اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود گزشتہ سات سال میں پی ٹی آئی گورنمنٹ نے دہشت گردی کے ہاتھوں پامال صوبہ میں گورننس کے نظام کو بہتر بنانے کی خاطر قابل ِ ذکر اقدامات اٹھا کے کئی شعبوں ‘خاص طور پر سول انتظامی ڈھانچہ کی تشکیل ِنو کی جانب بامعنی پیش قدمی کی ہے۔پچھلے دور میں پرویز خٹک کی سربراہی میں پاکستان تحریک ِانصاف کی صوبائی حکومت نے پولیس میں ریفارمز کے علاوہ صحت و تعلیم کے شعبوں پہ توجہ مرکوز رکھی‘ جس کے اگرچہ خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے‘ لیکن پھر بھی اصلاحات کی انہی کوششوں کی بدولت ادارہ جاتی ڈھانچہ کا وہ تباہ کن زوال روک گیا‘جسے 2002ء میں ایم ایم اے کے دور حکومت میں پھوٹنے والی دہشت گردی کی لہروں سے مہمیز ملی تھی اور2008ء میں جسے اے این پی کی مخلوط حکومت نے اپنی سہل انگاری کی بدولت زیادہ گمبھیر بنا دیا تھا۔ خوف کے اسی المیے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان کے پسندیدہ پولیس افسر ناصرخان درانی کی تجاویز پہ مبنی پولیس ریفارمزکے تحت آئی جی پی کو جو لامحدود اختیارات تفویض کئے گئے ۔وہ پولیسنگ میں تو کوئی بہتری نہ لا سکے‘ مگر پولیس فورس پہ سول اتھارٹی کا وہ رہا سہا کنٹرول ختم کرنے کاسبب ضرور بنے ‘جسے انگریز نے سو سال کے تجربات کے دوران قائم کیا تھا۔
دریں اثناء پی ٹی آئی کی پچھلی صوبائی حکومت نے عمران خان کے ویژن کے مطابق ‘ بلین ٹری سونامی پراجیکٹ کے ذریعے صوبہ بھر میں ایک ارب سے زیادہ درخت لگا کے جہاں دن بدن گھٹتے ہوئے جنگلات کی افزائش کانظام مرتب کر لیا‘ وہاں اسی صحت مند سرگرمی کی بدولت ماحولیات آلودگی پہ قابو پانے میں مدد ملی۔بلین ٹری پراجیکٹ پہ اپوزیشن کی تنقید سے قطع نظر‘لاریب‘یہ ایسی گراں قدر سرگرمی تھی‘ جو بجائے خود فارسٹ جیسے اجڑے ہوئے محکمہ کی زنگ آلود انتظامی مشینری کی بحالی میں مدد گار ثابت ہوئی۔حیرت انگیز طور پہ بلین ٹری پراجیکٹ کیلئے نیا سٹاف بھرتی کرنا پڑا ‘نہ پہلے سے موجود اہلکاروں کو اضافی مرعات دی گئیں‘انہی روایتی اہلکاروں نے پرانی تنخواہ پہ چار سال کے اندر ایک ارب درخت لگانے کا ہدف حاصل کر کے عالمی اداروں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا‘لیکن ابھی چند ہفتے قبل صوبائی حکومت نے سی آر پی سی کے سیکشن 14-A میں ترمیم کے ذریعے اسسٹنٹ اور ایڈیشنل کمشنرزکوایگزیکٹو مجسٹریٹ کے اختیارات تفویض کر کے اصلاح احوال کی سمت اہم قدم اٹھایا۔ان اختیارات کے ذریعے مجاز افسران‘پرائس کنٹرول‘جنگلات و معدنیات کے تحفظ‘غذائی ملاوٹ کی روک تھام کے ذریعے غذائی تحفظ‘سرکاری اراضی سے تجاوزات ہٹانے‘آبی گزرگاہوں‘ڈرینج اور نہروں کے انتظام کو ریگو لیٹ کرنے‘نجی و مسافرگاڑیوں کو چیکنگ‘ بلڈنگ کنٹرول اور میونسپل سروسز سے متعلق جرائم کی بیخ کنی کی خاطر سمری ٹرائل کرکے موقعہ پہ جرمانے عائدکر سکیں گے‘اسی قانون کے تحت تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنر کویہ اختیار دیا گیاکہ وہ اضلاع میں اپنے ماتحت افسران کیلئے ایگزیکٹو مجسٹریٹ کے اختیارات استعمال کرنے کی خاطر علاقوں کا تعین کریں‘تاہم صوبائی حکومت نے سیکشن 14 اے کا اختیار یک بارگی دینے کی بجائے انتظامی افسران کو بتدریج مجسٹریٹی اختیارات تفویض کرنے کا طریقہ اپنایا۔
پہلے مرحلہ میں صرف صوبائی دارالحکومت پشاور کے افسران کو سکین 14-A کے تحت مجسٹریٹی پاورز ملے ہیں‘ تاہم دیگر اضلاع میں نوجوان افسران کی مناسب تربیت کے بعد انہیں ایگزیکٹیو مجسٹریٹ کے اختیارات تفویض کر دیئے جائیں گے۔اس سے دو ماہ قبل پی ٹی آئی حکومت نےThe Khyber Pakhtunkhwa Civil Administration(Public Service Delivery and Good Governance) Act,2020 منظور کر کے کمشنرز کو اپنے ڈویژن کا عمومی انتظامی سربراہ اور صوبائی حکومت کا پرنسپل نمائندہ بنا دیا‘جو اپنے ڈویژن میں تمام صوبائی محکموں کا نگرانِ اعلیٰ اور صوبائی حکومت کی طرف سے تفویض کردہ فرائض انجام دینے کا مجازہو گا۔کمشنر اپنے ماتحت تمام صوبائی محکموں کے علاوہ ڈپٹی اور ایڈیشنل کمشنرز کے کام کی نگرانی اور سرکاری فرائض کی بجاآوری میں ان کا مددگار ہوگا۔ہر ڈویژنل کمشنر اپنے ڈویژن میں تمام حکومتی احکامات‘پالیسیز اور گائیڈ لائن پہ عملدرآمد یقینی بنائے گا‘یہی اختیارات اضلاع میں ڈپٹی کمشنرز کے پاس ہوں گے‘تمام صوبائی ڈیپارٹمنٹس عوامی اہمیت کے حامل ایشوز سے ڈی سی کو باخبر رکھیں گے اور حکومت کے طے کردہ معیار کے مطابق‘ ڈی سی کو رپوٹس ارسال کرنے کے پابند ہوں گے‘اسی طرح ڈی سی ان جملہ معاملات کی رپورٹ آگے کمشنر کو دے گا۔ مفصل جائزہ کے بعدکمشنر یہی رپوٹس صوبائی حکومت کو بھجوائے گا۔خیبر پختونخوا ایکٹ 2020 کے تحت ہر ڈپٹی کمشنر اضلاع میں حکومتی جائیداد کا عمومی انچارج ہو گا‘اسے تجاوزات ہٹانے‘عوامی پریشانی سے جڑے مسائل کو حل کرنے‘ممنوعہ ایشیا کی خرید وفروخت روکنے‘عوامی اجتماعات کو ریگولیٹ کرنے اور امن و عامہ قائم رکھنے کا اختیار حاصل ہو گا۔اسی طرح ضلعی انتظامیہ کی کارکردگی کو جانچنے اوراختیارات کے غلط استعمال روکنے کی خاطر اسی ایکٹ کے مطابق اوور سائٹ بورڈ بھی بنایا جائے گا۔
پاکستان تحریک ِانصاف کی پچھلی حکومت نے پرفارمنس مانیٹرنگ اینڈ ریفارمز یونٹ کے ذریعے سرکاری محکموں کی کارکردگی کو جانچنے کا جو آن لائن نظام متعارف کرایا تھا ‘وہ نہایت کار آمد ثابت ہوا‘اسی آن لائن سسٹم کے تحت صوبائی حکومت جب کسی محکمہ کو کوئی ٹاسک دیتی ہے تو اس کام کیلئے محدود ایام کا تعین کر کے سسٹم میں ٹاسک کا رنگ سبز دیکھاتی ہے‘اگر متعین دنوں کے اندر ٹاسک مکمل نہ ہوا تو محکمہ ہذ ٰا کو پانچ دن کی مہلت دیکر اس ٹاسک کا کلر پیلا کر دیا جاتا ہے‘اگر پھر بھی ہدف حاصل نہ ہوا تو محکمہ کو پانچ دن کی مزید مہلت دینے کے ساتھ ہی ٹاسک کا رنگ سرخ کر دیا جاتا ہے‘جس کے بعد متعلقہ محکمہ اورمجاز اتھارٹی کی کارکردگی منفی دائرہ میں داخل ہوجاتی ہے؛حتیٰ کہ جب تک ٹاسک مکمل نہیں ہوتا سرخ رنگ کی منفی علامت سرکاری افسر کا تعاقب جاری رکھتی ہے‘اسی طرح اب موجود گورنمنٹ نے سرکاری اہلکاروں کی کارکردگی جانچنے کے کلیدی اشاریہ (Key performance indicators ) کا سسٹم متعارف کرا دیا ہے‘ جس میں ہر اہلکاروں کی کارکردگی کو مفصل رپورٹ بنائی جائے گی‘اسی سسٹم کے مطابق‘ جس سرکاری اہلکار کی کارکردگی بہتر ہو گی‘ اسے ترقی کے مواقع ملیں گے بصورتِ دیگر متواتر بُری کارکردگی کے حامل اہلکاروں کو تادیبی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا‘اسی سسٹم میں خود گورنمنٹ کی ریفارمز پالیسی کی جانچنے کا طریقہ بھی شامل ہو گا۔
پرویز خٹک کے دور حکومت میں اس وقت کے چیف سیکریٹری امجد خان نے عوامی شکایات کے تدارک کے لیے سٹیزن پورٹل کا جو نظام متعارف کرایا تھا‘ وہ بھی خاصا مقبول ہوا۔اس سسٹم کے تحت شہریوں کو آن لائن شکایات کا حتمی موقعہ دیا گیا۔جب تک شکایت کندہ کی تشفی نہیں ہو جاتی ‘وہ شکایت بدستور سسٹم میں موجود رہتی ہے‘اسی سٹیزن پورٹل کی کامیابی سے حوصلہ پا کر وزیراعظم عمران خان نے پورے ملک میں پی ایم پی ڈی یو (Prime Minister's Performance Delivery Unit) سسٹم متعارف کرا دیا ہے۔