عارفہ کے گھر سے احمر کے ساتھ نکلتا اور باتیں کرتے بلی ماراں کے بازار سے گزرتا جاتا جس کا منہ قریب ہی چاندنی چوک پر کھلتا ہے۔ یہ دھیان مجھے کئی بار آیا کہ غالب قلعے میں حاضری کے وقت اسی راہ سے گزرتے ہوں گے۔ شیخ ابراہیم ذوق معلوم نہیں کس محلے میں رہتے تھے۔ ممکن ہے یہیں کہیں رہتے ہوں۔ تو ان کی پالکی بھی یہیں سے جاتی ہو گی۔ کیونکہ یہی راستہ قریب ترین ہے۔ جن دوستوں نے دلّی نہ دیکھی نہ احوال پڑھا وہ سمجھ لیں کہ چاندنی چوک کسی چوک کا نام نہیں بلکہ ایک سڑک اور ایک علاقے کا نام ہے۔ شاہ جہاں آباد بسانے والوں نے اگر کسی علاقے میں منصوبہ بندی کا مظاہرہ کیا تو اس سڑک پر۔ لال قلعے کے مرکزی لاہوری دروازے کے سامنے یہ کشادہ سڑک شاہ جہاں کی بیٹی شہزادی جہاں آراء کی منصوبہ بندی اور ہدایت کے مطابق بنائی گئی تھی۔ لال قلعے سے شروع ہونے والی اور جامع مسجد فتحپوری پر ختم ہونے والی شاید 6 میل لمبی یہ سڑک خاص تھی۔ اس کے وسط میں نہر بہتی تھی جسے نہر علی مردان خان کہتے تھے۔ نہر کے دونوں طرف سایہ دار درخت تھے۔ امراء، وزراء، نوابوں کی رہائش گاہیں، محل اور حویلیاں‘ سب اسی علاقے میں تھے۔ چاندنی چوک اسے کیوں کہتے تھے اس کی وجہ یا تو یہ تھی کہ نہر میں چاندنی رات کا منظر بہت دل کش تھا یا یہ کہ یہاں شروع میں چاندی کے تاجروں نے کام شروع کیا تھا۔ یا پھر شاید یہ روایت درست ہو کہ شروع میں یہاں نصف چاند کی شکل میں ڈیڑھ ہزار دکانیں بنائی گئی تھیں اور ان کے سامنے ایک خوبصورت حوض تھا جس میں مہتاب کا منظر بہت خوب صورت تھا۔ اس سڑک پر ابتدائی دور میں تین بازار تھے۔ اردو بازار‘ جو قلعے کے لاہوری دروازے سے گوردوارہ گرو تیغ بہادر کے قریب کوتوالی چوک تک واقع تھا۔ اردو ترکی زبان میں لشکر کو کہتے ہیں اور یہ دراصل لشکر کا کیمپ تھا۔ چوک کوتوالی سے حوض تک جوہری بازار تھا۔ پھر حوض کی جگہ گھنٹہ گھر بنایا دیا گیا اور اب یہ بھی ختم ہو چکا ہے‘ اور جہاں تک مجھے یاد ہے اس بازار میں اب بھی زرگروں اور سناروں کی دکانیں ہیں۔ گھنٹہ گھر سے فتح پوری مسجد تک فتح پوری بازار تھا۔ دو رویہ دکانیں، دکانوں کے آگے برآمدے، اور راہگیروں کے لیے پیدل راستے اس سڑک کی خصوصیت تھی۔ تاج پوشی کے شاہی جلوس چاندنی چوک پر نکلنا ایک روایت تھی جسے انگریز نے بھی برقرار رکھا۔
میں نے چشمِ تصور سے اس سڑک پر لال قلعے سے فتح پوری تک سولیاں کھڑی دیکھیں۔ وہ تمام اصحاب عزیمت علماء ان پر لائے گئے تھے جنہوں نے انگریزوں کے خلاف جہاد کیا تھا۔ وہ توپیں دیکھیں جن کے منہ پر مجاہدین کو باندھ کر فلیتے کو شعلہ دکھایا گیا تھا۔ خاک بہ سر شہزادیاں، رلتی ہوئی شریف زادیاں، لٹی ہوئی حویلیاں، اجڑی ہوئی دلّی یاد آئی۔ شاہوں کے ملبوس معمولی خدمت گاروں کو زیب تن کروائے جاتے دیکھا۔ سعود میاں! دلّی صرف مغل شان و شوکت کا ہی نام نہیں ہے۔ ہم وہ ہیں کہ جنہوں نے نہ عروج دیکھا نہ زوال۔ دیکھا تو اس سڑک کو ایک پراگندہ حالت میں‘ جسے دیکھ کر یقین ہی نہیں آتا کہ اس کی خوبصورتی بے مثال رہی ہوگی۔
صدیوں یہیں روشنی رہی ہے / اس چوک میں چاندنی رہی ہے
چاندنی چوک کی بات ہو تو فتح پوری مسجد کا ذکر بار بار آتا ہے۔ ایک طرف مشرق میں لال قلعہ، اور سڑک کے اختتام پر مغربی سمت فتح پوری مسجد۔ یہی چاندنی چوک کی حدود تھیں۔ اور یہ ذہن میں رکھیے کہ دلی کی جامع مسجد بعد میں تعمیر ہوئی۔ شاہجہاں کی فتح پوری بیگم کو، جو فتح پوری سیکری سے تعلق رکھتی تھیں، 1650 میں اس کی تعمیر کے وقت شاید اندازہ ہی نہ ہو کہ جو مسجد میں بنوا رہی ہوں وہ صدیوں بعد بھی یاد رکھی جائے گی۔ یاد رہے کہ تاج محل میں جو مسجد ہے وہ بھی انہی فتح پوری بیگم کی بنوائی ہوئی ہے۔ ذرا اندازہ کیجیے کہ 1857 کی جنگ آزادی کے وقت جب دہلی پر فرنگی راج آیا تو انگریزوں نے یہ مسجد 19000 روپے میں لالہ چنن مل کو فروخت کردی۔ یہ ان کا مسلمانوں پر احسان ہے کہ انہوں نے مسجد کو قائم رکھا حتیٰ کہ 1877 میں یہ مسلمانوں کو واپس مل گئی۔ مغل ملکاؤں اور شہزادیوں کی بنائی مسجدوں میں ایک اکبرآبادی مسجد بھی تھی‘ جو اکبر آبادی بیگم کی بنوائی ہوئی تھی اور جسے فرنگی نے مسمار کردیا تھا۔ فتح پوری کے قریب ہی کھاری باؤلی بازار ہے جسے ایشیا کا مصالحوں کا سب سے بڑا بازار کہا جاتا ہے۔ آپ جانتے ہی ہوں گے کہ باؤلی اس کنویں کو کہا جاتا ہے جس میں پانی تک سیڑھیاں جاتی ہوں۔ بعض باؤلیوں میں تو ہاتھی اور گھوڑے تک اتارے جا سکتے تھے۔
چاندنی چوک میں ایک اور مسجد گوردوارہ سیس گنج کے قریب واقع ہے جو تاریخی ہے۔ سنہری مسجد کا نام سن کر کئی مسجدوں کی تصویریں ذہن میں گھومنے لگتی ہیں مثلا اندرون لاہور کی سنہری مسجد۔ ان سب کے گنبد سنہرے ہیں۔ چاندنی چوک کی یہ سنہری مسجد روشن الدولہ ظفرخان نے 1721 میں بنوائی۔ مشہور ہے کہ11مارچ 1739 کو نادر شاہ نے جب دلی میں قتل عام کا حکم دیا تو وہ کچھ گھنٹے سنہری مسجد کی چھت پر تلوار سونت کے بیٹھ گیا اور کہا: تلوار نیام میں جانے تک قتل عام جاری رہے۔ گھنٹوں قتل عام جاری رہا۔ مشہور ہے کہ آخر مغلیہ وزیر اعظم نظام الملک آصف جاہ، ننگے سر، دستار گلے میں ڈالے سنہری مسجد پہنچا اور رحم کا طالب ہوا۔ یہ شعر پڑھا
کسے نہ ماند کہ دیگر بہ تیغ ناز کشی
مگر کہ زندہ کنی خلق را و باز کشی
(کوئی باقی نہیں بچا ہے کہ جسے آپ تیغ ناز سے قتل کر سکیں۔ سوائے اس کے کہ آپ خلقت کو پھر زندہ کریں اور پھر قتل کریں)کہتے ہیں کہ اس پر نادر شاہ نے تلوار نیام میں ڈال لی۔ جو بے گناہ قتل ہو چکے تھے ان کی تعداد ہزاروں میں بتائی جاتی ہے۔ یہ محض اس لیے قتل ہوئے کہ ان کا حکمران محمد شاہ رنگیلا جیسا عیش و عشرت پسند تھا۔ ہوس ملک گیری انسان کو کیسا سفاک بنا دیتی ہے۔ اسی نادر شاہ نے بغاوت کے شبے میں اپنے سگے بیٹے کو اندھا کروایا‘ اور یہ یہی جابر نادر شاہ آخر خود ایران واپسی کے بعد اپنے سپاہیوں کے ہاتھوں قتل ہوا۔ ایک تیز دھار تلوار نے اس کی زندگی کی تلوار ہمیشہ کے لیے نیام میں ڈال دی۔ رہے نام اللہ کا۔
چاندنی چوک میں کھانے پینے کی مشہور دکانیں بھی بہت سی ہیں۔ کچھ گلیاں ایسے ہی ناموں سے پہچانی جاتی ہیں مثلا جلیبی والی گلی اور پرانٹھے والی گلی۔ آلو، قیمے،گوبھی، مولی کے پراٹھے تو ہم نے لاہور میں بہت کھائے تھے لیکن میتھی، پالک، مٹر، پودینے حتیٰ کہ کیلے کے پراٹھے سن کر تو میں حیران رہ گیا۔ اس گلی میں سب ملتے ہیں اور انہیں چکھے بنا چلے جانا زیادتی ہے‘ اور یاد رکھیں سعود عثمانی زیادتی کرنے والوں میں سے نہیں۔ گوشت پر ہندو مذہب کی پابندی کا ایک اچھا پہلو بہرحال یہ ہے کہ اناج، سبزی اور مٹھائی میں نت نئے ذائقے متعارف ہو گئے اور مٹر، پودینے کے پراٹھے انہی ذائقوں میں سے ہیں جن کے ساتھ اچار، چٹنیاں اور چھولوں کا سالن بہت لطف دیتا ہے۔ لیکن اب چاندنی چوک کی حیثیت ایک ہول سیل مارکیٹ کی بھی ہے جس میں الیکٹرانک مصنوعات کی بھی بے شمار دکانیں ہیں۔ میں ایک بار دہلی میں مقیم اپنی خالہ زاد بہن کے ساتھ کشمیری پشمینے کی شال دیکھنے گیا تو اتنی بیشمار دکانیں دیکھ کر حیران رہ گیا۔ کچھ کچھ ہماری اعظم کلاتھ مارکیٹ اور شاہ عالم مارکیٹ لاہور جیسا نقشہ ہے۔ لیکن ٹریفک۔ خدا کی پناہ۔ ہجوم کا یہ حال کہ اگر ہمراہی سے بچھڑ گئے تو دوبارہ تلاش کرنا محال ہے۔ سائیکل رکشا ہیں کہ ایک عذاب۔ شور، ہارن، گرد کے درمیان لوگ بھی چلتے رہتے ہیں۔ کاروبار بھی چلتا رہتا ہے اور زندگی بھی۔ سب ایک دوسرے کے عادی ہیں۔
میں نے چاندنی چوک کی ایک تصویر جو 1865 میں کھینچی گئی تھی، دیکھی۔ کشادہ سڑک، بہت کم راہ گیر، پر سکون دکانیں۔ تصور کرنا محال ہے کہ یہ وہی سڑک ہے۔ لیکن کسی اور کو کیا کہیں۔ یہ سب ہمارے لاہور اور کراچی کے ساتھ کیا کم ہے۔ کوئی سو ڈیڑھ سو سال پہلے کی تصویر دیکھ لے تو نہ مال روڈ کو پہچانے گا، نہ انارکلی کو۔ شہر بھی تو زندہ وجود ہوتے ہیں۔ ہمارے خدوخال چند سال بعد بدل جاتے ہیں تو صدیوں پہلے کے شہر کیسے پہچان سکتے ہیں۔