تحریر : عمران یعقوب خان تاریخ اشاعت     15-03-2020

یہ نئے مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلے سے ملا کرو!

سوشل میڈیا کے اس دور میں جب کسی سے کچھ کہنا ہو یا سننا ہو تو اس کے لیے اپنی جگہ سے ہلنے کی بھی ضرورت نہیں، کسی کے پیغام کے جواب میں صرف ایموجیز بھجوا دینا معمول ہے۔ پیغام کے جواب میں ایموجیز پانے والے پر منحصر ہے کہ وہ ان سے کیا مطلب اخذ کرتا ہے‘ لیکن اتنا ضرور ہے کہ ان ایموجیز کے ذریعے آج کا انسان خود کو ایک دوسرے سے جڑا محسوس کرتا ہے۔
سوشل میڈیا کے دور کے لحاظ سے زندگی معمول کے مطابق چل رہی تھی لیکن پھر اچانک ایک وائرس آ گیا جس نے انسانوں کو یاد دلایا کہ وہ کون ہیں؟ ''سماجی حیوان‘‘ کورونا وائرس سے نہ صرف کروڑوں انسانوں کی صحت اور زندگی کو خطرہ ہے بلکہ اس سے وہ سماجی بندھن بھی ٹوٹ رہے ہیں جو سماج کو ایک دوسرے کے ساتھ باندھے رکھتے ہیں۔ دنیا بھر میں بڑے بڑے شہر لاک ڈاؤن ہیں۔ کسی کو گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں۔ اٹلی میں گھر سے نکلنے کے لیے پولیس سے اجازت نامہ لینا پڑ رہا ہے۔ بغیر اجازت سڑک پر گھومتے لوگوں کو جرمانے کے ٹکٹ دیئے جا رہے ہیں۔ گھر کی شاپنگ کے لیے خاندان کا صرف ایک فرد باہر جا سکتا ہے۔ شاپنگ سنٹرز میں ایک وقت میں صرف مخصوص تعداد میں گاہک اندر جا سکتے ہیں‘ جنہیں ایک دوسرے سے تین فٹ کا فاصلہ بنائے رکھنا ہے۔ ویسے تو شاپنگ کے لیے آنے والوں کی تعداد بہت کم ہے لیکن ایک وقت میں مخصوص تعداد کی شرط کی وجہ سے شاپنگ مالز کے باہر قطاریں لگ رہی ہیں۔
ایک دوسرے سے مصافحہ کرنا ممکن نہیں رہا۔ اگر کوئی غلطی سے ہاتھ بڑھا دے تو اسے ایسی نظروں سے دیکھا جاتا ہے جیسے اس نے کوئی بھیانک غلطی کر دی ہو۔ پہلے ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر سیلفی بنانے والے اب فاصلہ بنائے رکھنے پر مصر ہیں۔ کھیل کے میدان جو پہلے بھی اتنے مصروف نہیں تھے اب اجڑ چکے ہیں۔ سینما گھروں میں فلمیں تو پہلے بھی کم ہی دیکھی جاتی ہیں لیکن اب کوئی سینما کا رخ کرنے کو تیار نہیں۔ تعلیمی ادارے بند کر دیئے گئے ہیں۔ چھٹیاں ملنے پر بچے صرف اس لیے خوش ہوتے تھے کہ انہیں گھومنے جانے کا موقع ملے گا‘ خوب کھیل کود ہو گی لیکن اب والدین بچوں کو گھروں میں محدود رکھنے پر مجبور ہیں اور بچے بھی ان حالات سے خوش نہیں۔ زندگی کی ہر سرگرمی کا کورونا وائرس کی وبا نے خون کر دیا ہے۔
انسانی فطرت ہے کہ وہ اکیلا رہنے میں خطرہ محسوس کرتا ہے اسی لیے گروہ اور خاندان کی صورت میں رہتا آیا ہے‘ لیکن اب اکیلا رہنے کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ پہلے سماجی رابطے اہم تھے لیکن اب رابطوں سے انسان خوفزدہ ہے۔
کورونا وائرس ایک آفت ناگہانی ہے‘ لیکن اس آفت نے انسانوں کو احساس دلا دیا ہے کہ اکٹھے رہنے کی اہمیت کیا ہے؟ جن چہروں کو روز روز دیکھنے سے بے زاری ہوتی تھی اب وہ چہرے بھی اچھے لگنے شروع ہو جائیں گے۔ اس آفت نے انسانوں کو احساس دلا دیا ہے کہ سماجی حیوان، سماجی تقریبات اور اکٹھ کے بغیر نہیں رہ سکتا اور سوشل میڈیا انسانوں کی اس ضرورت کو ختم نہیں کر سکتا۔ اصل بات یہ ہے کہ انسان جب کسی چیز کو کھونے کے عمل میں ہوتا ہے تو اس وقت اسے اس کا احساس نہیں ہوتا لیکن جب کھو دیتا ہے تو اسے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ کیا ہوا۔
آج کورونا وائرس کی وجہ سے جو حالات دیکھنے کو مل رہے ہیں تاریخِ انسانی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ پاکستان میں جب دہشتگردی عروج پر تھی تب بھی شاید اتنا خوف اور تنہائی نہیں تھی، کیونکہ ایک واردات کے دوران جو افراتفری پیدا ہوتی تھی اس کے چند دن گزرنے کے بعد لوگ نارمل ہو جاتے تھے۔ دہشتگردوں اور خود کش بمباروں کو روکنے کے لیے سکیورٹی چیک پوائنٹس تھے۔ سکیورٹی اہلکار اور نگرانی کے لیے کیمرے تھے۔ لیکن اس آفت کو نہ کوئی چیک پوائنٹ روک سکتا ہے‘ نہ کیمرہ اس کا اندازہ لگا سکتا ہے۔ دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہو کر ایک دوسرے کا سہارا بن سکتے تھے‘ لیکن اس نئی آفت کو روکنے کے لیے دور رہنا لازم قرار پایا ہے۔ دہشت گردوں کا ایک خاص ٹارگٹ ہوتا تھا‘ لیکن یہ وائرس ہر کسی کو بلا تفریق نشانہ بنا سکتا ہے۔ اس کا کوئی ٹارگٹ نہیں لیکن ہر کوئی نشانے پر بھی ہے۔
کرونا سے پیدا ہونے والی صورت حال بالکل انوکھی نوعیت کی ہے جس کے لیے ماضی سے کوئی مثال لی جا سکتی ہے نہ کوئی تجربہ۔ یہ بالکل الگ زمانہ ہے اور بالکل الگ کیفیت۔ اس کیفیت سے ہمیں مل کر نکلنا ہے لیکن در حقیقت اکٹھے بھی نہیں رہنا۔ ایک دوسرے کا خیال رکھنا ہے لیکن پاس نہیں آنا۔ سوشل میڈیا نے ہمیں دور کیا تھا لیکن اب یہی سوشل میڈیا رابطوں کا بھی ذریعہ رہے گا۔ انسان نے سوشل میڈیا کے دور میں اپنی پسند سے تنہائی اختیار کی تھی لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے اس پر اب تنہائی مسلط ہو رہی ہے تو وہ بے چین ہے۔ براہ راست رابطوں پر سوشل میڈیا پیغامات کو ترجیح دینے والا چند دن کی حقیقی تنہائی سے جلد اکتا جائے گا۔ 
ایموجیز کو اظہار کا ذریعہ بنانے والے اب بھی مشکل اور دکھ کے اظہار کے لیے روتے چہروں کی ایموجی بھیجیں گے، لیکن چند لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں ایموجی بھیج کر سکون سے گھر نہیں بیٹھا جا سکتا‘ اور اب کورونا نے لوگوں کو مجبور کردیا ہے کہ وہ کسی کو مشکل میں دلاسہ دینے کے لیے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھنے کی بجائے ایموجی پر گزارہ کریں۔ اب اندازہ ہو گا کہ ایموجیز انسان کے جذبات کا نعم البدل نہیں ہو سکتے۔
کورونا وائرس سوشل میڈیا کے اس دور میں بزرگ شہریوں کے لیے دُہرا عذاب بن کر آیا ہے۔ ان بزرگ شہریوں کو ان کے بچے وقت نہیں دیتے تھے۔ اب تو دور رہنا لازم قرار پایا ہے۔ اس پر کورونا کا زور بھی بزرگ شہریوں پر زیادہ چلتا ہے۔ جو بزرگ شہری پہلے ہی کسی کو ملنے یا دیکھنے کو ترستے تھے اس وائرس نے ان کی تکلیف بڑھا دی ہے۔ نہ ملنے کے بہانے ڈھونڈنے والوں کو ایسا بہانہ ہاتھ آیا ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔
انسان مکمل تنہا نہیں رہ سکتا۔ اسے دوسروں کے ساتھ ہی زندگی گزارنا ہے۔ کئی معاملات میں وہ دوسروں پر انحصار کرتا ہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھ کر باتیں کرنا اور اکٹھے کھانا کھانا انسانوں کی طبعی ضرورت ہے۔ بیماری، دکھ تکلیف میں ایک دوسرے کو تسلی دینا، روتے ہوئے کو کندھا دینا، رونے کے لیے کندھے کی ضرورت، کھیلنا، کام کرنا، اس سب کے بغیر انسان ادھورا ہے۔
کورونا وائرس تو چند ہفتوں میں ٹل جائے گا۔ ان ہفتوں کے دوران جبری تنہائی سے انسان کو بہت کچھ سیکھنا ہو گا۔ یہ ہفتے اس نسل کے ذہنوں میں ہمیشہ محفوظ رہیں گے‘ لیکن انہیں صرف یادوں میں رکھنا یا مٹانا نہیں ہے بلکہ اس تجربے سے بہت کچھ سیکھنا ہے اور اسے آنے والی نسلوں تک پہنچانا ہے کہ خدانخواستہ دنیا پر جب دوبارہ ایسا کوئی وقت آئے تو آنے والی نسلیں اس تجربے سے سیکھیں اور ایسی کسی آفت سے لڑنے کے لیے ان کے پاس مثال موجود ہو۔
ان حالات میں احتیاطی تدابیر پر عمل کرتے ہوئے ہمیں کچھ تنہائی بھی رکھنی ہو گی کچھ فاصلہ بھی رکھنا ہو گا لیکن بطور قوم ہمیں بشیر بدر کے اس شعر کی عملی تفسیر بننا ہو گا: 
فاصلہ تو ہے مگر کوئی فاصلہ نہیں 
مجھ سے تم جدا سہی دل سے تم جدا نہیں 
کورونا وائرس کی وجہ سے شہروں کے مزاج بھی کچھ بدلے ہیں، بشیر بدر نے ہی کہا تھا
کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملو گے تپاک سے 
یہ نئے مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلے سے ملا کرو 
بشیر بدر کی بات میں وزن ہے لیکن ان دنوں اگر کوئی مصافحہ سے گریز کرے تو برا ماننے کی کوئی بات نہیں بلکہ یہ ایک احتیاطی تدبیر ہے جو سب کے بھلے کے لیے ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved