سولہ دسمبر 1971ء کو سقوط ڈھاکہ کے بعد بھارت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے اپنی تقریر کے دوران بڑے فخر سے میز پر زور سے ہاتھ مارتے ہوئے کہا تھا کہ اس نے دو قومی نظریے کو بحیرہ ہند میں غرق کر دیا ہے۔ اب ان سے پوچھنا ہے کہ ذرا اپنی چتا کی راکھ کو ٹٹول کر اس کے کسی ایک ذرے سے پوچھ کر بتائیں تو سہی کہ دہلی میں مسلمانوں کے قتل عام اور ان کے گھروں اور بچوں کو نذر آتش کرنے کے خلاف ڈھاکہ‘ چٹاگانگ‘ جیسور اور کومیلا میں احتجاجی مظاہرے کرتے ہوئے لاکھوں کی تعداد میں اُمڈ آنے والے بنگالی مسلمانوں کے سیلاب کو دیکھا ہے؟ اگر نہیں دیکھا تو باہر نکلو اور ذرا غور سے دیکھو تو سہی تاکہ لوگوں کے اس سیلاب کو دیکھنے کے بعد تمہارے ہوش ٹھکانے آ جائیں اور تمہیں معلوم ہو جائے کہ یہ بنگالی مسلمان کیا کہہ رہے ہیں۔ ان کے نعرے سنو‘ ان کے پلے کارڈ دیکھو‘ ہاتھوں میں تھامے ہوئے ان کے بینرز دیکھو‘ ان کے ٹرکوں پر نصب کئے گئے لائوڈ سپیکروں سے گونجنے والی آوازوں کو سنو۔ یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد ثابت ہو جائے گا کہ دو قومی نظریہ بحیرہ ہند میں کسی صورت غرق نہیں ہوا‘ یہ کبھی غرق ہو ہی نہیں سکتا۔ برصغیر کے مسلم رہنماؤں کا دیا ہوا دو قومی نظریہ رہتی دنیا تک قائم رہے گا‘ کیونکہ نظریہ اس وقت تک نہیں مرتا جب تک وہ اسباب اور حالات نہیں بدلتے‘ جن کی وجہ سے وہ پیدا ہوا ہوتا ہے۔ بھارت میں ہندو اکثریت کی جانب سے مسلمانوں کے ساتھ جس قسم کا سلوک کیا جا رہا ہے‘ ایسے میں دو قومی نظریہ ختم تو کیا ہو گا‘ اس کے تقویت اختیار کرنے کے امکانات زیادہ ہیں۔
اب سب نے دیکھ ہی لیا ہے کہ بنگلہ دیش کو قائم ہوئے پچاس برس ہونے کو ہیں‘ لیکن دو قومی نظریہ اپنی پوری آن بان اور شان کے ساتھ سینہ تان کر ڈھاکہ کی گلیوں اور بازاروں میں مارچ کرتا ہوا‘ دنیا بھر کواپنا زندہ وجود دکھا رہا ہے۔ اس دو قومی نظریے کی طاقت کا اندازہ کیجئے کہ مسلمانوں کے قتلِ عام میں ملوث بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف اسی بنگلہ دیش‘ جہاں کھڑے ہو کر مودی نے سینہ پھلا کر انکشاف کیا تھا کہ وہ بھی مکتی باہنی کے ساتھ مل کر پاکستانی فوج کے خلاف لڑتے رہے ہیں‘ میں اس کے خلاف اس قدر احتجاج کیا گیا کہ اس کی ہم نوا وزیر اعظم حسینہ واجد کو مجبور ہو کر بھارتی حکومت کو کہنا پڑا کہ مودی جی کو ابھی ادھر اپنے گھر ہی میں رکھیں‘ انہیں ہمارے پاس آنے کی تکلیف نہیں کرنی چاہیے‘ کیونکہ بنگلہ دیش کے عوام کا متفقہ فیصلہ ہے کہ ہٹلر کے جانشین مودی کا دورہ بنگلہ دیش منسوخ کر دیا جائے۔ بھارتی حکومت کو یہ بھی بتایا گیا کہ بنگلہ دیشی عوام کے مودی مخالف شدید جذبات کی وجہ سے بنگلہ دیش سرکار ان کی میزبانی کرنے کی پوزیشن میں نہیں‘ مودی کے بنگلہ دیش آنے سے ہمیں ان کی سکیورٹی کے شدید خطرات لا حق ہو سکتے ہیں۔
بھارت کے حامیوں یہ بھی پوچھنا ہے کہ اخلاق اور زبیر کے منہ سے گوشت کی بو آنے پر اسے کیوں برسر بازار برہنہ کرتے ہوئے آگ میں جھونک کر زندہ جلا دیا گیا ‘جبکہ آپ نے تو کہا تھا کہ ہم میں اور ان میں کوئی فرق نہیں‘ وہ بھی آلو گوشت کھاتے ہیں اور ہم بھی شوق سے آلو گوشت کھاتے ہیں۔ ان سے پوچھنا تھا کہ دہلی کی نو ماہ کی معصوم حاجرہ کے آلو گوشت کھانے والے باپ شرافت علی کو لوہے کی سلاخوں سے قتل کرنے والے اشوک اور کپل مشرا بھی جب آلو گوشت ہی شوق سے کھاتے ہیں تو پھر کپل مشرا کے کہنے پر اس کے ساتھیوں نے شرافت علی کو لوہے کی سلاخیں مار مار کر قتل کیوں کیا؟ شرافت علی کو قتل کرنے کے بعد اس کے گھر کو آگ کیوں لگائی گئی۔ اس آگ میں شرافت کی نو ماہ کی معصوم بچی‘ جسے ابھی اپنے مذہب کی بھی کوئی تمیز نہیں تھی‘ کو بھڑکتی ہوئی آگ میں پھینک کر زندہ کیوں جلایا گیا؟ سرحدوں کو بارڈر کی بجائے فقط ایک لکیر سے تشبیہ دینے والے بتاتے کیوں نہیں کہ لکیر کی دوسری طرف رہنے والوں نے معصوم حاجرہ کو آگ میں جلتا دیکھ کر قہقہے کیوں لگائے؟ شرافت علی کو بار بار کیوں مجبور کیا گیا کہ وہ شری رام کے نعرے لگائے؟ اسے لوہے کی سلاخوں سے پیٹتے ہوئے کیوں کہا گیا کہ اپنے گھر میں رکھی مقدس کتابوں کو باہر پھینک دو؟
دہلی‘ جو دنیا کی نام نہاد سب سے بڑی جمہوریت کا دارالحکومت ہے‘ میں رہنے والے مسلمانوں پریشان حال ہیں۔ یہاں مسلمانوں کی دوسری بڑی اکثریت رہائش پذیر ہے‘ جہاں 2011ء کی مردم شماری کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کل آبادی ایک کروڑ پینسٹھ لاکھ ہے اور اس میں مسلمانوں کی آبادی 20 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ اس بیس لاکھ آبادی کا آج کوئی بھی پرسان حال نہیں؛ چنانچہ سرحد کے دونوں طرف رہنے والوں کو ایک جیسا قرار دینے والوں سے یہ پوچھنا تھا کہ کبھی اپنے دوست مودی کو فون کر کے کہا ہے کہ ان بے چارے مسلمانوں کو کیوں مار رہے ہو؟ ان سے بھی پوچھنا ہے‘ جو ہمیں گزشتہ پچیس برسوں سے امن کی آشا کا درس دیتے نہیں تھکتے تھے‘ جو سرحد کے اس طرف جا کر کہیں لڈیاں ڈالتے تو کہیں ہولی کے رنگ میں رنگتے ہوئے خود کو بد رنگ کر لیتے تھے‘ جو واہگہ جا کر کبھی موم بتیاں روشن کرتے تو کبھی شیو سینا کے مہا بھارت بال ٹھاکرے کے درشن کرتے ہوئے انہیں گیندے کے پھولوں سے لادا کرتے‘ ان سے پوچھنا تھا کہ شبانہ اعظمی اور ان کے شوہر جاوید اختر کو ممبئی کی ان آبادیوں میں گھر کرائے پر کیوں نہیں لینے دیا جاتا‘ جہاں ہندوئوں کی اکثریت رہائش پذیر ہے؟ ان سے پوچھنا تھا کہ شرمیلا ٹیگور کے بیٹے سیف علی خان کا کیا قصور ہے‘ جس نے بھارت کے سب سے بڑے پنڈت خاندان کی بیٹی کرینہ کپور سے شادی بھی کر لی‘ لیکن پھر بھی انہیں ہندوئوں کی پوش آبادیوں میں گھر خریدنے کی اجازت نہیں مل رہی۔
ان سے پوچھنا تھا کہ جنہوں نے لاہور کے ایک پنج ستارہ ہوٹل میں ایک کانفرنس کے مہمان خصوصی کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ واجپائی نے ان سے شکوہ کیا تھا کہ آپ کے ملک کی فوج نے کارگل جنگ چھیڑ کر بھارت کی پیٹھ میں چھرا گھونپا تھا اور اپنے اس خطاب میں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر واجپائی کی جگہ وہ ہوتے تو وہ بھی یہی کہتے‘ ان سے بھی پوچھنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل 370 اور 35A کا جو حشر نشر کیا گیا کیا وہ 80 لاکھ کشمیریوں کی پیٹھ میں گھونپا جانے والا زہریلا خنجر نہیں؟ ان سے پوچھنا تھا کہ کیا آپ نے لاکھوں جانوں کی قربانیوں سے حاصل کئے گئے وطن کی سرحدوں کو ایک بڑے ہوٹل کے ائیر کنڈیشنڈ ہال میں بیٹھ کر صرف ایک لکیر سے تشبیہ دیتے ہوئے ان تمام روحوں کی پیٹھ میں خنجر نہیں گھونپے جنہوں نے پاکستان آتے ہوئے اور پھر پاکستان بچاتے ہوئے اپنی جانیں قربان کیں؟ ان سے کون پوچھے گا کہ17 اگست 1947ء کو انگریز نے ہندوستان کے چار لاکھ پچاس ہزار مربع کلو میٹر رقبے اور 88 ملین انسانوں کو دو قومی نظریے کی بنیاد پر تقسیم کیا تھا اور اگر یہ صرف ایک لکیر تھی تو پھر بھارت نے اس لکیر پر خاردار باڑیں لگاتے ہوئے ان پر ایک لاکھ پچاس ہزار فلڈ لائٹس کیوں لگا رکھی ہیں؟
سرحد کے دونوں طرف رہنے والوں کو ایک جیسا قرار دینے والوں سے یہ پوچھنا تھا کہ کبھی اپنے دوست مودی کو فون کر کے کہا ہے کہ ان بے چارے مسلمانوں کو کیوں مار رہے ہو؟ ان سے بھی پوچھنا ہے‘ جو ہمیں گزشتہ پچیس برسوں سے امن کی آشا کا درس دیتے نہیں تھکتے تھے کہ شبانہ اعظمی کو ممبئی کی ان آبادیوں میں گھر کرائے پر کیوں نہیں لینے دیا جاتا‘ جہاں ہندوئوں کی اکثریت ہے؟