تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     13-03-2020

سرخیاں‘متن‘ درستی اور محمد سلیم الرحمن کی نظم

حکومت ملکی معیشت کو دو دھاری تلوار
سے قتل کر رہی ہے: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''حکومت ملکی معیشت کو دو دھاری تلوار سے قتل کر رہی ہے‘‘ اور یہ پرلے درجے کی فضول خرچی ہے ‘کیونکہ معیشت کو ایک دھاری تلوار سے بھی باآسانی قتل کیا جا سکتا ہے‘ کیونکہ ہم نے اس نیک مقصد کے لیے ایک دھاری تلوار ہی استعمال کی تھی اور مطلوبہ نتائج حاصل کر لیے تھے‘ بلکہ یہ کام کند چھری کے ساتھ کیا جانا چاہیے تھا ‘جس سے ہم نے رحم دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے گریز کیا ‘کیونکہ کوئی کند چھری اس وقت ویسے بھی دستیاب نہیں تھی‘ جبکہ تیز چھری تھی‘ ہم نے خربوزے پر گرانے یا خربوزے کو اس پر گرانے کیلئے رکھی ہوئی تھی ‘لیکن یہاں چونکہ ابھی خربوزوں کا موسم نہیں آیا ہے‘ اس لئے وطن واپسی کا خربوزہ بھی نہیں کاٹا جا سکا‘ جس کیلئے وطن ِ عزیز میں شرطیں لگائی جا رہی ہیں؛ حالانکہ یہ کام شرطوں سے بہت آگے جا چکا ہے۔ آپ اگلے روز لندن میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
ڈیڑھ سو ارب لوٹنے والے وزیراعظم 
کے پروں کے نیچے بیٹھے ہیں: احسن اقبال
سابق وفاقی وزیر داخلہ چودھری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ڈیڑھ سو ارب لوٹنے والے وزیر اعظم کے پروں کے نیچے بیٹھے ہیں‘‘؛ حالانکہ پر اُڑنے کیلئے ہوتے ہیں ‘لوگوں کو نیچے بٹھانے کیلئے نہیں‘ اور یہ پروں کا نہایت غلط استعمال ہے اور یہ موجودہ حکومت کوئی بھی چیز ڈھنگ سے استعمال نہیں کر رہی؛ حتیٰ کہ حکومت کو بھی غلط طریقے سے چلایا جا رہا ہے اور انہوں نے ہم سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا‘ ورنہ یہ لوگ بھی اب تک لندن میں بیٹھے موجیں کر رہے ہوتے‘ اس لئے بہتر ہے کہ یہ پر کٹوا دیں اور یوں پروں کی توہین کے مرتکب نہ ہوں‘ کیونکہ یہ کوئی مرغیاں نہیں ہیں‘ جو اپنے بچوں کو پروں کے نیچے پناہ دیئے رکھتی ہیں‘ لیکن انہوں نے کبھی انڈہ ہی نہیں دیا تو بچے کہاں سے پیدا ہوں گے؟ اور اگر یہ انڈہ دیتیں بھی تو انہوں نے کُڑ کُڑ کہیں کرنا تھا اور انڈے کہیں دینا تھے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
قوم کو تحریک ِانصاف کی تبدیلی کہیں نظر نہیں آ رہی: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''قوم کو تحریک ِانصاف کی تبدیلی کہیں نظر نہیں آ رہی‘‘؛ حتیٰ کہ مجھے بھی نظر نہیں آ رہی؛ حالانکہ میری بینائی قوم سے کہیں زیادہ تیز ہے‘ جو روزانہ تقریر کرنے سے ہوتی ہے؛ حتیٰ کہ بینائی تیز ہونے سے مجھے ایک کے دو دو نظر آنے لگے ہیں اور حکومتیں بھی دو ہی نظر آ رہی ہیں‘ اس لئے میرا کام بڑھ کر دُگنا ہو گیا ہے کہ حکومت کو گرانے کا بیڑا بھی خاکسار ہی نے اٹھا رکھا ہے‘ جو کافی بھاری ہے‘ جس کو اٹھانے کیلئے ایک آدمی ساتھ رکھنا پڑ گیا ہے‘ جس کے ساتھ ابھی تک تو اُدھار ہی چل رہا ہے‘ جب تک کہ وہ یہ بوجھ تنگ آ کر نیچے نہیں پٹخ دیتا؛ چنانچہ تحریک ِ انصاف کی لائی ہوئی تبدیلی آئے‘ نہ آئے‘ میری اپنی تبدیلیاں مجھے الگ سے پریشان کر رہی ہیں؛ حتیٰ کہ تقریر بھی کسی اور کی ہی جھاڑ دیا کرتا ہوں ‘کیونکہ قومی مفاد سب کیلئے برابر ہے۔ آپ اگلے روز پشاور میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
درستی
یادش بخیر‘ بھائی صاحب نے کل اپنے کالم میں دو شعر درج کئے ہیں۔جن میں سے پہلا یہ اس طرح درج کیا ہے۔ ؎
قلندر جُز حرفِ لا الہ کچھ بھی نہیں رکھتا
فقیہہ ِ شہر قاروں ہے لغت ہائے حجازی کا
اس کا پہلا مصرعہ وزن میں نہیں ہے ‘جو غالباً اس طرح سے ہے: ع
قلندر جُز دو حرفِ لا الہ کچھ بھی نہیں رکھتا
دوسرا شعر اس طرح سے درج کیا گیا ہے۔ ؎
اللہ تو کریمی و رسولِ تو کریم
صد شکر کہ ہستم میانِ دو کریم
اس کا دوسرا مصرعہ بے وزن ہو گیا ہے‘ جو غالباً اس طرح سے ہے:ع
صد شکر کہ ہستیم میانِ دو کریم
اور اب آخر میں محمد سلیم الرحمن کی یہ خوبصورت نظم:
شاعری
شاعری:
آنے والی کل ہمیشہ آج سے آگے بہت۔
شاعری:
اک خط کسی کا سب کے نام۔
خود بخود کھلتی ہوئی کھڑکی کا طوفانی سلام۔
شاعری:
تازیانہ دھوپ کا تاریک جسم و جان پر‘
روشنی کی عید!
شاعری:
یادوں کا اک یومِ نشور۔
ذہن کی سمتیں بدلتا زلزلہ۔
شاعری:
امکان کا اک بحرِ ناپیدا کنار‘
آسماں دَر آسماں دَر آسماں۔
شاعری:
موت کا اک ذائقہ۔
آج کا مقطع
دل جو ٹوٹے گا تو آواز بھی آئے گی‘ ظفرؔ
کانچ کی چیز ہے اور ٹوٹنے والی بھی ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved