وزارتِ قومی ورثہ و یک جہتی کے نام خانوادۂ اقبال کی ایک یادداشت میرے سامنے رکھی ہے۔اس پرڈاکٹر جاوید اقبال سمیت اقبال کی دونسلوں کے دستخط ہیں۔ یادداشت کیا ہے،ایک نوحہ ہے، ایک شکایت ہے کہ اہلِ ہوس کے لیے اب نامِ اقبال بھی جنسِ بازار ہے۔ لاہور کی ایجرٹن روڈ پر ایوانِ اقبال کی پر شکوہ عمارت کھڑی ہے۔پنجاب حکومت نے ’’اقبال اکیڈمی‘‘ کو یہ جگہ عطیہ کی تھی جس پر وفاقی حکومت نے یہ عمارت اُٹھا دی۔ اس سات منزلہ عمارت کی صرف ایک منزل اقبال اکیڈمی کے پاس ہے۔چھ منازل کرائے پر ہیں۔ اس کے ساتھ لاہور کا سب بڑا کانفرنس سنٹر بھی منسلک ہے۔کبھی ایوانِ اقبال کے اثاثے اسّی ارب روپے سے متجاوز تھے۔ یہ عمارت سالانہ دو کروڑ کما رہی تھی۔ جولائی 2010ء تک اس کا سالانہ بجٹ اضافی تھا۔یہ اضافہ چودہ لاکھ روپے تھا۔پھر ایک صاحب انتظامی کمیٹی کے چیئرمین بنائے گئے جو اس وقت نگران وزیر بھی ہیں اور ایوانِ صدر سے خصوصی مراسم کی شہرت رکھتے ہیں۔ ان کی تشریف آوری کیا ہوئی کہ اخراجات بڑھنے اور وسائل گھٹنے لگے۔ ایک خوب صورت عمارت کا حسن گہنا گیا۔وہ ایوان جو کرایہ داروں کے لیے ہمیشہ باعثِ کشش تھا، اب خالی ہونے لگا۔بد انتظامی نے اس کی شہرت کا گھیراؤ کر لیا۔ جولائی 2010ء میں یہاں 130 ملین کی سرمایہ کاری تھی جو کم ہو کر آج ستر ملین روپے رہ گئی ہے۔ پبلک اکاؤنٹ کمیٹی اس پر تشویش کا اظہار کر چکی اور عام شہری بھی۔ انتظامی کمیٹی کے چیئرمین کے نام ایک کھلا خط لکھا جا چکا جس میں ایڈمنسٹریٹر اور انتظامیہ کے بارے میں ہوش ربا انکشافات ہیں۔ ممتاز ماہرِ اقبالیات اور اقبال اکیڈمی کے تا حیات رکن ڈاکٹر ایوب صابر اِس تصدیق کے ساتھ یہ خط وفاقی محتسب کو ارسال کر چکے کہ ’’اس مراسلے میں جن باتوںکا تذکرہ ہے، وہ اکثر درست ہیں۔‘‘ بد انتظامی تو معاملے کا ایک پہلو ہے۔ سب سے تشویش ناک بات وہ ہے جس کی طرف ڈاکٹر جاوید اقبال اور حضرتِ اقبال کے پورے خاندان نے وزارتِ قومی ورثہ کو توجہ دلائی ہے۔ اس ایوان کا رشتہ فکرِ اقبال سے توڑا جا رہا ہے۔ اس کے لیے اقبال اکیڈمی اور اس کے ناظم سہیل عمر صاحب ہدف ہیں۔ یہ اکیڈمی فکرِ اقبال کے افکار کی ترویج و اشاعت کے لیے قائم کی گئی تھی لیکن آج خانوادۂ اقبال کا متفقہ بیان ہے :’’ ہم اکیڈمی سے علامہ اقبال کی وجہ سے ایک فکری تعلق رکھتے ہیں اور ہر گز نہیں چاہتے کہ اقبالیات کی روایات کو درست سمت میں ترقی کے مراحل سے گزارنے والا یہ ادارہ انتشار کا شکار ہو جائے۔ اگر ایسا کرنے کی کوششیں جاری رہیں تو ہم یہ سمجھنے پر مجبور ہوں گے کہ بعض طاقت ور عناصر سہیل عمر صاحب کا نام لے کر دراصل اقبال کی آواز کو دبانا چاہتے ہیں۔‘‘اس تشویش کی بنیادی وجہ ہے کہ ایوانِ اقبال کی طرف سے اقبال اکیڈمی کو وسائل فراہم نہیں کیے گئے، حالانکہ ایوان کی قانونی دستاویز میں اس کی یہ ذمہ داری بیان کی گئی ہے۔لکھاہے:’’اقبال اکیڈمی کے تیار کردہ منصوبوں کی کفالت کرنا اور مالی امداد فراہم کرنا‘‘۔ اس کی سرگرمیوں اور انتظامی اخراجات کے لیے مالی وسائل فراہم کرنا۔‘‘ وسائل کی فراہمی تو درکنار‘ آج کے ایوانِ اقبال کی عمارت سے اقبال اکیڈمی کا بورڈ ہٹادیا گیاہے۔ جن دیواروں پرا قبال کے شعر رقم تھے‘ تصاویرآویزاں تھیں‘ آج سپاٹ چہرے کے ساتھ اقبال کے عشاق کا منہ تک رہی ہیں۔یہ سب اس لیے ہے کہ انتظامی کمیٹی کے چیئرمین بارسوخ ہیں‘ وزیر ہیں۔ اقبال کا خاندان اگر اب بھی نوحہ خواں نہ ہوتو کب ہو؟ ایوانِ اقبال میں یہ نقب زنی اس لیے ممکن ہوئی کہ اس کے لیے ضروری آئینی اقدام سے گریز کیا گیا۔اس کے وسائل پر لوگوں کی نظررہی۔ وزیر موصوف اب اس قانونی خلا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے‘ اس کوشش میں ہیں کہ ایوانِ صدر سے اُن کے حسبِ منشا ایک آرڈیننس جاری ہوجائے۔ ان کی خواہش ہے کہ اقبال اکیڈمی کاباب بند ہوجائے اور ایوان کی یہ شاندار عمارت بمعہ اپنے وسائل، ان کے قبضۂ قدرت میں چلی جائے۔ آرڈیننس کی یہ آرزو ایسے وقت میں کی جارہی ہے جب پارلیمنٹ کا پہلا اجلاس ہونے کو ہے اور اس حوالے سے ایک مسودۂ قانون برسوں سے پارلیمنٹ کی منظوری کا منتظر ہے۔ یہ بل مجاز اتھارٹی سے منظور شدہ تھا۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹیوں کے علاوہ وفاقی کابینہ اور متعلقہ وزارتوں کی توثیق بھی اسے حاصل تھی۔ اس سے اقبال اکیڈمی کے تحت نہ صرف اس ایوان کو قانونی تحفظ مل جاتا بلکہ فکرِ اقبال کے فروغ واشاعت کے لیے تمام سرگرمیاں منضبط ہوجاتیں اور اس عمارت کی طرح افکارِاقبال کی بنیاد پر ہماری فکری عمارت بھی کھڑی ہوجاتی۔ ماضی میں کہتے ہیں کہ یوسف رضا گیلانی صاحب کے قریبی عزیز‘ اس صورت حال کا سبب رہے جو سیکرٹری ثقافت تھے۔ یہ وزارت قانون سازی کے راستے میں حائل رہی۔ 30اگست 2005ء کو وفاقی کابینہ نے ایک بل منظور کیا: ’’اقبال اکیڈمی ایکٹ 2005ء کے تحت‘ اقبال اکیڈمی پاکستان کی تشکیلِ نو کی جائے‘‘۔ اس کام کے لیے تمام متعلقہ محکموں اور وزارتوں سے منظوری لی گئی۔ 7 جنوری 2006ء کو وفاقی کابینہ نے ایک حتمی بل منظور کیا۔ یہ قومی اسمبلی میں پیش ہوا‘ قومی اسمبلی اور سینٹ کی مجالس قائمہ نے منظوری دی اور یہ سپیکر کے سپرد ہوگیا۔ 2007ء میں اسمبلی کا وقت ختم ہوا اور یہ بل قانون نہیں بن سکا۔ نئی اسمبلی وجود میں آئی لیکن وزارت ثقافت نے دوبارہ یہ بل قومی اسمبلی میں پیش نہیں کیا۔ سیکرٹری وزارتِ قومی ورثہ نے اس باب میں ایک واضح نوٹ لکھا:’’اقبال اکیڈمی ایکٹ کا بل قومی اسمبلی میں آج تک دوبارہ پیش نہیں کیا جاسکا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وفاقی کابینہ کے فیصلے اور پالیسی کا اطلاق نہیں ہوسکا۔ اقبال اکیڈمی اور ایوان اقبال دونوں آج کل وزارت قومی ورثہ کے ساتھ منسلک ہیں۔ چودہ سال گزر چکے۔ وقت آگیا ہے کہ اس لمبی تاخیر کا ازالہ کیا جائے اور آگے بڑھ کر قانون سازی کے عمل کو پھر سے جاری کرتے ہوئے اقبال اکیڈمی ایکٹ 2011ء کا بل ازسرنو اسمبلی کو پیش کی جائے۔ قانون سازی کے جملہ مراحل اس ضمن میں پہلے ہی طے ہوچکے ہیں‘‘۔ اس قضیے کاحل بہت آسان ہے۔ یہ بل پارلیمنٹ کے سامنے پیش ہو اورصدارتی آرڈیننس کے بجائے، اس باب میں مستقل قانون سازی کردی جائے۔ ایوانِ اقبال کی سرگرمیوں کا محور فکرِ اقبال کا فروغ ہونا چاہیے اور اس کے لیے لازم ہے کہ اس کے معاملات اقبال اکیڈمی کے سپرد ہوجائیں‘ جس کی جگہ پر ایوان تعمیر ہوا ہے۔ اللہ کرے خانوادۂ اقبال کو پھر کسی وزارت کے نام کوئی یادداشت ‘ کوئی نوحہ‘ کوئی شکایت نہ لکھنی پڑے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved