نا اہل حکومت نے ملک کے ہر طبقے سے جنگ چھیڑ رکھی ہے: رانا تنویر
چیئر مین پی اے سی رانا تنویر حسین نے کہا ہے کہ ''نا اہل حکومت نے ملک کے ہر طبقے سے جنگ چھیڑ رکھی ہے‘‘ حالانکہ اپنے دور میں ہم نے صرف عوام سے جنگ چھیڑی ہوئی تھی ‘تا کہ وہ ہمارے کام میں کسی قسم کی مداخلت نہ کریں‘ کیونکہ اس کام میں زیادہ سے زیادہ یکسوئی درکار ہوا کرتی ہے اور اس احتیاط کے نتیجے میں ہی وارے نیارے ہو گئے تھے اور کان پڑی آواز بھی سنائی نہیں دیتی تھی‘ جس میں شاید ہمارے کانوں کا نقص بھی شامل ہو‘ کیونکہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آواز کان میں پڑ بھی جائے اور سنائی بھی نہ دے‘ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ محض اس بے مقصد محاورے کی حد تک ہی درست ہے اور یہ محاورے ہی ہیں‘ جنہوں نے ساری قوم کو گمراہ کر رکھا ہے اور جونہی آئندہ ہماری حکومت آنی ہے‘ سب سے پہلے ان محاوروں ہی کا قلع قمع کریں گے‘ جو خواہ مخواہ بات کا بتنگڑ بنا دیتے ہیں۔ آپ اگلے روز مریدکے میں مقامی پریس کلب کے وفد سے ملاقات کر رہے تھے۔
شک کی بنیاد پر ٹیسٹ نہ کرائیں‘ جلد کِٹس ختم ہو جائیں گی: ظفر مرزا
وزیر مملکت برائے صحت ظفر مرزا نے کہا ہے کہ ''شک کی بنیاد پر ٹیسٹ نہ کرائیں‘ جلد کِٹس ختم ہو جائیں گی‘‘ بلکہ ٹیسٹ اس وقت کرائیں جب وائرس‘ اچھی طرح اپنا قبضہ جما چکا ہو‘ لیکن اس سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ‘کیونکہ زندگی اور موت صرف اللہ میاں کے ہاتھ میں ہے اور جس کی موت اس وائرس کی بناء پر ہونی ہے‘ وہ کسی دوسری بیماری سے ہرگز نہیں مرے گا‘ جبکہ دنیا تو ویسے بھی دکھوں کا گھر ہے اور اس سے جتنی جلد نجات حاصل ہو کر لینی چاہیے‘ بجائے اس کے کہ کسی روڈ ایکسیڈ نٹ سے آپ کا خاتمہ ہو‘ کیونکہ اس صورت میں تو وہ حالت ہو جاتی ہے کہ لاش کے وارث اسے پہچان ہی نہیں سکتے‘ جبکہ وائرس زدہ شخص کی لاش کی شناخت کوئی مسئلہ ہی نہیں ہوتا اور اگر علاج گھر ہی میں کرایا جائے‘ تو کئی دیگر عزیز بھی آپ کے ہم سفر بننے کو تیار ہو جاتے ہیں اور آپ اکیلے جانے کی ناگواری سے بچ جاتے ہیں‘ بلکہ اس کے کئی مزید فوائد بھی ہیں۔ آپ اگلے روز مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ٹویٹر پر ہدایات جاری کر رہے تھے۔
گھر گھر کورونا ٹیسٹ کیے‘ وفاق سندھ سے سیکھے: نفیسہ شاہ
پاکستان پیپلز پارٹی کی مرکزی رہنما نفیسہ شاہ نے کہا ہے کہ ''گھر گھر کورونا ٹیسٹ کیے‘ وفاق سندھ سے سیکھے‘‘ بلکہ اس کے علاوہ بھی وفاق کو سندھ سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے اور جو کراچی اور پورے سندھ کا حال ہم نے کر رکھا ہے‘ اس سے بھی سیکھنے کی ضرورت ہے‘ تا کہ ملک بھر میں مساوات کی فضا قائم ہو سکے اور جن میں چائنا کٹنگ سرفہرست ہے ‘بلکہ اس سے بھی بڑھ کر کچرا کنڈی ہے اور کراچی نظر ہی نہیں آتا‘ ہر طرف کچرے ہی کچرے کی بہار لگی ہوئی ہے؛ حتیٰ کہ ان سب سے بھی بڑھ کر‘ ہماری حکومت اور حکمرانوں سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے‘ جن کے دم قدم سے آدھے کراچی پر ان معززین کا قبضہ ہے اور جو محض حفاظت کی خاطر ہے ‘تا کہ کسی اور کا تسلط قائم نہ ہو سکے‘ علاوہ ازیں پینے کے پانی کا مسئلہ ہے‘ جو کہ صرف قیمتاً دستیاب ہے‘ بلکہ مخصوص علاقوں میں تو قیمتاً بھی نہیں ملتا‘ تا کہ لوگ پانی پی پی کر حکومت کو کوسنے سے باز رہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
تبدیلی لانے والے تباہی لانے کی کوشش کر رہے ہیں: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی ‘پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''تبدیلی لانے والے تباہی لانے کی کوشش کر رہے ہیں‘‘ اگرچہ تباہی بھی تبدیلی ہی کی ایک شکل ہوتی ہے اور اگر بڑی تبدیلی ہو تو اسے بڑی تباہی بھی کہا جا سکتا ہے‘ تاہم میری ہر روز کی تقریر میں کوئی رخنہ انداز ی نہیں ہونی چاہیے‘ کیونکہ جو تبدیلی اپنی تقریر کے ذریعے میں لانا چاہتا ہوں‘ وہ اس سے بھی بڑی تبدیلی ہوگی ‘بلکہ شاید اس تبدیلی سے بھی بڑی تبدیلی ہے ‘جو حکومت لانا چاہتی ہے‘ جبکہ وہ تباہی لا رہی ہے ‘ یہی وجہ ہے کہ مجھے کئی بار احساس ہوا ہے کہ میری تباہی کی وجہ بھی حکومت ہے‘لیکن میں نے اس کا برا نہیں مانا‘ بلکہ مجھے خود کئی بار اپنے تباہ ہونے کا احساس ہوا ہے‘ لیکن میں اسے اصلاح کرنا سمجھتاہوں‘ کیونکہ اگر میری کوئی اور بات اب تک صحیح ثابت نہیں ہوئی تو یہ کیسے ہو سکتی ہے؟ اسے جھوٹی تباہی کی حد تک تسلیم کیا جا سکتا ہے ۔ آپ اگلے روز ہالہ کے نواحی مدرسہ ''منصورہ‘‘ میں علما کی دستار بندی کی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں الیاس ؔبابرؔ اعوان کی شاعری:
پھول نکلے تو ہیں دیوار سے‘ کم نکلے ہیں
زندگی ہم ترے معیار سے کم نکلے ہیں
ہم کو آئینے میں کچھ اور دکھایا گیا ہے
ویسے بھی ہم ترے آزار سے کم نکلے ہیں
ابھی دو چار ہی آنسو ہیں مری پلکوں پر
یہ پرندے ابھی اس غار سے کم نکلے ہیں
میں نے اک تصویر خریدی
ہو گئیں سب دیواریں خالی
چوکیدار سا دل ہے میرا
بھرے پُرے دن‘ راتیں خالی
پہلے اس میں تو رہتا تھا
اب سینے میں سانسیں خالی
لوگ ہوئے قیدی ملکوں کے
آتی ہیں پروازیں خالی
بچھڑ تو جائیں گے‘ پہلے سے ہم نہیں رہیں گے
مگر یہ بات ہے لوگوں کو غم نہیں رہیں گے
یہی تو بات کسی نے مجھے بتائی نہ تھی
جو ساتھ چلتے ہیں وہ ہم قدم نہیں رہیں گے
آج کا مطلع
رخِ زیبا اِدھر نہیں کرتا
چاہتا ہے‘ مگر نہیں کرتا