کرۂ ارض پر''کورونا وائرس‘‘ موضوع بحث ہے۔ یہ وائرس لگ بھگ دنیا کے 155 ممالک میں سرایت کر چکا ہے ‘جس کے باعث عالمی معیشت، تجارت، کھیل سمیت زندگی کا ہر شعبہ بری طرح متاثر ہو اہے۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) اسے عالمی وبائی مرض بھی قرار دے چکاہے۔کئی ممالک میں لاک ڈاؤن اور کئی دیگرریاستوں میں احتیاطی تدابیر اختیار کی جا رہی ہیں۔وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد میں دن بدن اضافہ دیکھنے کو ملا۔عالمی وبا قرار دیے جانے کے بعد دنیا کی متعدد حکومتوں نے ہنگامی اقدامات تیز کر دیے ہیں۔ماضی کی قوموں کا ذکرکریں تووہ ایک چھوٹے سے علاقے میں آباد تھیں اور ان کی آبادی چند لاکھ سے زیادہ نہ رہی ہوگی‘ لیکن آج تو بڑی بڑی آبادی کے ملک اور قومیں ہیں، تو اب ہم ان قصوں کا انطباق آج پر کیسے کرسکتے ہیں؟وبائی امراض کے حملے اور مشکل وقت ان پر بھی آیا‘مگر انہوں نے محدود وسائل کے ساتھ ان کا سامنا کیا اور دوبارہ اپنے پا ئوں پر کھڑی ہوئیں۔آج ہمارے پاس احتیاطی تدابیر اوروسائل موجود ہیں۔طب کے میدان میں ترقی کون نہیں جانتا‘مگر پھر بھی ایک خوف کی فضا ہے جو چار سو پھیلی ہوئی ہے۔یقینا یہ وقت بھی گزر جائے گا۔یہ وقت خوف میں مبتلا ہوکر ہاتھ پر ہاتھ دھرے رہنا کا نہیں‘بلکہ احتیاطی تدابیر اپنا کر کورونا کوشکست دینے کا ہے۔گزشتہ دہائی میں مملکت خداداد ایک کے بعد ایک وبائی بیماری کا شکار ہوئی۔بڑھتی ہوئی آبادی،گلوبل وارمنگ،قدرتی آفات اور گندگی سے نمٹنے سے انکار کے نتیجے میں ملک میں متعددامراض نے جنم لیا۔
ڈینگی ایک انجان بیماری تھی‘ مگر دیکھتے ہی دیکھتے اس نے پورے ملک کو لپیٹ میں لے لیا۔ گزشتہ سال کی دستاویز کے مطابق ملک بھر میں ڈینگی کے 44 ہزار415 کیسز کی تصدیق ہوئی جبکہ 66 افراد مچھروں سے پھیلنے والی اس بیماری کے باعث جان کی بازی ہار گئے۔اسی طرح2013 ء میں خسرہ کی وبا نے سر اٹھایا۔2012 ء کے اوائل میں 25ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے۔ سندھ کے بعد یہ وبا پنجاب میں تیزی سے پھیلی جس میں 570 افراد کی موت واقع ہوئی۔2013ء کے وسط تک بلوچستان بھی اس کی زد میں آچکا تھا‘مگر وقت گزر گیا اور ہم نے ان پر قابو پایا۔اسی طرح اللہ نے چاہا تو کورونا پر بھی قابو پالیں گے۔اگر پاکستان کا موازنہ دوسرے ممالک سے کریں ‘ان کی نسبت بروقت حفاظتی اقدامات کی بدولت ہم اسے پھیلنے سے روکنے میں فی الوقت کامیاب رہے ہیں۔
کورونا تو ختم ہوجائے گا ‘مگر اپنے اثرات کئی سالوں تک چھوڑ جائے گا۔چین میں کورونا وائرس کی اطلاعات کے فوراً بعد ہی جہاں بین الاقوامی سٹاک مارکیٹس پر اس کے منفی اثرات دیکھے گئے، وہیں پاکستان سٹاک ایکسچینج بھی محفوظ نہ رہ سکا۔ جہاں اس گراوٹ میں افراط زر کی بلند شرح کا بڑا عمل دخل رہا وہیں چینی معیشت اور سٹاک میں بدترین مندی کو بھی اس کی ایک وجہ قرار دیا گیا۔پاکستان اور چین دونوں قریبی دوست اور تجارتی پارٹنر ہیں‘ دونوں کے درمیان باہمی تجارت کا حجم 15 سے 16 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ پاکستان بڑی تعداد میں چین سے اربوں ڈالر کی مشینری اور پرزہ جات درآمد کرتا ہے‘ جبکہ چین کے لیے پاکستان کی برآمدات کی مالیت بھی تقریباً 2 ارب ڈالر سالانہ ہے۔ صورتحال مزید تشویش ناک ہوتی ہے تو ہماری درآمدات بھی اس سے متاثر ہوں گی۔ اس وقت بھی پاکستان میں چین سے آنے والے قلیل سامان کی سخت جانچ پڑتال کی جارہی ہے۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ درآمد بالکل ہی روک دی جائے۔پاکستان اور چین کے درمیان آزاد تجارتی معاہدے کے دوسرے مرحلے کا آغاز رواں سال جنوری سے ہی ہوا۔ امید کی جارہی تھی کہ باہمی تجارت کا حجم مزید بڑھ کر 20 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا‘مگر حالات اب خطرے کی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔آزاد تجارتی معاہدے سے کافی امیدیں وابستہ تھیں۔ دونوں ممالک باہمی تجارت بڑھانے میں کافی سنجیدہ بھی ہیں ‘لیکن چین کی موجودہ صورتحال میں رعایتی ٹیرف میں اشیا کی درآمد اور برآمد ایک بڑا مسئلہ بن کر سامنے آئی ہے۔
چینی مصنوعات دیگر ممالک کی نسبت سستی اور معیاری تصور کی جاتی ہیں‘خصوصاً پاکستان جیسے ملک میں انہیں خاص اہمیت حاصل ہے۔چین سے خام مال سمیت درآمدی اشیا کی بندش سب سے بڑا مسئلہ بن سکتا ہے۔ کورونا وائرس سے پاکستان میں موبائل فون انڈسٹری بھی متاثر ہو رہی ہے۔ موبائل فون انڈسٹری کے ذمہ داروں کے مطابق چینی کمپنیوں کے دفاتر ابھی تک بند ہیں۔ پاکستان میں کام کرنے والی درجنوں چینی موبائل فون کمپنیوں نے مزید آرڈر لینے کے حوالے سے ابھی کوئی لائحہ عمل نہیں بنایاگیا۔اسی طرح چین سے صنعتوں کے لیے درآمدی ڈلیوریز روک دی گئی ہیں۔ اگر کیمیکلز، خام مال نہیں آیا، مال مزید عرصہ تک رکا رہا تو صنعتوں کے لیے چلنا مشکل ہوجائے گا۔ صنعتوں میں پیداوار متاثر ہونے سے بے روزگاری میں اضافے کے خطرات بڑھ جائیں گے۔ٹیکسٹائل انڈسٹری پر بھی اس کے گہرے اثرات پڑے ہیں۔متبادل مارکیٹس تلاش کی جارہی ہیں مگر وہ نہایت مہنگی پڑ رہی ہیں۔ اس وقت تو صنعت کاروں کے پاس سٹاکس موجود ہیں جبکہ کئی آئٹمز بھی مقامی سطح پر تیار ہو رہی ہیں‘ مگر یہ قلیل مدتی فائدہ ہے۔جیسے ہی یہ سٹاک ختم ہو گا اور مقامی مینوفیکچررز کی طلب، رسد کے مقابلے میں کم ہو جائے گی تو انڈسٹری پر تباہ کن اثرات پڑیں گے۔ برآمدات پر بھی اس کا منفی اثر پڑنے کے خدشات موجود ہیں۔ہم ایک زرعی ملک ہیں‘ہماری فصلوں کے لیے خطرناک بیماریوں سے لڑنے کے لیے مختلف زرعی کمپنیوں کا خام مال(کیمیکلزیافارمولہ جات) چین سے درآمد کیا جاتا ہے۔موسم تبدیل ہونے کو ہے ‘جراثیم کش زرعی ادویات کی طلب اور رسد پوری نہ ہونے کے باعث ہمیں کئی دشواریوں کا سامنا کرناپڑ سکتا ہے۔ کورونا آخر کار ختم ہو جائے گا ‘ ہمیں صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے مگر اس کے ساتھ ساتھ مستقبل کے حوالے سے بھی اقدامات وقت کی ضرورت ہیں۔