تحریر : عمران یعقوب خان تاریخ اشاعت     12-03-2020

گاندھی کے بھارت پر ہٹلر کا قبضہ!

بھارتی ریاست کرناٹک کا ایک بزرگ شہری‘ جس کی عمر 102 سال ہے اور جسے اس سال کے آغاز تک بھارت بالخصوص کرناٹک میں تحریک آزادی کے کارکن کی حیثیت سے بہت عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا رہا‘ ان دنوں عجیب سی پریشانی کا شکار ہے، جس ملک کی آزادی کے لیے اس نے جیل بھی کاٹی اب اسی ملک میں اسے حکمران جماعت کے رہنما پاکستان کا ایجنٹ کہتے ہیں اور تحریک آزادی میں اس کی سرگرمیوں کا ثبوت مانگتے ہیں۔ گاندھی کے اس پیروکار کا نام ہے ایچ ایس ڈورے سوامی۔ 
ایچ ایس ڈورے سوامی ان دنوں اپنا ایک سی وی بنانے میں لگا ہے جس میں وہ اپنی زندگی، جدوجہدِ آزادی کے ساتھ وابستگی کے علاوہ آزاد ہندوستان میں اپنی سیاسی و سماجی سرگرمیوں کی فہرست بنا رہا ہے۔ اس فہرست کے لیے اس نے اپنی زندگی کے اہم اوراق کھول رکھے ہیں اورفہرست بنانے کے بعد وہ چاہتا ہے کہ لوگ اس کا بغور جائزہ لیں اوربتائیں کہ اس کی ساٹھ سالہ عملی جدوجہد میں کب، کہاں اورکس موقع پر اس نے بھارت کے خلاف کوئی کام کیا؟۔
ایک اور منظر ہے بھارتی ریاست اترپردیش کے تاریخی شہر لکھنؤ کا، یہاں سڑکوں پر بڑے بڑے ہورڈنگز لگے ہیں جن پر کئی مرد و خواتین کی تصویریں ہیں۔ بظاہر لگتا ہے کہ یہ بڑے سیاسی لیڈر ہیں اور عوام نے ان کے ہورڈنگز لگوا رکھے ہیں لیکن ٹھہریئے ابھی کوئی نتیجہ اخذ نہ کیجئے۔ ان ہورڈنگز پر تصویروں کے ساتھ کچھ لکھا ہے اسے بھی پڑھ لیں۔ یہ ان لوگوں کا تعارف ہے، پہلے آپ کو ان کے نام بتاتے ہیں، ایک تصویر ہے سماجی کارکن اور رہنما صدف جعفری کی، دوسری تصویر ہے ایک وکیل رہنما شعیب کی، ان کے ساتھ نظر آ رہے ہیں تھیٹر پر کام کرنے والے آرٹسٹ دیپک کبیر، ایک اور تصویر ہے انڈین پولیس سروس کے سابق افسر ایس آر داراپوری کی۔ اور بھی بہت سے تصویریں ہیں، نام جاننے کے بعد مذہب کا بھی اندازہ ہو گیا ہوگا۔ ان تصویروں کے ساتھ لکھا ہے: یہ لوگ شہریت قانون کے خلاف احتجاج میں شامل تھے اور اس احتجاج کے دوران سرکاری اور عوامی املاک کو نقصان پہنچا۔ ان لوگوں کو نوٹس بھجوائے گئے ہیں۔ ان کے رہائشی پتے بھی ساتھ درج ہیں، ایک دھمکی بھی لکھی ہے کہ اگر ان لوگوں نے جرمانے نہ بھرے تو ان کی املاک ضبط کر لی جائیں گی۔
ایک منظر ہے بھارت کے دارالحکومت دہلی کے علاقے مصطفیٰ آباد کے ایک گھر کا، جس میں ایک بوڑھی غریب ماں نور جہاں اپنے ایک بیٹے کو یاد کرکے رو رہی ہے۔ بیٹا جمیل‘ 25 فروری کو ماں سے ملنے اجمیر سے دلی آیا تھا۔ ماں سے مل کر نماز پڑھنے مسجد گیا پھر واپس نہیں آیا۔ اس دن دلی میں ہر مسلم آبادی میں آگ لگی تھی۔ بلوائی دندناتے پھر رہے تھے۔ جہاں کہیں مسلمانوں کی دکان اور گھر نظر آتا جلا دیتے۔ جو مسلمان ہتھے چڑھتا مار دیتے۔ جمیل کے ساتھ کیا بیتی کسی کو کچھ پتہ نہیں۔ بھائی اور رشتے دار ہسپتالوں کے چکر لگا آئے کہ کہیں زخمی ہوا تو مل جائے گا، مارا گیا تو لاش ہی مل جائے گی لیکن کچھ اتا پتا نہیں۔ نور جہاں اس دن کو کوستی ہے جب اس نے بیٹے کو یہ کہہ کر روک لیا تھا کہ چار دن رک جاؤ، روز روز کب آتے ہو، تمہارے بچوں کے لئے کچھ کپڑے وغیرہ خرید لوں، لے کر چلے جانا۔ 
کرناٹک کے 102 سالہ ایچ ایس ڈورے سوامی، لکھنؤ کی صدف جعفری، وکیل شعیب، اداکار دیپک کبیر، ریٹائرڈ پولیس افسر داراسوامی اور دلی کے اس خاندان کی کہانیوں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں لیکن ان سب کا قصور شہریت قانون کے خلاف بھارت میں ہونے والا احتجاج ہے۔ اس احتجاج کی پاداش میں سب غدار قرار پائے۔ ایک مار دیا گیا باقی سب کی زندگی کو خطرہ ہے۔ ان سب کا مذہب بھی ایک نہیں لیکن یہ سب ایک جیسے ہی غدار ہیں اور انہیں غدار قرار دینے والے بی جے پی کے حکمران ہیں۔ 
یہ سب ایک دن میں نہیں ہوا۔ نفرت اور دشمنی کی یہ آگ آر ایس ایس نے برسوں سے بھڑکا رکھی ہے۔ کبھی گجرات میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھلی گئی۔ کبھی بابری مسجد کو بنیاد بنا کر پورے بھارت کے مسلمانوں کو نشانے پر رکھا گیا اور کبھی حیدر آباد کی مکہ مسجد میں دھماکے کرائے گئے۔ بھارت میں لایا گیا نیا شہریت قانون وزیر اعظم مودی اور وزیر داخلہ امت شا کے دماغ کا فتور سمجھا جاتا ہے لیکن دراصل یہ بھی آر ایس ایس کے نظریات کی تکمیل ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی جداگانہ حیثیت کا خاتمہ اور کشمیری عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم کے پیچھے بھی آر ایس ایس کی سوچ ہے۔
آر ایس ایس کے ایجنڈے کو سمجھنے کے لیے بھارتی صحافی نیلانجن مکھو پادھیائے کی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب ''آر ایس ایس: آئیکونز اینڈ دی انڈین رائٹ‘‘ بہت مددگار ہے۔ مصنف نے آر ایس ایس کے بانیوں کیشو بلی رام ہیڈ گیوار، وی ڈی ساورکر، ایم ایس گولوالکر، شیاما پرساد مکھرجی، دین دیال اپادھیائے، بالا صاحب دیورس، وجئے راجے سندھیا، اٹل بہاری واجپائی، لال کرشن ایڈوانی، اشوک سنگھل اور بال ٹھاکرے کے نظریات دیئے گئے ہیں۔
آر ایس ایس کے بانی کیشو بلی رام ہیڈ گیوار نے ''گھر واپسی‘‘ کے نام سے تحریک چلائی تھی جو بھارت کے تمام شہریوں کو ہندو بنانے کی تحریک تھی۔ کیشو بلی ہیڈ گیوار کا نظریہ تھا کہ ہندوستان میں رہنے والے سب ہی ہندو ہیں اور جو اس دھرم سے ہٹ گئے ہیں انہیں واپس لایا جائے۔ آر ایس ایس کے ایک اور لیڈر وی ڈی ساورکر کا کہنا تھا کہ قومیت اور شہریت کو صرف شہری ہونے کی نہیں، بلکہ مذہبی شناخت پر طے کیا جا سکتا ہے۔ گولوالکر نے تقسیم کے بعد بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں کو بچے کھچے قرار دیا تھا اور دونوں ملکوں کے درمیان مسلم اور ہندو آبادی کے تبادلے کا منصوبہ دیا تھا تاکہ جو بچے کھچے بھارت میں رہ گئے ہیں انہیں پاکستان بھیجا جا سکے۔ اس کا کہنا تھا کہ ''اب جب انہیں اپنے دیرینہ خواب کی تعبیر مل گئی ہے، ان مسلمانوں کو جو ''ہندو استھان‘‘ میں رہتے ہیں یہاں سے نکال باہر کرنا چاہئے، کیونکہ اگر وہ رہے تو غداری، تخریب کاری اور ملک دشمنی کریں گے۔
آج جب بھارت میں ''گولی مارو غداروں کو‘‘ کے نعرے لگا کر مسلمانوں کے گھر جلائے جاتے ہیں‘ مسلمانوں کو بچانے کی کوشش کرنے والے ہندوؤں کو غدار قرار دیا جاتا ہے تو حیرت کی کوئی بات نہیں۔ بھارت میں متنازع قانون کی بنیاد اور ریاست آسام میں لاکھوں مسلمانوں کی شہریت چھیننے کا منصوبہ آر ایس ایس کے تیسرے سربراہ بالا صاحب دیورس نے دیا تھا۔ بالاصاحب دیورس نے کہا تھا: مہاجر اور گھس بیٹھئے میں فرق ہے، بنگلہ دیش سے آنے والے ہندو ''مہاجر ہیں جو مسلمان حکومت کے ستائے ہوئے ہیں جبکہ بنگلہ دیش سے آنے والے مسلمان گھس بیٹھئے ہیں انہیں روکا جائے‘ ورنہ آسام میں ہندو آبادی اقلیت بن جائے گی۔ آج مودی حکومت آسام کے لاکھوں مسلمانوں کو غیرملکی قرار دے کرجیلوں میں ڈالنے کی تیاری کر رہی ہے تو یہ آر ایس ایس کے تیسرے سربراہ کے نظریہ پر عمل درآمد ہے۔
مودی کو ہندو قوم پرستی کے نام پر ایک مضبوط حکمران بنانا اور بھارت کو ہندو راشٹر میں ڈھالنا بھی آر ایس ایس کا ایجنڈا ہے۔ آر ایس ایس کا پرانا نظریہ ہے کہ ہندوؤں کو منظم کرنے کی کوشش اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک ہندوؤں کا مسولینی یا ہٹلر جیسا ہندو ڈکٹیٹر نہ ہو۔ آج اگر مودی نے بھارتی آئین سے آرٹیکل 370 نکال کر پھینک دیا ہے اور کشمیر کی جداگانہ حیثیت کا بظاہر خاتمہ کر دیا ہے تو یہ بھی آر ایس ایس کا برسوں پرانا ایجنڈا ہے۔ آر ایس ایس کے بانیوں میں شامل شیاما پرشاد مکھرجی آرٹیکل 370 کے خلاف تحریک چلاتے رہے۔ اسی تحریک کے لیے شیاما پرشاد مکھرجی مئی 1953 میں سرینگر پہنچے اور عبداللہ حکومت نے انہیں گرفتار کیا اور کشمیر کی جیل میں ہی دل کا دورہ پڑنے پر شیاما پرشاد مکھرجی کا دیہانت ہو گیا۔ آر ایس ایس آج بھی شیاما پرشاد مکھرجی کی موت کو قتل قرار دیتی ہے اور 5 اگست 2019 میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کو آر ایس ایس اور بی جے پی نے شیاما پرشاد مکھرجی کی جیت قرار دیا تھا۔ گاندھی کے بھارت میں مودی آج ہٹلر بن چکا ہے اور بھارت نازی جرمنی، بی جے پی اور آر ایس ایس ناصرف بھارت کی تباہی کے درپے ہیں بلکہ خطے کا امن بھی داؤ پر لگا دیا گیا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved