اچھی خاصی زندگی کو خرابیوں سے دوچار کرنے والی عادتیں بہت سی ہیں۔ لوگ بالعموم ایسی عادتوں پر زیادہ نظر رکھتے ہیں‘ جنہیں پالنے یا اپنانے کی صورت میں جسم زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ نشہ کرنے والوں کو بُری نظر سے دیکھا جاتا ہے‘ کیونکہ اُن کی اس عادت کا نتیجہ فوری طور پر ظاہر ہو جاتا ہے۔ وہ تمام عادتیں بہت دیر سے سمجھ میں آتی ہیں جو ذہن و دل اور روح کو گھائل کرتی ہوں‘ وجود ہی کا توازن بگاڑ دیتی ہوں۔
ڈھنگ سے جینا کسی بھی انسان کے لیے کبھی پہلے مشکل تھا نہ آج ہے۔ بالکل سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ ہم خاصے بے ڈھنگے عہد میں جی رہے ہیں۔ فکر اور عمل کی سطح پر ہر طرف انتشار ہی انتشار دکھائی دے رہا ہے۔ لوگ سوچے اور سمجھے بغیر جیے جارہے ہیں۔ ایسا ہر دور میں ہوا ہے۔ اب‘ معاملہ کچھ زیادہ واضح ہوگیا ہے‘ اس لیے محسوس بھی زیادہ ہونے لگا ہے۔ اگر کوئی ڈھنگ سے جینا چاہے تو کیا ایسا کرنا ممکن ہے؟ یہ سوال بہت اہم ہے ‘کیونکہ اس ایک سوال کا جواب تلاش کرتے کرتے عمر بیت جاتی ہے۔
بات کچھ یوں ہے کہ زندگی ہم سے قدم قدم پر فیصلے مانگتی ہے‘ اگر فیصلے درست اور بروقت ہوں تو ٹھیک ورنہ خرابیاں بڑھتی جاتی ہیں۔ سارا کھیل فیصلوں کا ہے۔ بہت سوں کا یہ حال ہے کہ محض انکار کو زندگی کا ''اٹوٹ انگ‘‘ بنائے ہوئے ہیں۔ انکار بھی زندگی کے لیے لازم ہے‘ مگر اُس کا اثر اقرار لیے ہوئے ہونا چاہیے۔ جی ہاں‘ وہی انکار ہمارے لیے کام کا ہے ‘جس کے نتیجے میں کوئی اقرار پیدا ہو۔
عالم یہ ہے کہ لوگ زندگی بھر ''انکاری قبیلے‘‘ کی آنکھ کا تارا بنے رہتے ہیں۔ بات بات پر انکار اور یہی نہیں‘ بلکہ اقرار سے مکمل گریز۔ اگر ایسا ہو تو بات کیوں اور کیونکر بنے؟ جن کے مزاج میں انکار رچ بس گیا ہو وہ ممکنہ نتائج کی پروا کیے بغیر بات بات پر انکار کیے جاتے ہیں۔ اُن کے نزدیک محض انکار کردینے سے معاملات درست ہو جاتے ہیں اور کوئی پریشانی باقی نہیں رہتی۔
یہ سوچ سراسر بے بنیاد ہے۔ بے عقلی کی بنیاد پر اپنائے جانے والے انکار سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا‘ بلکہ جو ہوتا ہے‘ وہ بھی جاتا رہتا ہے۔ آج کی دنیا میں وہ انکار کام کا ہے‘ جس کی بنیاد اقرار پر ہو۔ نشے سے انکار کا مطلب یہ ہونا چاہیے کہ صحت کا معاملہ اقرار چاہتا ہے۔ جب ہم کسی معاملے میں انکار کرتے ہیں تو محض انکار کی منزل میں ٹھہر جانا کسی کام کا نہیں ہوتا۔ اس سے ایک قدم آگے جاکر اقرار کی منزل میں بھی قدم رکھنا پڑتا ہے۔ کسی بُری عادت کا پروان نہ چڑھایا جانا ‘اُسی وقت کارگر ثابت ہوسکتا ہے ‘جب کسی اچھی عادت کو پروان چڑھایا جائے۔ محض ''نیوٹرل‘‘ رہنے سے بات نہیں بنتی۔
انکاری‘‘ قبیلے سے ہونا کسی بھی درجے میں اطمینان بخش اور مسرّت آگیں نہیں۔ بالکل یہی معاملہ اقرار کا بھی تو ہے۔ بہت سوں کی حالت یہ ہے کہ بات بات پر اقرار کو زندگی کا جُز بنائے رہتے ہیں۔ اُن کی پوری زندگی‘ یعنی پورا وجود دوسروں کے لیے ہوتا ہے‘ مگر نِری بے ذہنی کے ساتھ۔ کسی کو ضرورت ہو یا نہ ہو‘ یہ خدمات پیش کرتے رہنے کو زندگی کا بنیادی مقصد اور فریضہ گردانتے ہیں۔ ''حاضر جناب‘‘ والی ذہنیت ایسے لوگوں میں اِس حد تک پنپ چکی ہوتی ہے کہ کوئی لاکھ سمجھائے ‘مگر یہ باز نہیں آتے اور بات بے بات اپنے وجود کو دوسروں کے لیے یوں کھپانے پر تُلے رہتے ہیں کہ دوسرں کو کچھ مل پاتا ہے‘ نہ ان کے ہاتھ ہی کچھ لگتا ہے۔
اپنے ماحول کو غور سے دیکھیے تو آپ کو ایسے بہت لوگ مل جائیں گے ‘جن کے ذہن نے سوچنے کی عادت کم و بیش ترک کردی ہے اور ادراک‘ یعنی تفہیم کا معاملہ بھی ڈانواں ڈول ہے۔ یہ لوگ معاملات کو سمجھنے کی کوشش کیے بغیر اپنے پورے وجود کے ساتھ دوسروں کی ''سیوا‘‘ میں جُتے رہتے ہیں۔
ایسا کیوں ہے؟ یہ سوال ہر اُس انسان کے لیے بہت اہم ہے جو اپنے آپ کو‘ اپنے بنیادی حلقے ‘یعنی اہلِ خانہ اور رشتہ داروں کو نظر انداز کرکے ایک دنیا کی خدمت پر کمر بستہ‘ بلکہ بضد رہتا ہے۔ یہ سب کچھ بہت خوش کن دکھائی دیتا ہے۔ جو لوگ دوسروں کی مدد پر ہمیشہ آمادہ رہتے ہیں‘ اُنہیں قدر کی نگاہ سے دیکھنے والوں کی کمی نہیں ہوتی۔ کبھی کبھی یہ قدر افزائی ہی انسان کو دوسروں کی مدد پر آمادہ رہنے کی تحریک دیتی رہتی ہے۔
زندگی ہر معاملے میں توازن کی متقاضی ہے۔ جو لوگ توازن کھو بیٹھتے ہیں‘ وہ حقیقی سکون سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔ یہ بالکل فطری امر ہے۔ ہم پر ہمارے وجود کا بھی حق ہے اور بہت حد تک ہے۔ ولیم پرسی نے اپنی کتاب ''لاسٹ اِن دی کاسموس‘‘ میں اِس مسئلے پر خاصی شرح و بسط سے بحث کی ہے۔ اُن کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ہم عمر بھر دوسروں کے معاملات میں گم رہتے ہیں اور اپنے وجود کو نظر انداز کرتے رہتے ہیں۔ اِس کے نتیجے میں صرف عدم توازن اور خرابیوں کی راہ ہموار ہوتی ہے۔
کسی کی مدد کرنا‘ کسی کے کام آنا بہت اچھی بات ہے۔ یہ ایسی عادت ہے ‘جسے پروان چڑھانے کے ساتھ ساتھ دوسروں میں اسے پاکر اُن کا احترام بھی کیا جانا چاہیے ‘مگر معاملہ یہیں پر ختم نہیں ہو جاتا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں دوسروں کے ساتھ ساتھ اپنا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ ہمارے خالق و رب نے ہم پر خود ہمارے اپنے وجود کے حوالے سے بھی چند ایک ذمہ داریوں کا بوجھ ڈالا ہے اور یہ بوجھ ہمیں ہنستے ہنستے اٹھانا چاہیے۔
زمانہ بہت بُرا سہی ‘مگر اس میں دوسروں کے کام آنے والے کم نہیں۔ مشکل صرف یہ ہے کہ جو دوسروں کے کام آتا ہو اُسے گھیر کر لوگ کہیں کا رہنے نہیں دیتے۔ دوسروں کے کام آنے والوں کو کسی نہ کسی طریقے سے حصار میں لے کر لوگ اُس مقام پر پہنچا دیتے ہیں ‘جہاں وہ اپنے لیے بھی کام کے نہیں رہتے۔
ہر معاملے میں توازن زندگی کا بنیادی تقاضا ہے۔ بات بات پر ''حاضر جناب‘‘ والی ذہنیت کا مظاہرہ انسان کو غیر متوازن کردیتا ہے۔ جو دوسروں کے کام آنے پر غیر معمولی حد تک یقین رکھتا ہے ‘اُسے سب سے پہلے اپنے وجود پر خاطر خواہ توجہ مرکوز کرنی چاہیے ‘تاکہ زیادہ سے زیادہ مضبوط اور متوازن رہتے ہوئے دوسروں کی مدد کرسکے۔ ایسا نہ ہو کہ ؎
سب کا تو گریباں سی ڈالا اپنا ہی گریباں بھول گئے
سب کا تو مداوا کر ڈالا اپنا ہی مداوا کر نہ سکے
کسی بھی ماحول میں جب لوگ کسی کے بارے میں یہ محسوس کرلیتے ہیں کہ وہ ''حاضر جناب‘‘ والی ذہنی ساخت کا حامل ہے تو بلا ضرورت بھی اُس کی خدمات کے حصول سے چُوکتے اور شرماتے نہیں۔ کسی کی مدد صرف اُس کی جانی چاہیے‘ جب وہ واقعی ضرورت مند ہو۔ جب کوئی اپنے وجود پر ''حاضر جناب‘‘ کا لیبل لگا لیتا ہے ‘تب لوگ کسی ضرورت یا جواز کے بغیر بھی اُن سے مستفید ہونے کی ذہنیت پر عمل کرنے لگتے ہیں۔
ہر انسان پر پہلا حق اُس کے اپنے وجود کا ہے۔ یہ نکتہ کوئی آئن سٹائن کا نظریہ نہیں کہ سمجھنے کے لیے زیادہ دماغ پاشی کرنا پڑے۔ اپنی حق تلفی سے گریز ہی پنپنے کا بہترین طریقہ ہے۔ آپ کو بھی اس اصول سے استثناء نہیں دیا جاسکتا۔ اگر قابلِ ذکر انداز سے جینا ہے تو غیر ضروری طور پر اپنائی گئی ''حاضر جناب‘‘ والی ذہنیت کا ترک کیا جانا لازم ٹھہرا۔ ع
اپنی ذات سے عشق ہے سچا‘ باقی سب افسانے ہیں!