تحریر : صابر شاکر تاریخ اشاعت     13-03-2020

دہلی میں مسلمانوں کا قتل عام اور مودی حکومت

خبریں بہت ہیں لیکن آج کا کالم بھارت میں ان مسلمانوں کے نام ہے جنہیں انتہا پسند ہندوؤں نے ریاستی دہشتگردی کے سائے میں قتل کر دیا‘ جن کی مسجدوں‘ املاک اور گھروں کو جلا دیا گیا۔ بھارتی حکومت کی ایک کمیٹی نے ابتدائی رپورٹ تیار کی اور اسے حکمرانوں کے حوالے کیا‘ جسے دبایا جا رہا ہے یہ تحقیقاتی رپورٹ قارئین دنیا کیلئے خاص طور پر پیش خدمت ہے‘ جو آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے کہ کس طرح مسلمانوں سے انتقام لیا جا رہا ہے۔
4 مارچ 2020‘ دہلی اقلیتی کمیشن کے ایک وفد نے شمالی مشرقی ضلع کے تشدد سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا۔ وفد میں کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفرالاسلام خان اور ممبر کرتار سنگھ کوچر شامل تھے۔ کمیشن نے سب سے پہلے علاقے کے اے سی پی اور ڈی سی پی سے ملاقات کی جنہوں نے امن و امان‘ لوگوں کو بچانے اور باز آبادکاری کے مسائل سے کمیشن کو آگاہ کیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ پولیس والوں نے گھرے ہوئے 350 مسلمانوں کو شیرپور سے بحفاظت نکالا‘ اس کے بعد پولیس افسران اور کمیشن کی مشاورتی اور امن کمیٹی کے کچھ ممبران کے ساتھ وفد نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا۔ اس دورے کے دوران کمیشن نے جو کچھ دیکھا اس کی تفصیلات حسب ذیل ہیں: ہر جگہ ہم نے پایا کہ مسلمانوں کے گھروں‘ دکانوں اور ورکشاپس کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ ہم نے پایا کہ دوشنبہ کو کچھ لوگ 24-25 فروری کے بعد پہلی بار اپنے تباہ شدہ گھروں اور دکانوں کو دیکھنے آئے تھے۔ گھروں اور دکانوں بلکہ سڑکوں پر بھی ملبہ پڑا ہوا تھا‘ اس لیے ان گھروں یا دکانوں کو دوبارہ آباد کرنے کا فی الحال کوئی سوال نہیں ہے۔ مزید برآں لوگوں کو اندیشہ ہے کہ گھروں اور دکانوں سے ملبہ ہٹانے اور مرمت کا کام شروع کرانے کی حالت میں ممکن ہے کہ سرکار سے ان کو معاوضہ ملنے میں دقت ہو۔ امبیڈکر کالج کے پاس ایک پارکنگ لاٹ میں ہم نے جلے ہوئے ٹھیلے اور ٹریکٹر دیکھے۔ موقع پر گارڈ نے ہم کو بتایا کہ وہاں 100 ٹھیلے اور 11 ٹریکٹر جلائے گئے۔ پاس میں کھڑی ہوئی ایک سکول بس کو بھی بہت نقصان پہنچایا گیا۔ حملہ آوروں نے جلانے سے قبل گاڑیوں کی قیمتی اشیا جیسے بیٹریاں نکال لیں۔ یمنا وہار میں ہم نے پایا کہ سڑک کے ایک طرف ہندوؤں کی دکانیں اور مکانات ہیں اور سڑک کے دوسری طرف مسلمانوں کی دکانیں اور مکانات ہیں اور دونوں طرف آگ لگی ہوئی ہے اور لوٹ مار ہوئی ہے۔ یہاں ایک جلے ہوئے پٹرول پمپ کے مالک مہندر اگروال نے ہم کو بتایا کہ اس کے پٹرول پمپ پر 30 گاڑیاں جلائی گئیں۔ بھجن پورہ میں ہم نے پایا کہ مسلمانوں کی ٹریول ایجنسی اور موٹر سائیکل کی دکان‘ دونوں لوٹ کر جلا دی گئی تھیں جبکہ ہندوؤں کی دکانیں پوری طرح محفوظ تھیں۔ کھجوری خاص کے ای بلاک میں ہم نے پایا کہ صرف مسلمانوں کی دکانیں جلی ہیں۔ ایک پولیس افسر نے ہم کو بتایا کہ اس جگہ سے مقامی ڈی سی پی نے 350 مسلمانوں کو بچایا۔ کھجوری خاص کی گلی نمبر 5 میں مقامی لوگوں نے ہم کو بتایا کہ 23 فروری کی رات ہی کپل مشرا کے بیان اور دھمکی کے فوراً بعد فساد شروع ہو گیا تھا۔ یہ گلی آگے سے بند ہے۔ یہاں ایک سو مسلمان رہتے تھے اور وہ سامنے کی سڑک سے باہر نہیں جا سکتے تھے۔ یہ لوگ 25 فروری کی صبح پولیس کی حفاظت میں اپنے علاقوں سے نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ اس گلی میں بی ایس ایف جوان محمد انیس کا مکان بھی ہم نے دیکھا جو بری طرح سے جلایا گیا تھا۔ اس وقت یہ جوان گھر پر نہیں تھا لیکن اس کے خاندان کے چار لوگ دنگے کے وقت وہاں موجود تھے۔ یہاں ساتھ میں ہم نے ایک بڑھئی کی دکان بھی دیکھی جس کے مالک محمد الیاس نے ہمیں بتایا کہ لوٹنے کے بعد اس کو تباہ کر دیا گیا۔ کھجوری ایکسٹینشن کے مکان نمبر51/3 میں جمیل احمد کا گیراج جل رہا تھا۔ انہوں نے ہم کو بتایا کہ ان کے گیراج میں سات کاریں‘ چھ آٹو رکشا اور نو موٹر سائکلیں جلائی گئیں۔ گیراج میں موجود گاڑیوں کو جلانے کے بعد اس کی بلڈنگ کو بھی لوٹ کر شدید نقصان پہنچایا گیا۔ کھجوری خاص کی ایک گلی میں مسجد فاطمہ قائم ہے جسے بری طرح سے جلا دیا گیا۔ وہاں مقامی مسلمان کافی تعداد میں آ کر جمع ہو گئے تھے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ مذہبی مقام کو فسادی ہاتھ نہیں لگائیں گے۔ مسجد کے ساتھ ہی معصوم علی کا مکان ہے۔ انہوں نے ہم کو بتایا کہ مقامی ایس ڈی ایم کہہ رہا ہے کہ ایک گھر میں صرف ایک خاندان کو ریلیف ملے گا یعنی اگر ایک گھر میں کئی خاندان رہتے ہوں تو سب کو ریلیف نہیں ملے گی۔ اسی گلی میں ایک مکان کا مالک پریم چند دلی پولیس میں اہلکار ہے اور اس نے یہ مکان 2007 سے ایک مسلم خاندان کو کرائے پر دے رکھا تھا۔ اس خاندان کے بھاگنے کے بعد فسادیوں نے اسے جلا دیا لیکن ان کو تسلی نہیں ہوئی تو واپس آ کر اسے دوبارہ جلایا۔ برج پوری میں ہم نے 30 سال پرانا ارون ماڈرن سکول دیکھا جس کے مالک بھیشم شرما کانگریس پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں اور کئی بار ایم ایل اے رہ چکے ہیں۔ اس سکول کو 25 فروری کی شام کو بری طرح جلایا گیا۔ کمپیوٹر اور دوسری چیزیں لوٹ لی گئیں۔ شیووہار میں ہم نے دو سکول دیکھے جن پر باہر سے آنے والے غنڈوں نے قبضہ کر لیا تھا۔ دونوں سکولوں کے درمیان صرف ایک دیوار ہے۔ وہ ہیلمٹ پہنے ہوئے تھے اور انہوں نے اپنے چہروں کو چھپا رکھا تھا۔ یہ لوگ وہاں اگلے 24 گھنٹے تک رہے اور اگلے دن شام کو پولیس کے آنے کے بعد علاقے سے چلے گئے۔ ان میں سے کچھ ایک موٹی رسی استعمال کرکے سکول کی چھت سے ساتھ ملے ڈی پی آرکانونٹ سکول میں اتر گئے۔ انہوں نے سکول کی چھت سے بڑے غلیلوں کے ذریعے سڑک کے اس پار گھروں میں پٹرول بم پھینکے۔ یہ موٹی رسی ابھی تک سکول میں پڑی ہوئی ہے۔ یہ لوگ سکول میں کمپیوٹر سمیت جو کچھ بھی لے جا سکے اٹھا لے گئے۔ ڈی پی آر سکول میں ان غنڈوں کی تعداد تقریباً 1500 تھی اور وہ 24 فروری کی شام کو آنے کے بعد یہاں اگلے 24 گھنٹے تک رہے۔ سکول کے گارڈ روپ سنگھ ہم کو ان باہر کے غنڈوں کا وہی وصف بتایا جو ہمیں پاس کے راجدھانی پبلک سکول کے ڈرائیور نے بتایا تھا۔ روپ سنگھ نے بتایا کہ عقبی دروازے سے انہوں نے باہر بھاگ کر اپنی اور اپنے خاندان کی جان بچائی جو سکول میں ہی رہتے تھے۔ ہم نے سکول کے کھلے میدان میں بے شمار جلے ہوئے ڈیسکوں کے لوہے کے فریم پڑے ہوئے دیکھے۔ یہ واضح تھا کہ ان لوگوں کو مقامی مدد حاصل تھی۔ شیوپوری علاقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ یہاں مسلمان کم تعداد میں تھے اور چن چن کر ان کے گھر لوٹے گئے اور جلائے گئے۔ یہاں ہم کو اولیا مسجد ملی جس کو بری طرح نقصان پہنچا ہے۔ اس کے فرش پر ملبہ بھرا ہوا تھا اور وہاں دو گیس سلنڈر بھی فرش پر پڑے تھے۔ لگتا ہے کہ یہ سلنڈر پھٹے نہیں تھے۔ زیادہ تر گھروں میں گیس سلنڈروں سے بلاسٹ کیا گیا تھا۔ یہ گیس سلنڈر گھروں سے حاصل کیے گئے تھے۔ ہم نے یہاں گلی نمبر10 میں اقرار ولد محمد افسر کی بیکری دیکھی جسے لوٹ کر غنڈوں نے 25 فروری کی رات میں جلا دیا۔ شمالی مشرقی ضلع میں مزید متاثرہ علاقے جہاں ہم نہیں جا سکتے۔ ہزاروں لوگ اس علاقے سے بھاگ کر یوپی اور ہریانہ میں اپنے آبائی علاقوں میں چلے گئے ہیں یا دہلی کے دوسرے علاقوں میں اپنے رشتہ داروں کے پاس یا مسلم سماج کے بنائے ہوئے کیمپوں میں مقیم ہیں۔ ہمارا اندازہ ہے کہ شمال مشرقی ضلع میں ہونے والا تشدد یکطرفہ تھا اور اس کی عمدہ پلاننگ کی گئی تھی تاکہ مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں کو خاصا نقصان پہنچایا جا سکے۔ اس کام میں غنڈوں کو مقامی مدد حاصل تھی۔ بغیر بھاری مدد کے متاثرین دوبارہ اپنے پیروں پر نہیں کھڑے ہو پائیں گے۔ ہمارا احساس ہے کہ حکومت دہلی نے جو معاوضہ متعین کیا ہے وہ اس مقصد کے لیے ناکافی ہے‘‘۔
اس رپورٹ کو مرتب کرنے والوں کو بھی ریاستی دہشتگری کے خطرے کا سامنا ہے اور عالمی ضمیر خاص طور پر او آئی سی بدستور خاموش ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved