پروفیسر محمد رفیق افضل گزشتہ ہفتے انتقال کر گئے۔ اس طرح تقریباً نصف صدی کا طویل‘ مختلف جامعات سے وابستہ پیشہ ورانہ تعلق‘ ملک بھر میں تاریخ نویسی کے ادارے اور تاریخ دانوں کے حالات زندگی آنکھوں کے سامنے ایک برقی پٹی کی مانند گزر گئے۔ اگلے روز جھنگ میں اپنی اور سب کی بے ثباتی کا احساس مزید گہرا ہو گیا‘ جب بے بسی کے عالم میں کفن میں لپٹے ایک عظیم مؤرخ کو آخری آرام گاہ میں ان کے عزیزوں کے ہاتھوں اترتے دیکھا۔ ان کی تدفین بھی ان کی زندگی کا عکس تھی... سادگی‘ خموشی‘ تنہائی‘ خلوص‘ محبت اور شفقت کی بے پناہ دولت۔ رفیق صاحب کے بارے میں درس و تدریس سے وابستہ سینکڑوں اساتذہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ ان کے بہترین دوست تھے۔ میرے نہ صرف دوست بلکہ تاریخی اور علمی معاملات میں رہبر بھی تھے۔ جب کبھی کوئی مغالطہ یا ابہام ہوا‘ ان کی طرف رجوع کیا۔ یہ ناچیز ہی نہیں بلکہ ان کے بے شمار شاگرد اور رفقا بھی ان سے ہمیشہ مشاورت کرتے تھے۔
رفیق صاحب اور دیگر مؤرخین سے ملاقات قومی ادارہ برائے تاریخ و ثقافت میں انیس سو چوہتر کے اوائل میں ہوئی تھی۔ اس وقت یہ ادارہ ایک قومی کمیشن کی صورت میں میرے بہت ہی محترم ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے قائم کیا تھا۔ حیران ہوں کہ چند سالوں کے اندر بھٹو صاحب نے جو علمی اور تحقیقی ادارے قائم کیے‘ ان کی مثال پاکستان کی پوری تاریخ میں تو کجا کہیں اور بھی ملنا مشکل ہے۔ شکرپڑیاں میں لوک ورثہ سے لے کر مطالعہ پاکستان اور دنیا کے تمام بر اعظموں اور خطوں کی تحقیق اور تعلیم تک لگ بھگ دس ادارے بنا ڈالے۔ ان کا خیال درست تھا کہ انیس سو ستر کے انتخابات کے بعد جس بحران کا ہم شکار ہوئے‘ نہ دنیا ہمیں سمجھتی تھی‘ اور نہ ہم دنیا کو کچھ بتا سکنے کے قابل تھے۔ اس لئے خود آگاہی اور دنیا تک اپنا پیغام پہنچانے کے لیے ادارے قائم کیے گئے۔ تاریخ نویسی تو فقط نظریہ پاکستان اور 'پاکستان کیوں بنا‘ تک ہی محدود رہی۔ یہ بالکل جائز اور مناسب موضوعات ہیں‘ مگر اس کے علاوہ بھی تو ہماری ہزارہا سال کی تاریخ اور کئی ثقافتی رنگوں کی بہار ہے۔ میں خود مؤرخ نہیں ہوں‘ مگر تاریخ دانی کے بغیر سیاست نہ خود سمجھی جا سکتی ہے‘ نہ ہی اس علم کو گہرائی کے ساتھ پڑھایا جا سکتا ہے۔ میری خوش قسمتی ہے کہ اوائل میں دو نوکریاں بھٹو صاحب کے قائم کردہ اداروں سے ہی شروع ہوئیں۔ صرف نئی نسل کے لوگوں کو آگاہ کرنے کے لیے یہ بتانا ضروری ہے کہ نئی حکومت بنتے ہی بھٹو صاحب نے قومی رضاکار پروگرام شروع کیا تھا‘ جس کے تحت جو بھی کسی جامعہ سے ایم اے کرکے فارغ ہوتا‘ اس کو نوکری مل جاتی۔ دو سو پچاس روپے وظیفہ تھا۔ یقین جانیں اس سے لاہور میں رہنے کے لیے ایک فرد کی کفالت ہو سکتی تھی۔
بات قومی ادارہ برائے تاریخ و ثقافت سے شروع ہوئی تھی۔ اس دور میں کے کے عزیز مرحوم جانے مانے مورخ تھے۔ کئی کتابیں تصنیف کر چکے تھے۔ پاکستان میں نہیں‘ خرطوم یونیورسٹی سوڈان میں استاد تھے۔ بھٹو صاحب زور دے کر ان کو پاکستان لے آئے۔ وہ کئی سالوں کی نوکری اور بہت بڑا مشاہرہ چھوڑ کر نئے پاکستان کی تعمیر کے لیے وطن واپس آ گئے اور اس نئے ادارے کے سربراہ بنے۔ اشتہار آیا تو ناچیز نے بھی درخواست دی اور اس ادارے میں کے کے عزیز کے زیر سایہ اور رہنمائی میں محقق بننے کی مشق شروع کی۔ اس خواہش کے ساتھ ان کے شریکِ سفر ہوئے کہ ہم ان کے علم‘ تجربے اور راہنمائی سے استفادہ کر سکیں۔ انہیں جتنا قریب سے دیکھ سکتے تھے‘ دیکھا‘ مگر وہ انتہائی خلوت پسند شخص تھے۔ کام سے کام رکھتے تھے‘ کبھی فضول بات نہ کرتے‘ بیکار کے کاموں سے رغبت نہ تھی۔ جو محنت اور ریاضت کے کے عزیز نے اپنی زندگی میں کی‘ شاید ہی کسی اور نے کی ہو۔ ان کے بارے میں کبھی تفصیل سے لکھوں گا‘ مگر چند باتوں کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
کے کے عزیز صاحب نے چند برسوں میں ہی اس ادارے کو کھڑا کر دیا۔ رفیق افضل صاحب انہی دنوں کینیڈا کی مشہور یونیورسٹی ٹورنٹو سے تاریخ میں پی ایچ ڈی کرکے آئے تھے۔ ان کے استاد بر صغیر کے مشہور مفکر اور مؤرخ عزیز احمد صاحب تھے۔ عزیز احمد صاحب نے مسلمانوں کی جدیدیت پسندی اور خصوصاً مسلم قومیت کے ارتقا کے موضوع پر جو کچھ لکھا‘ وہ آج بھی کلاسیکی علم کے درجے میں آتا ہے۔ کے کے عزیز صاحب کو معلوم ہوا تو رفیق صاحب کو ادارے میں لے آئے۔ اس وقت بہت کم‘ گنے چنے مؤرخین تھے‘ جو دنیا کی بڑی جامعات سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد پاکستان میں اپنے قومی اداروں کی تعمیر میں مصروف تھے۔ یہ ان کی اپنے وطن سے حُب‘ پاکستان کے نوجوان طلبہ کے ساتھ محبت اور ان کی علمی تربیت کا روشن ثبوت تھا۔ جہاں کہیں بھی مغربی دنیا میں کسی جامعہ میں جاتے تو ان کی پذیرائی ہوتی۔ ضیاالحق کا دور آیا تو کے کے عزیز صاحب بھی زیر عتاب آ گئے۔ انہیں نہ صرف نوکری سے نکالا گیا بلکہ ان پہ ''کرپشن‘‘ کے بھونڈے الزامات بھی لگائے گئے۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس بارے میں ایک ''گم شدہ‘‘ کتاب کے حوالے سے آئندہ کسی کالم میں تفصیل سے بتائوں گا۔ میں خود بہت پہلے ہی اس ادارے کو چھوڑ کر جامعہ پنجاب میں سیاسیات کے شعبے سے وابستہ ہو چکا تھا۔ مجھے یہ کہتے ہوئے قطعاً کوئی عار محسوس نہیں ہوتی کہ کچھ معلوم اور نا معلوم وجوہ کی بنیاد پر نوکری سے نکال دیا گیا تھا۔ خوش قسمتی تھی کہ نکالے جانے سے پہلے جامعہ پنجاب میں لیکچرر کی تعیناتی کا پروانہ ہاتھ میں تھا۔ حالات بدلے تو کے کے عزیز صاحب بے بس ہو چکے تھے۔ کاش وہ اور ان کے کچھ ہم پلہ اساتذہ اس تاریک دور کی نا انصافیوں کا شکار نہ ہوتے۔ رفیق صاحب بھی ادارے کو خیر باد کہہ کر جامعہ قائد اعظم کے تاریخ کے شعبے میں چلے گئے تھے۔ اگلے چالیس سال وہ وہاں درس دیتے اور تحقیق کرتے رہے۔ ایسے تخیلاتی اساتذہ کی پوری ایک فہرست میرے ذہن میں گھوم رہی ہے‘ جو کہیں بھی رہ کر ترقی اور نام کما سکتے تھے‘ مگر انہوں نے پاکستان میں رہ کر اپنوں کی خدمت میں زندگیاں گزار دیں۔ تمام تر نا مساعد حالات‘ تکالیف اور مشکلات کے باوجود خوش رہے‘ بھرپور زندگی گزاری اور سکون قلب اور اطمینان کے ساتھ رہے۔ رفیق صاحب تو ان تمام خاصیتوں کا مرکب تھے۔ صبر‘ استقامت اور استحکام ایسا کہ وہ اپنی مثال آپ تھے۔ ہماری جامعات میں گندی سیاست شروع سے گھسی ہوئی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ان کے پروفیسر کے درجے پہ ترقی پانے کا عمل مکمل ہو گیا تو اس وقت کے ڈین صاحب نے ان کی فائل کئی برسوں تک اپنے دفتر میں دبائے رکھی۔ باہر کے ماہرین ان کی حمایت میں اپنی رپورٹیں بھیج چکے تھے۔ سب کاغذات مکمل تھے۔ آج تک سمجھ نہیں سکا کہ آخر اس غیر سیاسی اور اپنے کام میں مگن رہنے والے بے ضرر‘ ریاضت کیش اور ہر دل عزیز استاد سے انہیں یعنی ڈین صاحب کو کیا چپقلش تھی۔ اگر ہو سکتی ہے تو حسد جیسی نفسیاتی بیماری جو لوگوں کو اندر ہی اندر کھا کر انسانیت کو روح سے کھوکھلا کر دیتی ہے۔ موصوف ڈین صاحب کی دنیا علمی روشنی‘ تحقیق و تالیف اور انصاف پسندی کے جوہر سے خالی تھی۔ رفیق صاحب نے کئی سال انتطار کیا مگر کیا مجال کہ کسی سے کوئی شکایت کی ہو۔ اس دوران وہ کولمبیا یونیورسٹی نیو یارک اور یونیورسٹی آف میساچیوسٹ میں فیلوشپ پہ تحقیق کرتے رہے۔ ان کی کتب اور تاریخ نویسی کے بارے میں لکھنا شروع کروں تو کالم چھوٹا پڑ جائے گا۔ عام قارئین سے تو توقع نہیں کہ وہ کے کے عزیز اور رفیق صاحب کے کام سے واقف ہوں‘ مگر ہمارے حکمران‘ سیاست دان‘ صحافی حضرات اور برقی دانشور کاش تاریخ کے صفحات کو پلٹتے تو انہیں معلوم ہوتا کہ کس عرق ریزی سے کوشش اور عشق کی کیفیت میں انہوں نے سیاسی جماعتوں کی تاریخ کی تین جلدوں کے علاوہ پاکستان کے اوائل کے برسوں کی سیاست پر گزشتہ چند سالوں میں آل انڈیا مسلم لیگ پہ ضخیم تحقیقی کتاب لکھی تھی۔ آخری دو کتابیں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کیں۔ سیاست پر لکھی گئی کتاب کے تو کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ ہزاروں طلبہ اور سینکڑوں اساتذہ کی صورت میں وہ ایسے چراغ روشن کر گئے ہیں‘ جو کئی اور چراغ ہماری آئندہ کی تاریخ نویسی میں جلاتے رہیں گے۔ خدا ان کی لحد کو روشن رکھے۔ آمین۔