پاکستان میں طویل عرصے سے بڑے چھوٹے تنازعات کے سبب قتل وغارت گری کا سلسلہ جاری وساری ہے۔ آئے روز میڈیا اور اخبارات کے ذریعے کسی نہ کسی مقام پر خونِ ناحق کی اطلاعات موصول ہوتی رہتی ہیں‘ لیکن بعض واقعات ایسے ہوتے ہیں‘ جن کی معلومات انسان کو اخبارات کے ذریعے نہیں ‘بلکہ براہِ راست حاصل ہوتی ہے۔ ایسے واقعات انسان کے اذہان وقلوب پر بہت گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ برادر اصغر حافظ ہشام الٰہی ظہیر دینی اور دنیاوی علوم کے اعتبار سے ایک ممتاز شخصیت ہیں۔ چند برس قبل انہوں نے لارنس روڈ کے بعد مرکز قرآن وسنہ لارنس روڈ کے نام سے ہی ایک نئے مرکز کی بنیاد ڈالی۔ خطابت اور علم کی نشرواشاعت کے حوالے سے پائی جانے والی مفید صلاحیتوں کے سبب جلد ہی ان کا قائم کردہ مرکز علاقے کی توجہات کا مرکز بن گیا اور گردونواح سے لوگوں کی بڑی تعداد اس مرکز سے وابستہ ہو گئی۔ اس مرکز کے ساتھ وابستہ نمازیوں میں اسحاق صاحب اور ان کے گھر والے بھی شامل تھے ‘جو ایک عرصے سے اس مرکز میں نمازوں کو ادا کررہے تھے۔
8مارچ کی رات برادر ہشام الٰہی ظہیر میرے گھر میں موجود تھے کہ ان کے موبائل فون کی گھنٹی بجی۔ کال سننے کے دوران برادر حافظ ہشام الٰہی ظہیر گہری تشویش میں مبتلا ہو گئے اورا نہوں نے فی الفور مجھ سے جانے کی اجازت چاہی میں نے اس کا سبب پوچھا تو انہوں بتلایا کہ اسحاق صاحب کے گھر میں گھس کران کے جواں سال بیٹے ابو ذر اور دو بیٹیوں کو قتل کر دیا گیا ہے‘ جبکہ جوان بیٹا عروہ اس حملے میں شدید زخمی ہو چکا ہے۔ ان کی اہلیہ اور ایک چھوٹی بچی اس حملے میں بال بال بچ گئے اور پورا خاندان بہت بڑے صدمے سے دوچار ہو گیا۔ مظلومین کی نمازِ جنازہ ان کے آبائی علاقے بیگم کوٹ میں پڑھائی گئی‘ جس میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی اور اس موقع پر ہر آنکھ اشکبار تھی۔
اس سانحے نے جہاں میرے جذبات کی دنیا میں تلاطم پیدا کر دیا‘ وہیں پر اس بات کی بھی ضرورت محسوس ہوئی کہ خون ِناحق کے حوالے سے اسلام کی آفاقی تعلیمات اور اس کے ساتھ ساتھ ریاست کی ذمہ داریوں کے حوالے سے دین کے بیانیے کو قارئین کے سامنے رکھا جائے۔ اس حوالے سے چند اہم گزارشات درج ذیل ہیں:۔
اس حوالے سے پہلی بات جو خصوصی اہمیت کی حامل ہے ‘وہ یہ ہے کہ بحیثیت ِمسلمان ہمیں خون ناحق کے بارے میں کتاب وسنت کے موقف کو اچھی طرح سمجھنا چاہیے کہ کسی بھی صورت میں قتل ِناحق کی اسلام میں کوئی گنجائش موجود نہیں؛ چنانچہ سورۂ مائدہ کی آیت نمبر 32میں ارشاد ہوا: ''جس نے قتل کیا کسی جان کو بغیر کسی جان (قصاص) کے یازمین میں فساد مچانے کے تو گویا کہ اس نے قتل کیا تمام لوگوں کو اور جس نے (کسی ناحق قتل سے بچا کر) زندگی دی اُسے تو گویا کہ اس نے زندگی دی تمام لوگوں کو ۔‘‘ اس کے ساتھ ساتھ مسلمان کے خون ِناحق کے بارے میں سورہ ٔنساء کی آیت نمبر 93میں ارشاد ہوا: ''اور جو قتل کر ڈالے کسی مومن کو جان بوجھ کر تو اُس کی سزا جہنم ہے ‘ہمیشہ رہے گا ‘اُس میں اور غضب کیا اللہ نے اُس پر اور لعنت کی اُس پر اور تیارکر رکھا ہے‘ اُس کے لیے بڑا عذاب۔‘‘قرآن مجید کی تعلیمات کے ساتھ ساتھ احادیث ِمبارکہ میں بھی خون ِناحق کی شدید انداز میں مذمت کی گئی ہے۔ اس حوالے سے جامع ترمذی کی اہم حدیث درج ذیل ہے:۔
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کا زوال اور اس کی بربادی کسی مسلمان کو (ناحق) قتل کرنے سے زیادہ حقیر اور آسان ہے۔‘‘
قرآن ِمجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں کے تنازع کا بھی ذکر کیا‘ جن میں سے ایک بھائی نے دوسرے بھائی کو فقط حسد کی وجہ سے قتل کر ڈالا۔ اس واقعہ کی تفصیل قرآن مجید میں کچھ یوں بیان کی گئی ہے : ''اور پڑھ کر سنائیے ان کو آدم کے دو بیٹوں کی خبر حق کے ساتھ ‘ جب دونوں نے قربانی پیش کی تو قبول کر لی گئی ‘ان دونوں میں سے ایک کی (قربانی)۔ اور نہ قبول کی گئی دوسرے سے (تو) اس نے کہا: میں ضرور بضرور قتل کردوں گا تمہیں ۔ کہا: بے شک قبول کرتا ہے‘ اللہ تعالیٰ متقین سے؛ البتہ اگر تو نے بڑھایا میری طرف اپنا ہاتھ‘ تاکہ تو مجھے قتل کرے (توـ) میں نہیں بڑھانے والا اپنا ہاتھ تیری طرف‘ تاکہ میں قتل کروں‘ تجھے بے شک میں اللہ سے ڈرتا ہوں (جو) تمام جہانوں کا رب ہے۔ بے شک میں چاہتا ہوں کہ تو سمیٹ لے میرے گناہ کو اور اپنے گناہ کو پس تو ہو جائے ‘اہل ِدوزخ میں سے اوریہی بدلہ ہے ظالموں کا۔ پس‘ آمادہ کیا اس کو اس کے نفس نے اپنی بھائی کے قتل پر تو اس نے قتل کر دیا اسے پس ہو گیا‘ خسارہ پانے والوں میں سے۔ پس‘ بھیجا اللہ نے ایک کوا (جو) زمین کریدنے لگا ‘تاکہ وہ دکھائے اسے کہ کیسے وہ چھپائے اپنے بھائی کی لاش کو کہنے لگا افسوس !کیا (اتنا) میں عاجز ہو گیا کہ میں ہو جاتا اس کوے جیسا ۔پس ‘میں چھپا لیتا اپنے بھائی کی لاش ۔پس ‘وہ ہو گیا شرمندہ ہونے والوں میں سے۔‘‘ اللہ تبارک وتعالیٰ کو یہ خون ِ نا حق کتنا ناپسند آیا؟ اس کا اندازہ صحیح بخاری میں مذکور ایک روایت سے لگایا جا سکتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''جو شخص بھی ظلم کے ساتھ قتل کیا جائے گا‘ اس کے ( گناہ کا ) ایک حصہ آدم علیہ السلام کے پہلے بیٹے ( قابیل ) پر بھی پڑے گا‘‘۔
خون ِناحق کے ازالے کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن ِمجید میں قانون قصاص کو بیان کیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ بقرہ کی آیت نمبر 178میں ارشادفرماتے ہیں: ''اے وہ لوگو !جوا یمان لائے ہو‘ فرض کر دیا گیا ہے‘ تم پر قصاص لینا مقتولین ( کے بارے ) میں آزاد (قاتل ) کے بدلے آزاد (ہی قتل ہو گا) اور غلام (قاتل) کے بدلے غلام (ہی قتل ہوگا)اور عورت کے بدلے عورت (ہی قتل کی جائے گی) پس‘ جو (کہـ) معاف کر دیا جائے اس کو اپنے بھائی کی طرف سے کچھ بھی تو (لازم ہے اس پر) پیروی کرنا دستور کے مطابق اور ادائیگی کرے اس کو اچھے طریقے سے۔ یہ (دیت کی ادائیگی) تخفیف ہے تمہارے رب کی طرف سے اور رحمت ہے ۔پس‘ جو زیادتی کرے‘ اس کے بعد (بھی ) تو اس کے لیے دردناک عذاب ہے۔‘‘نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں قانون ِقصاص کے نفاذ کی وجہ سے معاشرے میں ناحق قتل کاخاتمہ ہو گیا تھا۔
صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ مدینہ منورہ میں ایک لڑکی چاندی کے زیور پہنے باہر نکلی۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر اسے ایک یہودی نے پتھر سے مار دیا۔ جب اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا ‘تو ابھی اس میں جان باقی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تمہیں فلاں نے مارا ہے؟ اس پر لڑکی نے اپنا سر ( انکار کے لیے ) اٹھایا‘ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تمہیں فلاں نے مارا ہے؟ لڑکی نے اس پر بھی اٹھایا۔ تیسری مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:فلاں نے تمہیں مارا ہے؟ اس پر لڑکی نے اپنا سر نیچے کی طرف جھکا لیا ( اقرار کرتے ہوئے جھکا لیا ) چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو بلایا‘ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو پتھروں سے کچل کر اسے قتل کرایا۔
کتاب وسنت میں مذکور ان احکامات اور واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ خونِ ناحق میں ملوث ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے‘ لیکن یہ امر انتہائی افسوس ناک ہے کہ پاکستان میں ایک عرصے سے قتل وغارت گری کاسلسلہ جاری وساری ہے‘ لیکن اس حوالے سے حکومت ‘ پولیس اور اس سے متعلقہ ادارے اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طرح نبھانے سے قاصر ہیں۔ اس مسئلے کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے حکومت اور پولیس کو ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا چاہیے اورحکومت کو اس حوالے سے پولیس کوسیاسی اثرورسوخ سے آزاد کرواکے اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طریقے سے ادا کرنے کا مینڈیٹ تفویض کرنا چاہیے‘اگر پولیس کو سیاسی اور سماجی اثر ورسوخ سے آزاد کروا کے پیشہ وارانہ ذمہ داریاں تفویض کردی جائیں‘ تو خون ِناحق کا تدارک کے امکانات پیدا ہو سکتے ہے ‘بصورت ِدیگر معاملات بہتری کی طرف نہیں جا سکتے۔ حکومت اور پالیسی ساز اداروں کو خون ِناحق کا سلسلہ روکنے کے لیے سنجیدگی سے غوروفکر کرنا چاہیے اور اس حوالے سے سعودی عرب اور برطانیہ کے طرزِ حکمرانی سے استفادہ کرنا چاہیے‘ تاکہ ریاست میں صحیح معنوں میں عوام کے جان ‘ مال اور عزت کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔