میرے دوست طارق حبیب (جو اسی اخبار میں تناظر کے عنوان سے کالم لکھتے ہیں) ایک زمانے میں ایجوکیشن رپورٹر ہوا کرتے تھے۔ کراچی سمیت پورے صوبہ سندھ کے تعلیمی اداروں کا احوال اپنے اخبار کے قارئین تک پہنچانا ان کی ذمہ داری تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ڈاکٹر عشرت العباد سندھ کے گورنر تھے اور وہ بربنائے عہدہ سندھ کے تمام تعلیمی بورڈز کے سربراہ ہوا کرتے تھے۔ طارق صاحب کو نجانے کیا سوجھی کہ کراچی سیکنڈری بورڈ میں کرپشن کا پردہ چاک کرنے پر تُل گئے۔ یہ ارادہ لے کر جب وہ بورڈ کے دفتر پہنچے تو انہیں علم ہوا کہ کراچی اور سندھ کے تعلیمی نظام کی اصلیت فاش کرنے کے لیے انہیں کچھ زیادہ نہیں کرنا ہو گا۔ انہوں نے کراچی یونیورسٹی کے ریکارڈ میں سے ڈاکٹر عشرت العباد کا ایم بی بی ایس کا داخلہ فارم نکلوایا۔ اس پر لگی تصویر اتار کر اس کی نقل تیار کی اور انہی کے نام سے بارہویں جماعت کے امتحان کے لیے داخلہ فارم تیار کر لیا۔ اس فارم میں ان کی تاریخ پیدائش وہی تھی جو گورنر صاحب نے اپنے کاغذات میں لکھ رکھی تھی یعنی دو مارچ انیس سو تریسٹھ۔ اس فارم پر فیس جمع کرائی گئی اور پھر کراچی سیکنڈری بورڈ کے عملے کو دس ہزار روپے دے کر طے کیا کہ 'طالب علم‘ خود پرچے نہیں دے گا بلکہ اس کا بندوبست خود متعلقہ عملہ کرے گا۔ پیسے دیتے ہوئے یہ فیصلہ بھی ہوا کہ اس ''ہونہار‘‘ طالب علم کو اے گریڈ میں پاس کیا جائے گا۔ امتحان کے دن آئے اور گزر گئے۔ کچھ عرصے بعد نتیجے کا اعلان ہوا تو ''عشرت العباد‘‘ اے گریڈ لے کر کامیاب ہو گئے۔ کراچی کی تعلیمی زبوں حالی کی قلعی کھل چکی تھی لیکن طارق حبیب نے یہیں پر بس نہیں کی بلکہ جب بورڈ کی سند جاری ہوئی تو اس کی تصدیق کرانے کے لیے دوبارہ ایک درخواست ڈال دی‘ جس پر بورڈ نے اپنی جاری کی ہوئی سند کی ذمہ داری پوری طرح قبول کی، گویا جو پیسے خرچ ہوئے تھے ان کا پورا پورا حساب دے دیا گیا۔ جب یہ کام ہوا تو اگلے دن کراچی کے تین اخبارات کے پہلے صفحے پر خبر جگمگا رہی تھی کہ ، ''گورنر سندھ بارہویں جماعت میں کامیاب ہو گئے‘‘۔ اس خبر کا چھپنا تھا کہ کراچی کے تعلیمی بورڈ میں زلزلہ آ گیا۔ بڑے بڑے افسر وں کو اپنی جگہ چھوڑنا پڑی، معاملات میں معمولی سی بہتری آئی لیکن عارضی طور پر۔ اس کے بعد سندھ میں کشمور سے کراچی تک کے بچے امتحانوں میں نقل لگاتے ہوئے ٹی وی پر بھی نظر آنے لگے لیکن کچھ نہیں ہوا۔ ہم جیسے چلّا چلّا کر گلے پھاڑ بیٹھے لیکن کسی نے کچھ نہیں سنا۔
جس طریقے سے کراچی میں تعلیمی اسناد حاصل کی جا سکتی ہیں بالکل اسی طرح شہر میں عمارتیں بھی بنائی جا سکتی ہیں۔ یہ قطعی ضروری نہیں کہ کوئی زمین کسی تعمیر کے لیے موزوں ہو، یہ بھی لازمی نہیں کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے کسی قانون کی پابندی کی جائے۔ پیسہ ہے تو سب کچھ ہو جائے گا۔ جس نے جو کچھ بنانا ہے بس اپنے علاقے کے بلڈنگ انسپکٹر سے رابطہ کرے، کچے پکے کاغذات بنائے اور شروع ہو جائے۔ ماچس کی ڈبیہ جتنی جگہ بھی کسی کے پاس ہے تو آسمان تک عمارت اٹھا لے‘ کوئی نہیں پوچھے گا۔ نوے گز (لاہور کے ساڑھے تین مرلے) کے پلاٹ پر چار منزلہ عمارت بنا کر اس میں آٹھ کابک نما فلیٹ بنا کر بیچے اور غائب ہو جائے، اللہ اللہ خیر سلّا۔ اگر ایک سو بیس گز (لاہور کے تقریباً پانچ مرلے) کا پلاٹ ہے تو پھر پانچ منزلہ عمارت بنائے، اس کو دس اپارٹمنٹس میں تقسیم کرے اور بیچ کر عیاشی کرے۔ کوئی کچھ نہیں پوچھے گا کہ قانون تو صرف گراؤنڈ فلور کے علاوہ صرف دو منزلوں کی اجازت دیتا ہے۔ یہ پانچ منزلیں کیسے تعمیر ہو رہی ہیں؟ کسی علاقے میں بھی غیر قانونی عمارت بن رہی ہو، متعلقہ ادارے اندھے ہو جائیں گے اور بنتے وقت اسے روکنے کی کوشش نہیں کریں گے۔ اس لیے کہ یہ کراچی ہے، یہاں سوال پوچھنے والا دراصل اپنے حصے کا طلب گار ہے؛ البتہ حصّہ دینے میں غفلت کا نتیجہ خطرناک ہو سکتا ہے۔ عمارت کا معیار کیا ہے؟ مناسب جگہ پر بنی ہے؟ اسے یہاں ہونا بھی چاہیے تھا یا نہیں؟ یہ سوالات اسی وقت اٹھیں گے جب پیسہ نہیں چلے گا۔ اگر اس شہر میں تعمیرات کے دوران ذرا سا بھی قوانین قاعدے کا خیال رکھ لیا جاتا تو رضویہ سوسائٹی میں عمارت گرنے سے ستائیس افراد جاں بحق نہ ہوتے۔
پچھلے دو سال کے دوران کراچی میں چار عمارتیں نامعلوم وجوہات کی بنا پر گر چکی ہیں۔ یہ تمام عمارتیں وہی تھیں جنہیں دراصل قواعد و ضوابط کے مطابق تعمیر ہی نہیں ہونا چاہیے تھا۔ لیکن نہ صرف یہ تعمیر ہوئیں بلکہ ان میں گیس کا کنکشن بھی لگا، بجلی کا میٹر بھی لگا اور ان کے فلیٹ قانونی طور پر بکے بھی۔ گویا صرف سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نہیں بکی بلکہ بجلی، گیس اور پانی کے محکمے بھی اندھے بہرے ہوگئے اور انہوں نے چھوٹے چھوٹے پلاٹوں پر دس دس کنکشن فراہم کیے۔ اس کا مطلب ہے کہ کراچی میں آوے کا آوا ہی بگڑ چکا ہے۔ ہر جگہ پیسے کے زور پر کچھ بھی کروایا یا رکوایا جا سکتا ہے۔ اس چلن کا نتیجہ یہ ہے کہ ان چار گر جانے والی عمارتوں جیسی ہزاروں شہر میں بن کر بک چکی ہیں اور لاکھوں لوگ ان میں رہ رہے ہیں۔ دعوے، بڑھکیں اپنی جگہ لیکن یہ طے ہے کہ ان عمارتوں کو بنانے والے نہیں پکڑے جائیں گے کیونکہ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کا 'سسٹم‘ ان سب کو بچالے گا۔ خطرے میں ہیں تو صرف وہ لوگ جوان عمارتوں میں رہ رہے ہیں۔ دوسال کے اندرچارعمارتوں کااپنے بوجھ سے ہی گرجانا، بتا رہا ہے کہ یہ سلسلہ رکے گانہیں۔ ایسے عمارتوں کی حتمی تعداد اور ان کے تعمیری نقائص کے بارے میں کوئی نہیں جانتا۔ لیکن ہم یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کم از کم سندھ حکومت اس بارے میں کبھی کچھ نہیں کرے گی۔
جب میں نے کراچی میں صحافت کا آغاز کیا تھا تو اس وقت آنجہانی اردشیر کاؤس جی اپنے چند چاہنے والوں کے ساتھ مل کر سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ میں درخواستیں دائر کرکر کے کراچی کو کنکریٹ کا جنگل بننے سے روکنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ اس وقت شہر میں ایم کیو ایم کا طوطی بولتا تھا اور اس جماعت کے بہت سے رہنما خود پراپرٹی ڈیلر ہوا کرتے تھے۔ لہٰذا کاؤس جی عدالتی احکامات تو لے آیا کرتے تھے لیکن عدالت کے باہر وہی ہوتا جو ایم کیو ایم کے پراپرٹی ڈیلر رہنما چاہتے۔ اس زمانے کی ہزاروں کہانیاں کراچی کے موجودہ میئر وسیم اختر بھی سنا سکتے ہیں اور سابق ناظم مصطفیٰ کمال بھی کہ دونوں ایسی متعدد کہانیوں کے عینی شاہد ہیں ۔ پھر دو ہزار آٹھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت بنی تو اس وقت تک کاؤس جی زندگی کی سرحد تک پہنچ چکے تھے۔ ان کے بعد شہر میں کوئی ایسا نہیں رہا جو عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتا یا اخبار میں شور مچاتا۔ پھر ان دونوں جماعتوں نے مل کر شہر کو جس طرح برباد کیا ہے یقین مانیے کوئی دشمن بھی نہیں کرے گا، اس لیے ان سے یہ توقع رکھنا کہ شہر کے لیے کچھ کر پائیں گی، عبث ہے۔ انہی لوگوں نے صوبے میں تعلیمی نظام برباد کیا، پھر اسی نظام سے نکلے ہوئے نالائقوں کو ریاستی نظام کا حصہ بنایا اب وہی لوگ بڑے بڑے عہدوں پر براجمان ہو کر باقی رہ جانے والی ہر چیز کو برباد کرتے چلے جا رہے ہیں۔ بلدیہ کراچی ہو یا واٹر اینڈ سیوریج بورڈ، کے ڈی اے ہو یا سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، شہر سے جڑا ہر ادارہ ہمارے عروس البلاد کی عصمت دری میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہا۔ کراچی کو ٹھیک کرنا ہے تو اس کے لیے بیک وقت وفاقی حکومت، عدلیہ اور فوج کو حرکت میں آنا ہو گا۔ اگر کوئی پیپلز پارٹی یا ایم کیو ایم کے ذریعے کراچی کو ٹھیک کرنا چاہتا ہے تو کرتا رہے، ہو سکتا ہے ہزار دو ہزار سال میں یہ جماعتیں کچھ کرنے کے قابل ہو جائیں۔ ہماری زندگی میں تو ان سے کچھ نہیں ہونے والا۔