امریکہ کی ریاست ڈیلیور میں زبیر بھائی نے مجھے کہا: چلیں آپ کو ایک جگہ دکھاتے ہیں۔
میں نے زندگی میں بہت بچے دیکھے ہیں‘ جو اپنے والدین کی بہت خدمت کرتے ہیں‘ لیکن مجھے کہنے دیں کہ جتنا میں نے ڈاکٹر عاصم صہبائی اور زبیر بھائی کو اپنے والدین کی خدمت کرتے دیکھا ہے ویسا کسی اور کو نہیں دیکھا۔ زبیر بھائی‘ جن کا تعلق سیالکوٹ سے ہے‘ برسوں پہلے امریکہ گئے اور خود کو اپنے پیروں پر کھڑا کیا۔ جو محنت انہوں نے کی وہ اپنی جگہ ایک کہانی ہے۔ بھائی بہنوں کو بھی کھڑا کیا۔ کسی دن ان کی پوری کہانی لکھوں تو اندازہ ہو کہ دنیا میں لوگ کہاں سے اٹھ کر کہاں پہنچ گئے اور خدا نے ان لوگوں کو ان کی محنت کا کیا صلہ دیا۔
ہنس کر کہنے لگے: ایک بات بتائوں‘ میرے بچے میری ایک بات کا مذاق اڑاتے اور ہنستے ہیں۔ میں نے کہا: وہ کیا؟ بولے کہ جب وہ سیالکوٹ میں رہتے تھے تو سولہ برس تک انہوں نے ایک جنرل سٹور چلایا اور اماں کے ساتھ مل کر بہت محنت کی تھی۔ اور تو اور جس دن ان کی شادی تھی‘ وہ دس بجے تک سٹور پر بیٹھے تھے‘ پھر اس کو بند کیا‘ گھر گئے‘ تیار ہوئے اور بارہ بجے دن بارات کے ساتھ دلہن لینے چلے گئے۔ دلہن کو بارات کے ساتھ اپنے گھر چھوڑا اور وہاں سے وہ سیدھے سٹور پر آ گئے اور سٹور کھول کر بیٹھ گئے۔ یہ سن کر میری بھی ہنسی نکل گئی۔ ان کے اپنے بچے بھی ہنسنے لگے۔ میں نے از راہ تفنن کہا: زبیر بھائی آپ نے تو ہمارے پیارے شیخ اور میمن بھائیوں کو بھی شکست دے دی۔ زبیر بھائی ہنس کر بولے: گاہکوں کا خیال تھا کہ دکان بند دیکھ کر مایوس ہوں گے۔ ویسے بھی دن کی شادی تھی‘ میں نے سوچا‘ جب تک گھر اور محلے دار اپنی اپنی رسمیں پوری کریں میں گھر بیٹھ کر کیا کروں‘ بہتر ہے سٹور پر بیٹھ جائوں۔ میں نے کہا: زبیر بھائی کچھ بھی کہیں آپ کے بچوں کا آج ہنسنا تو بنتا ہے کہ لوگ ہنی مون پلان کرتے ہیں اور ابا حضور سٹور پر جا بیٹھے۔ وہ خود ہنسنے لگ گئے۔ کہنے لگے: یہاں کے لوگ ہمارے جیسے پاکستانیوں سے بہت جلتے ہیں کیونکہ وہ یہ بات ہضم نہیں کر پاتے کہ ہم سانولے رنگ کے لوگ ہزاروں میل دور سے آ کر ان سے بہتر زندگیاں گزار رہے ہیں۔ اس لیے محکموں کو ہماری شکایتیں لگاتے ہیں اور ہم انکوائریاں بھگتتے ہیں۔
مجھے اکثر پاکستان سے باہر سیالکوٹ کے لوگ ملتے ہیں اور یقین کریں کہ ان لوگوں میں محنت کرنے کی کچھ ایسی خوبیاں ہیں جو باقیوں میں کم نظر آتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ پاکستان کے دیگر لوگ قابل نہیں یا انہوں نے امریکہ یا یورپ جا کر محنت کرکے اپنی جگہ نہیں بنائی۔ شاید میرا واسطہ سیالکوٹ کے لوگوں سے زیادہ پڑا ہے۔ عارف سونی بھی ان چند لوگوں میں سے ہیں جنہیں دولت یا ترقی نے ایک گھنے اور پھلدار درخت کی طرح جھکایا ہوا ہے۔
زبیر بھائی بتانے لگے کہ انہوں نے یہاں کچھ زمین خریدی ہے جس پر اپنا گھر بنانا چاہتے ہیں۔ میں نے پوچھا جہاں رہتے ہیں یہ بھی اچھی جگہ ہے پھر کیوں نیا گھر؟
اپنے گھر سے کچھ دور ایک سڑک کے کنارے سے انہوں نے گاڑی اندر موڑ دی اور اچانک میں نے خود کو ایک جنگل کے درمیان پایا۔ بالکل ایک فلمی سین سا لگا۔ فلموں میں دیکھتے ہیں کہ آپ اچانک ایک دنیا سے دوسری دنیا میں ٹرانسپورٹ ہو گئے ہیں۔میں کچھ دیر گاڑی میں بیٹھا اس منظر کو انجوائے کرتا رہا۔ ہر طرف دور دور تک پھیلے درختوں کو اپنے اندر محسوس کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ مجھے ہمیشہ سے جنگل، جھاڑیوں اور پگڈنڈیوں کے درمیان دور دور تک چلنا بہت اچھا لگتا تھا۔
امریکہ کے اس جنگل میں کھڑے ہوئے مجھے برسوں پہلے کروڑ لیہ روڈ پر وہ جنگل یاد آیا جس کے درمیان سے سڑک گزرتی تھی اور ایک نہر بھی۔ اس سڑک اور نہر کے دونوں اطراف گھنے جنگل دور دور تک پھیلے ہوئے تھے۔ میں گائوں سے صبح سویرے بس لے کر لیہ پہنچتا اور پھر لیہ سے کروڑ سکول پہنچنے کے لیے ویگن پر بیٹھتا اور میری کوشش ہوتی ونڈو والی سیٹ ملے تاکہ راستے میں اس جنگل کو دیکھ سکوں جس کے درمیان سے یہ سڑک گزرتی تھی۔ میں انتظار کرتا کہ کب باغ والا سٹاپ عبور کرنے کے بعد ویگن اس جنگل کے درمیان سے گزرے گی اور ساتھ دور تک جاتی نہر اور اس میں خاموش پانی اپنے نامعلوم سفر کی طرف رواں دواں نظر آئے گا۔ کبھی کبھار میرا دل چاہتا‘ میں یہیں اتر جائوں اور دور تک اس جنگل میں اکیلا چلتا ہی جائوں۔
جاڑے کے موسم میں جب ہر طرف پت جھڑ کا موسم عروج پر ہوتا تو اس جنگل کی اداسی اور تنہائی مجھے اپنے اندر دور تک محسوس ہوتی۔ میرا دل چاہتا اس ویگن کا چند منٹ کا اس جنگل میں سفر کبھی ختم نہ ہو اور یہ سب تنہائی اور اداسی میں اپنے اندر سمو لوں۔ پتہ نہیں کتنے زمانے اس جنگل اور اس کے درختوں، جھاڑیوں اور پرندوں نے دیکھے تھے۔ کتنے راز یہ قد آور درخت اپنے اندر چھپائے کھڑے تھے۔
دوپہر کو سکول واپسی پر پھر میری کوشش ہوتی کہ ونڈو سیٹ ملے تاکہ چند لمحے پھر انجوائے کر سکوں۔ جب خزاں کے بعد بہار آتی تو یہ جنگل ایسا ہرابھرا ہوتا کہ آنکھیں بھر جاتیں۔ ہر درخت ایک خوبصورت دوشیزہ کی طرح لگتا‘ جو نئی نئی دلہن بنی ہو اور اسے خوبصورت کپڑوں اور زیورات سے لاد دیا گیا ہو اور وہ ہر ایک کو بڑے فخر سے وہ پوشاکیں دکھا رہی ہو۔
میں نے ایک دن فیصلہ کیا کہ جب بڑا ہو جائوں گا تو اس جنگل کے اندر دور تک اکیلا چلوں گا‘ اور جب ایک دن وہ موقع آیا اور اپنی گاڑی پر میں نے کروڑ کی طرف سفر شروع کیا تو وہ سنسنی آج تک نہیں بھولی۔ جب اس موڑ پر پہنچا جہاں سے نہر چلتی تھی اور جنگل شروع ہوتا تھا تو ایک ایسا صدمہ ہوا جس کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔ وہ جنگل جو میرے خوابوں میں تھا وہ اب دور دور تک کہیں نہیں تھا۔ میں نے مشکل سے گاڑی سڑک سے اتار کر نہر کے کنارے پارک کی۔ گاڑی سے اترا تو یوں لگا جیسے کسی عزیز کی موت ہو گئی ہو۔ ٹمبر مافیا ایک ایک درخت کاٹ کر لے گیا تھا۔ وہاں کچھ دور چند درخت کھڑے تھے جیسے اپنوں کی موت کا ماتم کر رہے ہوں۔ اپنے پیاروں کا سوگ منا رہے ہوں۔ میرا دل چاہا ان درختوں کے ساتھ گلے لگ کر ان کے دکھ میں شریک ہو جائوں۔
اب امریکہ میں اس جنگل کے درمیان میں زبیر بھائی کے ساتھ کھڑا اس کروڑ کے جنگل کو یاد کر رہا تھا۔ مجھے پتہ نہ تھا برسوں بعد میری جنگل میں دور تک پیدل چلنے کی خواہش پوری ہو رہی تھی۔ کچھ حیران ہوا کہ زبیر بھائی کو کیسے پتہ چلا کہ جنگلوں میں چلنا میری چند خواہشات میں سے ایک ہے لہٰذا وہ مجھے یہاں ایک جنگل میں لے آئے تھے۔ میری حالت سے بے خبر وہ بولے: یہ جنگل ابھی خریدا ہے اور اب اس پر گھر بنانا چاہتا ہوں۔
میں نے کہا: اس کا مطلب ہے‘ یہ سب جنگل آپ کاٹ دیں گے۔ اپنے اندر تک اداسی کی ایک لہر پھر تیزی سے گزر گئی۔ کروڑ کے اس جنگل کی حالت پھر آنکھوں میں ابھری۔ سوچا‘ یہ کیا ٹریجڈی ہے کہ ایک اور جنگل کٹ جائے گا تاکہ انسان بس سکیں۔ مجھے خاموش دیکھ کر بولے: نہیں نہیں۔ میں یہ جنگل نہیں کاٹ سکتا۔ مجھے تو خود جنگل بہت پسند ہیں۔ جنگل میں گھر بنانے کا پرانا خواب تھا۔ اب جا کر اچانک یہ جنگل فروخت ہو رہا تھا۔ میں نے خرید لیا۔ بس کسی صاف جگہ گھر بنائوں گا باقی جنگل ایسے رہے گا۔
گاڑی سے اتر کر ہر طرف پھیلے بے جان پتوں پر چلتے ہوئے ایک عجیب سی آواز ابھر رہی تھی۔ شاید وہ سوکھے پتے ان اجنبی قدموں کے عادی نہیں تھے‘ لہٰذا ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہوں کہ اتنے برسوں بعد یہ نئے لوگ یہاں کیا کرنے آئے ہیں؟ پتوں کی چیخ و پکار کی پروا کیے بغیر میں اور زبیر بھائی آگے بڑھتے رہے اور درختوں کے درمیان سے ایک پرانا کاٹیج نظر آیا‘ جسے دیکھ کر میں ٹھٹک کر رک گیا۔
زبیر بھائی بولے: اس جنگل اور اس پرانے بوسیدہ کاٹیج کی ایک کہانی ہے۔ جب زبیر بھائی نے وہ کہانی ختم کی تو مجھے اندازہ ہوا یہ سب درخت، جھاڑیاں اور سوکھے پتے کیوں اداس اور تنہا تھے۔ میرا اپنا من بھی اس جنگل اور کاٹیج کی کہانی سن کر بجھ سا گیا۔