نہ جانے کیسے حکمران‘ کیسے نوکر شاہ‘ کیسے سرکاری اہلکار اور کیسے سیاسی ہرکارے ہمیں ورثے میں ملے ہیں۔ شہروں کے شہر تباہ کر ڈالے۔ گزشتہ پچاس برسوں میں یعنی جب ہماری اجتماعی زندگی میں دیسی حکمرانی کا رنگ غالب ہوا تو نالائق شاہی افسران نے قومی خزانے پہ ایسا ہاتھ صاف کیا کہ کوئی دشمن بھی نہ کر سکے۔ بد عنوانی میں ایک سے بڑھ کر ایک‘ اندر سے بد بو دار‘ مگر باہر سے اجلے‘ خوش گفتار اور اکثر با سلیقہ۔ ہر سطح پہ ایسے گروہ تشکیل پائے کہ اپنی برادریاں بنا ڈالیں‘ تاکہ ایک دوسرے کی بوقت ضرور حفاظت ہو سکے۔ سیاسی حکومتیں اسلام آباد میں آتی رہیں اور جاتی رہیں مگر نوکر شاہوں کے ہر دور میں وارے نیارے رہے۔ جمہوری اور غیر جمہوری حکومتوں کے تمام ادوار میں اسلام آباد‘ جو کسی دور میں خوبصورت تھا بھی اور اس کے ساتھ یہ لفظ بھلا اور موزوں بھی معلوم ہوتا تھا‘ لوٹ کھسوٹ کی منڈی بنا رہا۔ ان میں سے متعدد نے دس بیس نہیں سینکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں اربوں کھربوں کے پلاٹ خیرات کی ریوڑیوں کی طرح اپنے خاندان والوں‘ دوستوں اور سیاسی گماشتوں میں بانٹے۔ مزید پلاٹ نکالنے کے لئے قدرتی نالوں کے ارد گرد چھوڑے گئے جنگلات‘ اور گرین علاقوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا۔ درختوں کے لیے مخصوص کی گئی جگہیں سکڑتی چلی گئیں۔
میں اسلام آباد کو انیس سو چوہتر کے پہلے مہینے سے دیکھتا چلا آ رہا ہوں۔ یہ شہر گزشتہ چالیس برسوں سے میرا مستقل پتہ بن چکا ہے۔ ہماری گلی کے آخر میں ایک قدرتی نالہ بہتا ہے۔ تقریباً ربع صدی پہلے جب یہ جگہ خریدی تھی تو اس نالے میں تازہ پانی دیکھتا تھا۔ یہ صاف شفاف پانی مارگلہ کی پہاڑیوں اور چشموں سے رواں ہوتا تھا۔ یہ پانی اتنا شفاف ہوتا تھا کہ اس میں مچھلیاں تیرتی ہوئی نظر آتی تھیں۔ آج یہ نالہ بد بو دار ہو چکا ہے‘ گندے پانی سے لبریز اور ارد گرد کے مکینوں کے لیے وبال جان۔ اس میں سے اب اتنا تعفن اٹھتا ہے کہ گرمیوں کے چند مہینے سانس لینا تک دشوار ہو جاتا ہے۔ میرے ہمسایوں میں سے کچھ تو دکھ کے ساتھ کہتے ہیں: کیوں نہ یہاں سے نقل مکانی کر لیں‘ کہیں اور چلے جائیں۔ ہم تو زندگی کے اس حصے میں داخل ہو چکے ہیں کہ نہ کوئی اور مکان‘ نہ کوئی اور جگہ ہمیں پسند آ سکتی ہے۔ نقل مکانی کا تو دم ہی نہیں۔ بدبو رہے یا دم گھٹے اب ٹھکانہ تو یہی ہے۔ فطرت کی آرزو میں تازہ دم ہونے کے لئے مضافات کا رخ کرتے ہیں‘ کہ کچھ دن اپنے ہی گھر سے چھٹکارا مل سکے۔ مگر فرار اس مسئلے کا حل نہیں۔ اسلام آباد اور دیگر شہروں کو بہتر بنانے کی لڑائی ہم نے سیاسی طور پہ خود لڑنی ہے۔ یہ سطور تو کچھ حوصلہ پا کر آپ کی نذر کر رہا ہوں کیونکہ چند روز قبل محترم چیف جسٹس جناب جسٹس گلزار احمد صاحب نے کچھ ایسے کلمات ادا کیے کہ دل باغ باغ ہو گیا۔ ایک طرح سے ہمارے دلوں کی بات ہی کہہ ڈالی۔ وہی سوال اٹھائے جو ہم اس مرکزی شہر کے مکین نجی محفلوں میں اٹھاتے رہتے ہیں اور جو اکثر ہماری نجی گفتگو کا موضوع ہوتے ہیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ شہر میں ہر طرف غلاظت کیوں ہے؟ ہوا کثیف ہے‘ لطیف اور آلودگی سے پاک نہیں‘ ماحولیاتی آلودگی کے بارے میں چیئرمین سی ڈی اے اور میئر اسلام آباد کارپوریشن نے کیا اقدامات کیے ہیں؟ عزت مآب چیف جسٹس نے یہ تک کہہ دیا کہ عدالت عالیہ کے احکامات پہ سی ڈی اے کان نہیں دھرتی۔ اگر میرا بس چلے اور ہم عدالت عالیہ کے سامنے کوئی استدعا کر سکیں تو اس ادارے کو ختم ہی کر ڈالیں۔ سنا ہے سولہ ہزار ملازمین ہیں‘ یونین بندی ہے اور یونین کے اہلکاروں نے افسروں کے ساتھ مل کر ادارے کو تباہ کر دیا ہے۔ فون کر کے دیکھ لیں‘ ان ہزاروں میں سے شاید ہی کوئی ہو جو فون کا جواب دینے کی زحمت گوارا کرے۔ سب اپنے اپنے کاروبار میں مصروف ہیں۔ دیگر سرکاری اداروں کے ملازمین کا حال بھی اس سے کوئی زیادہ مختلف نہیں ہے۔
جناب چیف جسٹس صاحب نے یہ بھی کہا کہ ان دونوں اداروں میں گھوسٹ ملازمین ہیں جو تنخواہیں تو باقاعدگی سے لیتے ہیں‘ کام پہ کبھی نظر نہیں آتے۔ یہ بالکل درست ہے۔ ہمارے سامنے ایک پارک ہے‘ جس کی صفائی کے بارے میں پہلے ایک کالم میں لکھ چکا ہوں کہ مقامی خواتین کو اپنی مدد آپ کے تحت صفائی میں مصروف دیکھا اور کچھ مرد حضرات کو بھی۔ چند ماہ قبل صبح کی سیر کو نکلا تو ایک شخص کو‘ جو مقامی نہیں لگتا تھا‘ پارک میں پھیلا کچرا سمیٹتے دیکھا۔ جب سے یہ پارک بنا ہے‘ یعنی تقریباً پندرہ سولہ سال سے‘ پہلی مرتبہ ہمارے علاوہ کوئی کوڑا کرکٹ اکٹھا کرتا ہوا نظر آیا۔ پاس گیا اور دریافت کیا کہ آپ کون ہیں اور کس گھر میں یہاں کہیں رہتے ہیں‘ تو یہ جان کر حیرانی کی حد نہ رہی کہ وہ اسلام آباد کارپوریشن‘ اور اس سے پہلے سی ڈی اے کا ملازم نکلا۔ مزید پوچھا کہ کیا ان کی ذمہ داری یہاں ہے‘ اور کب سے وہ اس پارک کے لیے کام کرتے ہیں تو انہوں نے بتایا کہ وہ ابھی یہاں ٹرانسفر ہو کر آئے ہیں‘ لیکن اس پارک کی صفائی اور حفاظت کے لیے دو ملازمین مستقل طور پر موجود ہیں۔ میں نے سوچا‘ ہم نے کبھی نہیں دیکھے۔ تحریک انصاف والوں سے توقع تھی کہ گھوسٹ ملازمین کم از کم اسلام آباد جیسے مرکزی شہر میں تو ختم کر ہی دیں گے۔
ہمارے سامنے سیکٹر کا مرکز ہے۔ برسوں سے چلنے کے راستے اکھڑے ہوئے ہیں۔ سڑک کراس کرنے کے لیے کچھ راستے ہیں۔ میں ہولوں کے ڈھکن غائب ہیں اور جس کی مرضی اور زور چلتا ہے‘ وہ مرکز میں لگائی گئی اینٹوں کے فرش اکھاڑ کر باہر پھنک دیتا ہے۔ دنیا میں بہت سے شہر دیکھے ہیں مگر پاکستانی شہروں جیسی گندگی اور انتظامی بے ترتیبی کہیں نہیں دیکھی۔ کچھ لوگ یہ بات درست کہتے ہیں کہ اسلام آباد واحد شہر ہے جس کا کوئی والی وارث نہیں۔ عمران خان صاحب کے وزیر اعظم بننے کے بعد امید کی ایک کرن چمکی تھی کہ وہ منصوبہ بند اسلام آباد کے شہری اگرچہ نہیں‘ لیکن قرب و جوار کی بستی کے مکین تو ہیں۔ شاید وہ اس شہر کو اپنا سمجھ کر ٹھیک کرنے کی کوشش کریں۔ ہر گزرنے والے مہینے کے ساتھ ان کے بارے میں میری خوش فہمی مدہم پڑتی جا رہی ہے۔ نوکر شاہی پہ ان کی گرفت نظر نہیں آتی؛ تاہم اس حکومت نے کچھ اچھے اقدامات بھی کیے۔ درخت لگانا اور پلاسٹک کے لفافوں کی خرید و فروخت اور استعمال پہ پابندی موجودہ حکومت کے وہ اقدامات ہیں‘ جن کے دور رس نتائج سامنے آئیں گے۔ لیکن چند ہفتوں اور مہینوں میں وہی ہوا جو پاکستان کی تاریخ میں ہوتا آیا ہے۔ سوائے بڑی دکانوں کے‘ ہر مرکز اور ہر مارکیٹ میں پلاسٹک کے لفافے دوبارہ سے سر نکال کر آ گئے ہیں۔ کسی دکان دار کو قانون کا خوف نہیں۔ اس لئے کہ قانون کون نافذ کرے؟ کسی نے کبھی پوچھا ہے‘ جو ہم پوچھ رہے ہیں کہ ہر ہفتے کتنے دکان داروں کو پلاسٹک کے لفافوں میں سودا دیتے ہوئے جرمانے کیے جاتے ہیں۔ اسلام آباد اور دیگر شہروں کے لئے اس کے علاوہ بھی قوانین ہیں۔ عمل مگر کون کروائے؟
ہمارے مال دار‘ پڑھے لکھے متوسط اور اعلیٰ طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگ‘ ہمارے اسلام آباد کے شہری روزانہ سڑکوں پر کاریں دھلواتے ہیں‘ گھروں کے فرشوں کو پینے والے صاف پانی سے دھو کر گند سڑکوں اور گلیوں میں بہاتے ہیں۔ کوئی اہلکار کہیں نظر نہیں آتا کہ وہ سڑکوں کی بربادی‘ جو ہر شہر میں ہو رہی ہے‘ کو روکے۔
اسلام آباد کا کوئی سیکٹر کوئی گلی ایسی نہیں جہاں ہمارے مقامی مکینوں کے ملازمین یا سینی ٹیشن کا عملہ کوڑے کرکٹ کو آگ نہ لگاتا ہو۔ اس بد قسمت شہر کی کسی بھی سڑک پہ صبح سویرے نکلیں‘ آپ کو ہر طرف دھواں پھیلا ہوا نظر آئے گا۔ کہاں ہے ہزاروں کا عملہ‘ افسر شاہی اور ہمارے حکمران۔ ہر شہر میں ہم خاموشی اور بے بسی کی زندگی جی رہے ہیں۔ کبھی ذہن میں اس قسم کا ابال آ ہی جاتا ہے۔ محترم چیف جسٹس صاحب! آپ ہی اسلام آباد کو آلودگی سے بچانے کی کچھ تدابیر کر جائیں۔ ہمارے وزیر اعظم‘ چیئرمین سی ڈی اے اور میئر صاحب کو اور بہت سے کام اور گوناگوں مصروفیات ہیں۔ ہم سب امید پر زندہ ہیں۔