تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     14-03-2020

کورونا اور خوردبینی سطح

یہ دنیا کس کی ہے ؟ اس کی جو زیادہ جانتا ہے ۔ جو زیادہ جانتاہے ‘ دنیا اس کی مٹھی میں ہے ۔ جب آپ کسی بھی چیز کا علم حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اسے سمجھنے کے لیے آپ کو خوردبینی سطح پر اترنا پڑتا ہے۔ خوردبینی سطح پر اتر کر ہی ساری کہانی انسان پہ کھلتی ہے۔ انسانی تاریخ میں کورونا وائرس جیسی بیماریاں پہلے بھی انسان پہ نازل ہوتی رہی ہیں ‘ فرق یہ ہے کہ اس وقت انسان اس بیماری کو دیوتائوں کا غضب سمجھ کر انہیں بَلّی چڑھانا شروع کر دیتا تھا۔ آج وہ اس قابل ہے کہ ہر انسان کی سکریننگ کر سکتاہے کہ اس کے جسم میں یہ وائرس موجود ہے یا نہیں ۔ پہلے ایسی صورتحال میں ہر طرف خوف پھیل جایا کرتا تھا۔ آگہی کی وجہ سے آج یہ خوف بہت کم ہو چکا ہے ۔ یہ ان لوگوں کی بدولت ہے کہ جنہوں نے خوردبینی جانداروں کو سمجھا۔ جسم کے امیون سسٹم کو سمجھا۔ میزبان (Host)کے جسم میں وائرس اور بیکٹیر یا کی افزائشِ نسل کو خوردبینی سطح پہ اتر کر سمجھا ۔ پہلے اس طرح کی ہلاکتوں پر بیماری سے زیادہ خوف انسان پہ طاری ہوا کرتا تھا کہ نجانے کیوں لوگ مرنا شروع ہو گئے ہیں ۔ وبائی بیماریاں کرّہ ٔ ارض پہ پھیل جایا کرتی تھیں ‘ انسانوں کی ایک بڑی تعداد مر جاتی اور جن کا مدافعتی نظام دوسروں سے مضبوط ہوتا‘ وہ لوٹ پوٹ کر بالآخر خود ہی ٹھیک ہو جایا کرتے ۔ 
جینز بھی ایسی ہی چیز ہیں کہ جنہیں سمجھے بغیر زندگی کو سمجھنا ممکن نہیں ۔ جینز کی کہانی اتنی دلچسپ ہے کہ انہیں سمجھے بغیر فقط ادھورا علم ہی ممکن ہے ۔ سادہ ترین الفاظ میں یہ ایک جاندار کی جانب سے اپنی اولاد کو دی جانے والی وہ وراثتی خصوصیات (Genetic Material)ہیں جو ہزاروں‘ لاکھوں نسلوں تک منتقل ہوتی رہتی ہیں ۔ جانداروں کے جسم میں سب سے چھوٹی اینٹ خلیہ کہلاتی ہے ۔ ان خلیات کی تعمیر کی ساری معلومات جینز ہی میں لکھی گئی ہیں ۔اسے خلیات کا پروگرام یا سافٹ وئیر سمجھیے ۔ جسم کے خلیات نے جہاں قد کاٹھ اور شکل و صورت کو ترتیب دینا ہے ‘ وہیں دماغ میں موجود عصبی خلیات نے ہماری سوچ‘ طرزِ فکر اور روّیے کو ایک طے شدہ سانچے میں ڈھالنا ہے ۔ مختصر ترین الفاظ میں کسی بھی جاندار کا دماغ‘ ہیئت‘ اس کا رنگ‘ بال اورناخن‘ سبھی کی تعمیر کے احکامات جینز میں درج ہیں ۔ یہی وہ پس منظر ہیں‘ جس میں یہ کہا جاتاہے کہ فلاں شخص یا فلاں قوم کے جینز ہی میں خرابی ہے ۔ اسی وجہ سے خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ ساتھ بعض جسمانی اور ذہنی بیماریاں بھی نسل درنسل منتقل ہوتی ہیں ۔ 
گزشتہ دہائیوں میں انسانی جینز پر قابلِ قدر کام ہوا ہے ۔ انسانی تاریخ کا سب سے بڑا حیاتیاتی اشتراک ''ہیومن جینوم پراجیکٹ‘‘ تھا۔ 1984ء میں امریکی حکومت کے فراہم کردہ فنڈز سے شروع ہونے والا یہ منصوبہ دو عشروں میں مکمل ہوا۔ انسانی دماغ اور جسم‘ اس کے روّیے اور شکل و صورت‘ نسل درنسل منتقل ہونے والی بیماریوں کا سبب بننے والے تمام جینز کی شناخت کے بعد ان کا ایک نقشہ ترتیب دیا گیا۔ معلوم یہ ہوا کہ چوہے کی طرح ‘ انسان میں بھی کل 30ہزار جینز پائے جاتے ہیں ۔انسان اگرچہ انہیں سمجھنے کے ابتدائی مراحل ہی میں ہے‘ لیکن یہ پراجیکٹ بے حد فائدہ مند ثابت ہوا۔ اس سمت میں ہم پیش رفت کر رہے ہیں کہ قبل از وقت ان بیماریوں کی شناخت اور روک تھام کی جا سکے ‘ ماں باپ سے جو اولاد میں منتقل ہو سکتی ہیں ۔ رفتہ رفتہ انسان اپنے جسم اور دماغ کو پوری طرح سمجھ جائے گا۔ سب سے بڑی بات یہ کہ کون سے وہ جینز ہیں ‘ جنہوں نے جانوروں میں سے ایک جانور ‘ بنی نوعِ انسان کو اس کرّہ ٔ ارض کا مالک تو بنا ہی ڈالا‘ دوسرے سیاروں پہ کمند ڈالنے کی صلاحیت بھی عطا کی ۔ جینز کو پوری طرح سمجھنے کے بعد ان میں مداخلت سے ممکن ہے کہ ذہانت میں اضافے اور قد کاٹھ سمیت‘بہت سی چیزوں میں ہم مداخلت کے قابل ہو جائیں ۔ 
بیرونِ ملک مقیم ایک خاندان سے ایک دفعہ ملاقات ہوئی تو معلوم ہوا کہ ان کی دو بیٹیوں کے کئی دانت گر پڑے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کی کھال کے بڑے بڑے ٹکڑے اترتے رہتے ہیں ۔ ڈاکٹرز نے بتایا کہ یہ جینز میں ایک خرابی کی وجہ سے ہے‘ جس کا سبب خاندان میں شادی ہے ۔ خاندان میں شادی سے کچھ ذہنی و جسمانی بیماریوں کا تناسب بڑھ جاتا ہے ۔ 2014ء میں سائنسدانوں نے سائبیریاسے دریافت ہونے والی ایک انسانی ٹانگ میں جینز کا کامیابی سے مشاہدہ کیا۔ ایک بوسیدہ ہڈی ماضی کی کتنی ہی داستانیں بتاتی چلی گئی مثلاً یہ کہ آدمی کب افریقہ سے نکل کے یورپ اور ایشیا کی طرف بڑھا اور کب اس کی یورپ میں ایک اور انسانی نسل نی اینڈرتھل مین (Neanderthal Man)سے ملاقات ہوئی۔نی اینڈرتھل مین کے جینز کا مشاہدہ بھی مکمل صحت کے ساتھ کیا گیا ہے ۔ قدرے چھوٹے قد اور بڑے سر والا یہ آدمی 23ہزار سال پہلے ناپید ہو گیا تھا۔ اس کی تباہی کی مکمل تفصیل اب تک سامنے نہیں آسکی۔ استادِ محترم پروفیسر احمد رفیق اختر کا کہنا یہ ہے کہ وہ آدم خور تھااوراس کے ناپید ہو جانے کا سبب یہی تھا۔ ایک قبیلہ دوسرے پہ حملہ آور ہوتا تو اسے کچّا چبا ڈالتا۔ 
انسانی علم میں شاندار اضافے کا ایک سبب وہ جاندار ہیں ‘ اپنی ہلاکت کے بعد جو برف کی تہوں میں دفن ہوگئے (یا برف میں دفن ہو کے مر گئے)۔ اس ضمن میں قدیم ترین جاندار سات لاکھ سال پرانا ایک گھوڑا ہے ۔انسانی علم نہ صرف وسیع ہوتا چلا جا رہا ہے بلکہ نسل درنسل وہ درستگی کے ساتھ منتقل ہورہا ہے ۔کسی او رجاندار میں ایسا ماجرا دیکھنے میں نہیں آیا۔ آسمان کی بلندیوں سے نازل ہونے والی آفات سے لے کر سمندری طوفانوں تک ‘ ایک ایک شے کی حقیقت جاننے کی انسان بھرپور کوشش کر رہا ہے ۔ آپ سمندری طوفانوں ہی کو دیکھ لیجیے ۔ کبھی سمندر کا سفر کرنے والے وہ خوش قسمت ملّاح ایک دوسرے کو ان سمندری آفات سے آگاہ کرتے تھے‘ جن سے بچ نکلنے میں وہ بمشکل کامیاب ہوتے ۔ ریڈیو کی دریافت کے بعد جب وہ بحری جہازوں اور کشتیوں میں نصب ہو اتو کھلے سمندر میں موجود جہازوں سے یہ اطلاعات دور دراز کے ساحلوں تک پہنچنے لگیں ۔ دوسری جنگِ عظیم کے دوران ہوائی جہازوں سے ان سمندری عفریتوں کا جائزہ لیا جانے لگا۔ پھر خلا میں کرّہ ٔ ارض کے گرد گھومنے والے ایسے سیٹلائٹ روانہ کیے گئے ‘ آج جو زمین کے چپے چپے پہ نگاہ رکھے ہوئے ہیں ۔ ساحلوں پہ ریڈار نصب ہیں ۔ جدید ٹیکنالوجی کی بدولت آج انسان سمندری طوفان کی سمت‘ نوعیت‘ شدّت ‘ ہر چیز تو جانتا ہے ۔ امریکی خلائی تحقیقاتی ادارہ ناسا تو 2005ء کے مشہور سمندری طوفان اوفیلیا کے مرکز میں بغیر پائلٹ کے ایک طیارہ بھی اتار چکا ہے ۔
کائنات کے اسرار‘ اپنے اندر کا ماجرااور سب سے بڑھ کر ٹیکنالوجی میں ترقی‘طب کے میدان سے لے کر میدانِ جنگ تک‘ اسی بل پہ مغرب نے ہمیں زیر کر رکھا ہے۔ ایک وقت آئے گا ‘ جب سیاسی و معاشی استحکام کے بعد پاکستان ٹیکنالوجی کے میدان میں قدم رکھے گا۔ ایک دہائی بعد شاید درست طور پر ہمیں اس کا اندازہ ہوگا‘ اس کے بعد جن میدانوں میں شب و روز ہمیں محنت کرنا ہوگی ‘ ٹیکنالوجی ان میں سب سے نمایاں ہوگی۔جن لوگوں کو میری یہ بات خوش فہمی لگے ‘ ایٹمی ہتھیاروں اور میزائلوں سمیت‘ وہ پاکستان کی قابلِ قدر دفاعی ٹیکنالوجی پہ ایک نگاہ ضرور ڈالیں ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved