑا بھی ہے ‘مگر اُس سے زیادہ تو شش و پنج میں مبتلا ہوا ہے۔ جن کی تجوریاں بھری ہوئی ہیں اُنہیں کیا غم؟ ہاں‘ غریبوں کی جان پہ بن آئی ہے۔ عمران خان نے مرنے پر سُکون پانے کا یقین دلایا ہے ‘مگر لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ ؎ 
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے 
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved