تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     13-03-2020

نئے صوبوں کا قیام اور وفاق کا استحکام

موضوع پر آنے والے سے قبل قومی ہیرو کو خراج ِعقیدت پیش کرنا چاہوں گا؛بدھ کی صبح‘ اسلام آباد میں پاک فضائیہ کے ایک ایف 16 طیارے کے حادثے کی اطلاعات موصول ہوئیں۔ابتدائی طور پر علاقے کاعلم نہ ہوسکا‘ مگر بعد میں صورتحال واضح ہوئی۔حادثہ شکر پڑیاں کے مقام پر پیش آیا‘جہاں یومِ پاکستان کی سالانہ پریڈ کی تیاریاں جاری تھیں۔ حادثے میں ونگ کمانڈر نعمان اکرم نے جام شہادت نوش کیا۔106ویں جی ڈی پائلٹ کورس سے پاس آؤٹ ہونے والے ونگ کمانڈر نعمان اکرم کا تعلق سرگودھا میں تعینات نائن سکوارڈن سے تھا۔ زندہ قوموں کا شیوہ رہا ہے کہ وہ اپنے ہیروز کو کبھی نظر انداز نہیں کرتیں اور ان کو نا صرف یاد رکھتی ہیں‘ بلکہ ان سے بھی سیکھتی ہیں اور پھر قومی تقاضوں کے پیش نظر ان کے چھوڑے ہوئے ورثے سے استفادہ بھی کرتی ہیں‘ مگر ہم وہ حرماں نصیب قوم ہیں‘ جو قومی ہیروز کووہ مقام نہیں دے پاتے ‘نہ ہی تزک و احتشام کے ساتھ ان کا دن منا پاتے ہیں۔ونگ کمانڈر کے پاس بہترین آپشن موجود تھا کہ وہ طیارے سے بروقت نکل کر اپنی جان بچا سکتا تھا‘مگر انہوں نے آخری دم تک طیارے کو سنبھالنے اور آبادی سے موڑ کرکسی بڑے سانحہ سے بچانے کی کوشش کی اور آخر کار جام ِ شہادت نوش فرما لیا۔
اب‘اصل موضوع کی طرف آتے ہیں؛ 1947 ء میں آزادی کے بعد بھارت اور پاکستان دو الگ الگ ملک بنے۔ بھارت نے عوامی مطالبات کی بنیاد پر نئے صوبے بنانے کا سلسلہ شروع کیا‘ جو تا حال جاری ہے۔ آزادی کے وقت یوپی (اتر پردیش) ہندوستان کا سب سے بڑا صوبہ ہوا کرتا تھا‘ جسے مزید صوبوں میں تقسیم کیا گیا‘ جس کے ساتھ تمام قیاس آرائیاں دم توڑ گئیں۔ بھارت کا وفاق کمزور ہونے کی بجائے مزید مضبوط ہوا ۔دوسری طرف سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اتنے صوبوں کے اضافے سے بھارت ٹوٹ گیا؟ یہ اس بھارت کی مثال ہے ‘جو رقبے میں ہم سے کئی گنا بڑا ہے اور جہاں 15 سے زیادہ مذاہب کے ماننے و ا لے (اقلیتیں) موجود ہیں۔ دنیا کے کم آبادی والے ممالک میں بھی صوبوں کی تعداد زیادہ ہے۔ ہمارے قریبی پڑوسی ملک افغانستان ‘جس کی آبادی 36ملین کے لگ بھگ ہے؛ 30 سے زائد صوبوں پر مشتمل ہے۔ قیام پاکستان کے وقت بھارت کے 14 صوبے تھے‘ جبکہ یہ تعداد بھی اب 34 سے تجاوز کرچکی ہے۔نئے صوبے کے قیام سے انتظامی مسائل کا تدارک ممکن ہے ۔ مقامی سیاست دانوں کو انتظام میں شراکت کے مواقع بھی میسر آتے ہیں ۔
پاکستان میں مختلف ادوار میں نئے صوبوں کے قیام کے حوالے سے آوازیں اٹھتی رہی ہیں‘مگر نجانے کیوں یہ آوازیں دب گئیں یا دبا دی گئیں ؟یہ الگ سوال ہے۔وطن ِعزیز کے چارصوبے اتنے بڑے ہیں کہ کسی بھی صوبے کے وزیراعلیٰ کے لیے اپنے پانچ سالہ دور اقتدار میں ایک مرتبہ بھی دورہ کرکے اپنے عوام کی اصل صورتحال سے واقفیت حاصل کرنا‘ ممکن نہیں۔گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت جنوبی پنجاب سے متعلق اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا ‘جس کے بعدوزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اعلان کیا کہ صوبہ جنوبی پنجاب سے متعلق جلد قومی اسمبلی میں بل پیش کیا جائے گا۔ جنوبی پنجاب صوبے کے لیے انتظامی سیکریٹریٹ بہاولپور میں بنانے کا کہا گیا۔یہ بات بھی واضح کی گئی کہ پارلیمنٹ میں کسی جماعت کے پاس دوتہائی اکثریت نہیں ۔ توقع کی گئی کہ جب یہ بل آئے گا‘ تو پیپلزپارٹی اس کی حمایت کرے گی۔ مسلم لیگ (ن) کے شہباز شریف کی جانب سے جنوبی پنجاب صوبے کی بات کو بھی دہرایا گیا۔ اس سے قطع نظر کہ نئے صوبے کا قیام عمل میں آتا ہے یا نہیں ؟بہرحال اس حوالے سے کچھ سنجیدہ پیش رفت ضرورہوئی ہے۔ ماضی میں وزیر خارجہ قریشی ‘جنوبی پنجاب صوبہ میں ملتان‘ بہاولپور اور ڈی جی خان ڈویژن شامل ہونے کے اشارے دیتے رہے ہیں‘جس سے کچھ تصویر واضح ہوئی کہ حکمران جماعت کے ذہن میں جنوبی پنجاب کے متعلق کیا چل رہا ہے ؟ وہ کن علاقوں کو اس میں شامل کرنا چاہتے ہیں‘مگر بعض حلقے ملتان‘ بہاولپور اور ڈی جی خان ڈویژنز کے ساتھ سرگودھا ڈویژنز کے دو اضلاع بھکر‘ میانوالی کو بھی جنوبی پنجاب صوبہ میں شامل کرنے کی تجویز دیتے رہے ہیں‘ اسی طرح فیصل آباد ڈویژن کے ضلع جھنگ کو الگ کر مجوزہ نئے صوبے میں شامل کرنے سے متعلق بھی رائے موجود ہے۔
تاہم کون کون سے ڈویژن جنوبی پنجاب میں شامل کیے جاتے ہیں؟ فی الوقت اس کا اعلان نہیں کیا گیا۔ پنجاب نو ڈویژنز (پنڈی‘ لاہور‘ فیصل آباد‘ گوجرانوالہ‘ سرگودھا‘ ساہیوال‘ ملتان‘ بہاولپور‘ ڈی جی خان)پر مشتمل ہے‘ کل چھتیس اضلاع پرمحیط ہے۔ اس وقت پنجاب کے پاس قومی اسمبلی کی کل272 نشستوں میں سے 141 نشستیں (51.88%) ہیں۔ جنوبی پنجاب اگر الگ ہوگیا تو پھر پنجاب کے پاس پچانوے نشستیں(34.95) بچیں گی‘اس طرح سے چھوٹے صوبوں کا یہ احساس محرومی تو بہرحال دور ہوگاکہ صرف پنجاب سے سوئپ کر کے مرکز میںحکومت بنائی جا سکتی ہے‘ کیونکہ پنجاب میں شمالی پنجاب (پنڈی ڈویژن 13نشستیں)کی سیاسی تقسیم بھی موجود ہے‘ جس کی سیاست ضروری نہیں کہ سنٹرل پنجاب ‘یعنی لاہور‘ گوجرانوالہ وغیرہ کی طرح چلے۔ نئے صوبے لسانی یا عصبی بنیادوں پر نہیں‘ بلکہ انتظامی بہتری کے لحاظ سے بننے چاہئیں۔ ملک و قوم کی بہتری اسی میں ہے‘ تاہم نئے صوبوں کا قیام اس اعتبار سے ہرگز نہیں ہونا چاہیے کہ جس سے وفاق کی حیثیت متاثر ہو۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved