سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا ہے کہ پاکستان سے بھاری مقدار میں ماسک بیرون ملک بھجوا کر لمبا مال بنایا گیا ہے اور وفاقی تحقیقاتی ادارے نے اس کی انکوائری شروع کردی ہے۔گزشتہ کالم میں بھی اسی بات کا رونا رویا تھا کہ جو پوری دنیا میں کہیں نہیں ہوتا وہ ہمارے ہاں ڈھٹائی اور زور وشور سے کیا جاتا ہے۔ اس نازک اور کٹھن وقت میں بھی انارکی پھیلانے والے اپنا چورن لے کر مارکیٹ میں آ چکے ہیں۔کوئی مشیر صحت ظفر مرزا کو موردِ الزام ٹھہرا رہا ہے تو کوئی ڈریپ پر الزامات کی سنگ باری کیے چلے جارہا ہے۔اس حوالے سے چند معلومات شیئر کرتا چلوں جو باخبراور معتبر ذرائع سے مجھ تک پہنچی ہیں۔کورونا وائرس نے ابھی چین میں اپنی تباہ کاریوں کا آغاز ہی کیا تھا کہ چینی سفارتخانے نے اپنے ملک میں ماسک کی قلت اور ہنگامی صورتحال کے پیش نظر پاکستان سے ماسک کی فراہمی کی درخواست کی تھی ‘ جسے بھائی چارے اور خیر سگالی کے تقاضوں کے عین مطابق منظور کرلیا گیا اور فروری کے پہلے ہفتے میں پچیس لاکھ ماسک چین بھجوا دیے گئے۔
پچیس لاکھ ماسکس کی قیمت بڑھا چڑھا کر بھی کیا ہوسکتی ہے؟ اس میں ظفر مرزا نے کیا مال بنایا ہوگا؟ ڈریپ نے اپنا کتنا حصہ وصول کیا ہوگا؟ اور متعلقہ کمپنیوں نے کتنی منافع خوری کی ہوگی؟ ان ریاضی دانوں کی عقل پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے جو ماسک سمگلنگ اور کروڑوں روپے کی کک بیکس کا واویلا کیے جارہے ہیں۔ اگر ایک ماسک کی قیمت پانچ روپے ہو تو کل رقم سوا کروڑاور اگر قیمت ڈبل کرلی جائے تو اڑھائی کروڑ روپے بنتی ہے۔بلیک مارکیٹنگ اور لوٹ مار کی بدترین صورتحال تصور کرلی جائے اور اس ماسک کی قیمت پانچ کی بجائے بیس روپے بھی ہو تو کل رقم پانچ کروڑ روپے بنتی ہے۔ان اعداد و شمار کے ساتھ چھ کروڑ روپے کی کک بیک کون کھا گیا اور کیسے کھا گیا؟
میرا ظفر مرزا سے کوئی لینا دینا ہے نہ ہی میں انہیںذاتی طور پر جانتا ہوں۔ان کے بارے میں یہ ضرور معلوم ہے کہ وہ عالمی ادارۂ صحت میں بہترین خدمات سرانجام دے چکے ہیں اور کورونا کے حوالے سے ان کے اقدامات کو عالمی ادارہ ٔصحت آج بھی سراہتا نظر آتا ہے۔ رہی بات ڈریپ کی تو ڈریپ نے ماسک کی درآمد کے این او سیز ازخود نہیں بلکہ حکومتی سطح پر فیصلے کے بعد جاری کیے تھے۔چائے کی پیالی میں طوفان اٹھانے والے اور سوشل میڈیا پر چورن بیچنے والوں سے گزارش ہے کہ چین نے ہر مشکل گھڑی اور کٹھن وقت میں ہمارا ساتھ دیا ہے۔ زلزلہ ہویا سیلاب‘کوئی ہنگامی صورتحال ہو یا قدرتی آفت‘خارجی محاذ ہو یا داخلی انتشار ‘چین ہمیشہ ہمدرد اور غمگسار بن کر ہمارے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔ہرزہ سرائی اور انارکی پھیلانے والوں کو چورن بیچنے کے لیے کوئی اورہدف تلاش کرلینا چاہیے۔ اس وقت پوری دنیا جان لیوا وائرس کے ہاتھوں مفلوج ہوکر رہ گئی ہے۔لاکھوں لوگ متاثر اور تقریباً چھ ہزار کے قریب ہلاک ہوچکے ہیں ۔یہ وائرس ہمارے ہمسایہ ممالک میں بھی موت بن کر دندناتا پھر رہا ہے‘ جبکہ پاکستان میں بھی اس کے کیسز میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔
یہ مقام استغفار اور توبہ کا ہے چورن بیچنے کا نہیں۔ہمارا ملک بھی عجیب ہے کہ کسی اعلیٰ سرکاری افسر سے لے کر پٹواری تک کسی پر کوئی الزام لگادیں‘ کلک کرکے فٹ بیٹھ جاتا ہے اور ہر خاص و عام اس پر اس طرح یقین کرلیتا ہے گویا اس سے بڑا کوئی سچ ہو ہی نہیں سکتا۔مفروضوں اور گمراہ کن اعداد و شمار پر کیسا کیسا چورن بیچا جاتا ہے‘کیسی کیسی تہمتیں اور الزام تراشیاں کی جاتی ہیں کہ واقفانِ حال بھی شکوک و شبہات کا شکار ہوجاتے ہیں ۔سارا ملک ہی بریفنگ اور ڈی بریفنگ پر چل رہا ہے۔ زمینی حقائق سے بے پروا‘ ہرکوئی اس پروپیگنڈا کا حصہ بنتا چلا جاتا ہے اور سینہ گزٹ سے وہ کچھ پھیلا دیا جاتا ہے جس کی تردید اور صفائی دیتے بھلے کوئی ہلکان ہوجائے ‘کوئی اس کی بات پر کان دھرتا ہے نہ ہی یقین کرتا ہے۔ یعنی جھوٹ اتنی شدت اور یقین سے بولو کہ سچ بھی منہ چھپاتا پھرے۔
دور کی کوڑی لانے والے ظفر مرزا کو عامر کیانی سے جوائنٹ کرنے کی سر توڑ کوشش میں مبتلا ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ پہلے عامرکیانی نے ڈریپ کو استعمال کرکے لمبی چوڑی دیہاڑی لگائی اور برطرفی کا طوق گلے میں لے کر کابینہ سے نکالے گئے۔اب وہی چیمپئنز ظفر مرزا کے خلاف برسر پیکار ہیں ‘لیکن اس مرتبہ وہ اس پروپیگنڈا میں کامیاب یقینا نہیں ہوسکتے کیونکہ ظفر مرزا کو عامر کیانی سے ملاناعقل دشمنی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔البتہ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ انصاف سرکار والوں کے پاس کوئی آلہ یا ایسا مقناطیس ضرور ہے کہ نجانے کہاں کہاں سے ایسا ایسا سقراط اور بقراط نکال لاتے ہیں‘ جو فیصلہ سازی اور مشاورت کے نام پر حکومت کو سبکی اور جگ ہنسائی سے دوچار کرڈالتا ہے۔
وزیر ہو یا مشیر‘قریبی رفقا ہوں یا مصاحبین ‘سبھی ملک و قوم کے لیے آزمائش بنتے چلے جارہے ہیں۔آپس میں ایک ریس اور مقابلے کا سماں ہے کہ کون بڑا بلنڈر مارتا ہے‘کون کتنی جگ ہنسائی اور کتنی بڑی پسپائی کا باعث بنتا ہے۔ الغرض اس دوڑ میں ہرکوئی سرپٹ دوڑے چلا جارہا ہے۔ انہیں ایسے ایسے اداروں کی باگ ڈور سونپ دی گئی ہے کہ نہ صرف وہ ادارے اپنے اصل کام سے گئے بلکہ ادارے کے ساتھ قانون اور ضابطے کی موت کے ذمہ دار بھی یہی چیمپئنز نظر آتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ نجانے کون سا چمتکار ہے کہ جناب وزیراعظم بھی اکثر ان کے فیصلوں کی توثیق اور ہاں میں ہاں ملاتے نظر آتے ہیں۔پاکستان ٹیلی ویژن کو ہی لے لیجئے۔اس تاریخی قومی ورثے کو کن حالات میں پہنچا دیا گیا ہے۔پی ٹی وی میں وسیع کاروباری مفادات رکھنے والے وینڈر کو بورڈ کا ڈائریکٹر بنا کر بددیانتی اور اجارہ داری کی وہ مثال قائم کی ہے کہ سننے اور دیکھنے والے سر پیٹ رہے ہیں۔
حیران کن امر یہ ہے کہ پی ٹی وی میں بھاری تنخواہوں پر ہونے والی خلاف ِضابطہ بھرتیوں اور دیگر بدعنوانیوں پر نوٹس لینے کے بجائے الٹا سردھنا جاتا ہے۔ چند روز قبل پی ٹی وی بورڈ کا اجلاس ایوان ِوزیراعظم میں طلب کیا گیا‘جس کا مقصد صرف یہ تاثر اجاگر کرنا تھا کہ پی ٹی وی چلانے والے چیمپئنز وزیراعظم کے نہ صرف قریبی اور چہیتے ہیں بلکہ انہیں کھلی چھٹی بھی حاصل ہے۔اس اجلاس میں پی ٹی وی میں جاری بدعنوانیوں اور من مانیوں پر اگر کسی نے مزاحمت اور لب کشائی کی کوشش کی تو اسے شٹ اپ کال کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں عطاالحق قاسمی کی کنگھیوں ، بالٹیوں اور پروگرام کو لے کرتنقید کا طوفان اٹھانے والوں کوپی ٹی وی میں ہونے والی وارداتیں کیوں نظر نہیں آتیں؟بدعنوانیاں اور من مانیاں اپنی جگہ لیکن پی ٹی وی پر قابض ٹیلی کام مافیا کے زیر انتظام چلنے والی نشریات ناصرف غیر معیاری ہیں بلکہ پی ٹی وی کے شایان شان بھی ہرگز نہیں‘جبکہ جن پی ٹی وی سینٹرز پر کبھی گہما گہمی اور رونقیں ختم نہیں ہوتی تھیں آج وہ ویران ہیں اور بھوت بنگلے کا منظر پیش کرتے نظر آتے ہیں۔
بعید نہیں کہ آنے والے دنوں میں وزیراعظم کو یہ بریفنگ بھی دی جائے کہ پی ٹی وی خسارے کا شکار ہے اور ان حالات میں اسے مزید چلانا مناسب نہ ہوگا‘لہٰذا اس کی نجکاری میں کوئی مضائقہ نہیں ۔اور پھر عین ممکن ہے کہ یہی ٹیلی کام مافیا بالواسطہ یا بلا واسطہ اس عظیم قومی ورثہ پرہاتھ صاف کرجائے ‘ جس کی منصوبہ بندی ان کے فیصلوں اور اقدامات سے صاف جھلک رہی ہے۔اسی طرح کئی اور ادارے ایسے ہیں جن پر انصاف سرکار کے ذاتی رفقا اور مصاحبین پل رہے ہیں۔ کئی اداروں میں سیاسی تقرریاں اور تعیناتیاں سر پیٹنے کا باعث ہیں۔بزدار سرکار وزیراعلیٰ شکایت سیل کی فرنچائزیں شہر شہرکھول رہی ہے۔نامعلوم اہلیت اور متنازعہ شہرت کے حامل افراد کو ان فرنچائزوں کا سربراہ بنایا جارہاہے‘ ایسے میں ان شکایات سیلزمیں کیسی داد رسی اور کہاں کی شنوائی؟حال ہی میں وزیراعلیٰ سیکرٹر یٹ میں قائم شکایت سیل کیوں سربمہر ہوا ؟ اس کے ذمہ دار کون تھے اور انہیںکون سی خدمات کے عوض تعینات کیا گیا‘ جس کی قیمت حکومت نے بدنامی اور جگ ہنسائی کی صورت میں چکائی ہے؟جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے۔