تحریر : بیرسٹر حمید باشانی تاریخ اشاعت     18-03-2020

کورونا سے ہم کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟

انسان اپنی طویل تاریخ میں کئی طرح کے مصائب و آلام سے دوچار ہوا۔ تاریخ میں بار بار ایسے مسائل و حوادث سامنے آئے، جن کے سامنے انسان بے بس ہوتا رہا۔ اس دنیا میں سمندری طوفانوں، زلزلوں، آتش فشانوں، خشک سالی اور دوسرے شدید موسمی تغیرات کی وجہ سے لاکھوں انسان لقمہ اجل بنے‘ لیکن جدید تاریخ میں سب سے زیادہ اموات اور تباہ کاریوں کا موجب انسان پر وائرس کے حملے تھے۔
آج کل بھی دنیا کو ایک ایسے ہی حملے کا سامنا ہے۔ کورونا وائرس کے سامنے تیسری دنیا کے غریب اور ترقی یافتہ دنیا کے خوشحال ملک یکساں طور پر بے بس دکھائی دیتے ہیں۔ بدقسمتی سے یہ بے بسی اس کوتاہی اور غفلت کا نتیجہ ہے، جو ہم نے مجموعی طور پر انسانی صحت کے بارے میں برتی۔
یہ خوردبینی مخلوق‘ جسے ہم وائرس کہتے ہیں، ہے کیا؟ اس سوال کا تفصیلی جواب میں سائنس کے لوگوں پر چھوڑتا ہوں۔ مائیکرو بائیولوجسٹ، بائیوکیمسٹ اور وائرلوجی کے ماہرین اور دوسرے سائنس دانوں کو اس پر لکھنا چاہیے کہ اردو میں اس موضوع پر ناکافی یا ناقص معلومات زیادہ ہیں۔ یہاں مختصر عرض ہے کہ وائرس ایک بائیولوجیکل ایجنٹ ہے، جو ایک زندہ چیز کے سیل کے اندر داخل ہو کر پھلنے پھولنے اور افزائش کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ وائرس اپنے میزبان سیل کو اپنی جیسی ہزاروں نقول پیدا کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں اب تک پانچ ہزار سے زائد وائرس دریافت کیے جا چکے ہیں۔
انسان اور وائرس کا تعلق تو شاید ازل سے رہا ہے‘ لیکن وائرس کے ذریعے انسانوں کے اندر وبائیں پھیلنے کا عمل نیولیتھک دور سے شروع ہوا۔ ہزاروں سال پہلے جب انسان نے مل کر کاشتکاری کا کام شروع کیا تو اس سے آبادی کا ارتکاز شروع ہوا۔ لوگ بستیاں بنا کر مل جل کر اکٹھے رہنے لگے۔ اس نئے بندوبست میں انسانوں کی قربت اور ارتکاز کی وجہ سے وائرس کو بھی پھلنے پھولنے کا موقع مل گیا۔ انسانوں کے علاوہ یہ وائرس فصلوں اور مال مویشیوں میں پھیلنا شروع ہوئے۔ اس سے پہلے چونکہ انسان چھوٹے اور بکھرے ہوئے گروہوں کی شکل میں رہتا تھا، اس لیے وائرس کے زیادہ دور تک پھیلنے کا اندیشہ کم تھا۔ انسانی تہذیب کے آغاز سے آج تک وائرس نے اس دنیا میں کتنی تباہی پھیلائی اور یہ کس طرح نئی نئی شکلیں اور روپ دھار کر انسان پر حملہ آور ہوتا رہا‘ یہ ایک دردناک کہانی ہے۔ یہ سچی کہانی اگر لکھی جائے تو کسی سائنس فکشن سے بھی زیادہ سنسنی خیز اور خوفناک ہو گی۔ سائنسدان اس کا حساب کتاب رکھتے ہیں‘ پھر بھی اس باب میں بہت کچھ معلوم ہونے کے باوجود بہت کچھ نامعلوم ہے۔
حالیہ تاریخ میں جو وائرس انسان پر حملہ آور ہوئے ہیں، ان کی تباہ کاریوں کے باقاعدہ اعدادوشمار موجود ہیں۔ جدید دور میں ہم جن وائرسز کا نام سنتے ہیں، اور ان سے خوف کھاتے ہیں، ان میں ماربرگ، ایبولا، ریبیز، ایچ آئی وی، سمال پاکس، انفلوانزا‘ ڈینگی، سار اور اب نیا کورونا شامل ہیں۔
اگر ان وائرسز کے حملوں اور ان کی مجموعی تباہ کاریوں کا حساب کتاب کیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ معلوم دشمنوں میں بنی نوع انسان کا سب سے بڑا، اور خطرناک دشمن یہ وائرس ہی ہیں۔ یہ دشمن کسی وقت بھی پیشگی اطلاع اور تیاری کا موقع دیے بغیر انسان پر حملہ آور ہو سکتا ہے۔ یہ دنیا کی معیشت کو بحران سے دوچار کرنے، سٹاک مارکیٹیں گرانے، پورے پورے ملکوں کو ''لاک ڈائون‘‘ پر مجبور کرنے، ہزاروں لاکھوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنے، اور عوام میں وسیع پیمانے پر خوف و دہشت پھیلانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کے باوجود اگر تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو انسان نے اپنے دشمنوں کی جو فہرست بنا رکھی ہے، اس میں وائرس کا نمبر شاید آخری ہے۔ اس کا اندازہ اس بجٹ کے جائزے سے لگایا جا سکتا ہے، جو انسان اپنی حفاظت کے لیے خرچ کرتا ہے، جسے ہم دفاعی بجٹ کہتے ہیں۔ دنیا کے بیشتر ممالک کا بجٹ سامنے رکھ کر اس امر کی تصدیق کی جا سکتی ہے کہ آج بھی انسان اپنا سب سے بڑا دشمن انسان کو ہی سمجھتا ہے، اور آثار بتاتے ہیں کہ مستقبل قریب میں انسان کی اس سوچ میں تبدیلی کے کوئی امکانات نہیں ہیں۔
آج دنیا بحیثیت مجموعی اسلحہ جمع کرنے اور تیروتفنگ کی خریدوفروخت کو اپنی حفاظت اور سلامتی کی ضمانت تصور کرتی ہے۔ دنیا میں اگر صحت اور دفاعی اخراجات کے اعدادوشمار کی جمع تفریق کی جائے تو انسان حیرت و افسوس سے دیکھتا ہے کہ بیشتر قومیں اور ملک صحت کے مقابلے میں سامان حرب و ضرب پر کئی سوگنا زیادہ وسائل خرچ کرتے ہیں۔ اس دوڑ میں دنیا کے بیشتر ممالک شامل ہیں، یعنی انسان بحیثیت مجموعی اس دوڑ میں شریک ہے۔ اس میں اگر کوئی تھوڑا بہت فرق ہے تو صرف ترقی یافتہ جمہوری ممالک اور تیسری دنیا کے ترقی پذیر ممالک کے رجحانات میں ہے۔ چونکہ ترقی یافتہ جمہوری ممالک میں حکومتوں کو عوام کے سامنے جواب دہ ہونا پڑتا ہے، اس لیے وہ اسلحہ پر بھاری اخراجات کے باوجود صحت عامہ کے مسائل پر بھی معقول رقم خرچ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اس کی ایک مثال ریاست ہائے متحدہ امریکہ ہے، جہاں فوج پر دنیا میں سب سے زیادہ وسائل خرچ کیے جاتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں اگرچہ ہیلتھ کیئر کا بجٹ مثالی نہیں ہے، لیکن اس مد میں بھی معقول رقم خرچ کی جاتی ہے۔ یورپ میں ماضی قریب میں ہیلتھ کیئر پر کل جی ڈی پی کا سات سے نو فیصد تک خرچ کیا جاتا رہا، جبکہ فوجی مد میں یہ خرچ دو فیصد سے کم رہا ہے جبکہ اس کی نسبت انڈیا، چین، مشرق وسطیٰ، مشرقی یورپ اور شمالی افریقہ کے کئی ممالک میں صحت کے مقابلے میں دفاعی اخراجات بہت زیادہ رہے ہیں۔ 
سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس انسٹیٹیوٹ نے چند سال قبل اس سلسلے میں ایک بڑی اہم رپورٹ شائع کی تھی۔ اس رپورٹ کے مطابق دو ہزار سترہ میں دنیا بھر میں دفاعی اخراجات ایک اعشاریہ سات ٹریلین تک پہنچ چکے تھے۔ دو ہزار سترہ میں چین نے اس مد میں دو سو اٹھائیس بلین اور امریکہ نے چھ سو دس بلین ڈالر خرچ کیے۔ دو ہزار سترہ میں ہی نیٹو نے مجموعی طور پر اسلحہ پر نو سو بلین ڈالر خرچ کیے۔ یہ رقم پوری دنیا کے کل اخراجات کا نصف ہے۔
اب تصویر کا دوسرا رخ ملاحظہ کیجیے۔ میڈیکل ٹیکنالوجی دنیا بھر میں ہر قسم کی بیماریوں کے تشخص اور علاج کے لیے بنیادی اور ناگزیر ضرورت ہے۔ اس کے بغیر دنیا میں نہ تو کسی سنجیدہ بیماری کی تشخص ہو سکتی ہے، نہ ہی علاج کیا جا سکتا ہے۔ جرثومے، بیکٹیریا اور وائرس جیسے حملہ آور اس ٹیکنالوجی کے بغیر ایک نادیدہ قوت ہی ہوتے ہیں، جن کو دیکھنا اور چھونا ممکن نہیں ہے۔ وہ بیماریاں جن کا آج کے انسان کو کثرت سے سامنا ہے، اور جن میں دل‘ گردے اور پھیپھڑوں کی بیماریاں شامل ہیں، کی تشخیص کے لیے بھی میڈیکل ٹیکنالوجی درکار ہے مگر بدقسمتی سے ان ناگزیر اور انسانی زندگی بچانے کی اہم ترین ضروریات پر بہت کم وسائل خرچ کیے جاتے ہیں۔ انسان حیرت و افسوس سے دیکھتا ہے کہ دو ہزار سترہ میں دنیا بھر میں میڈیکل ٹیکنالوجی پر کل ملا کر اٹھائیس بلین ڈالرخرچ کیے گئے، جو دفاعی اخراجات کے مقابلے میں ایک مذاق ہے۔ دفاع کے حوالے سے کیا گیا سارا بندوبست اپنے جیسی مخلوق کے خلاف ہے، جس کے دکھ درد اور مسائل بڑی حد تک مشترک ہیں۔ یہ مخلوق ایک دوسرے سے بہت آسانی سے سمجھ میں آنے والی زبان میں گفتگو کر سکتی ہے۔ اپنی بات سمجھا سکتی ہے، دوسرے کی بات سمجھ سکتی ہے۔ وہ گفتگو، مکالمے اور امن کے ثمرات سے آگاہ بھی ہے مگر اس علم و شعور کے باوجود اس مخلوق نے جنگ اور دشمنی کے راستے کا انتخاب کیا ہوا ہے‘ اور اپنے سارے وسائل اس میں جھونک رکھے ہیں، ساری توجہ اور توانائیاں اس پر مرکوز کی ہوئی ہیں۔ دوسری طرف میڈیکل سائنس اور میڈیکل ٹیکنالوجی پر اتنے کم وسائل خرچ کیے ہیں کہ وہ بوقت ضرورت دنیا ایک معمولی وائرس کے آگے بے بس و لاچار ہے۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں جہاں صحت کے مسائل یا بحران ہیں،تو اس کی وجہ میڈیکل ٹیکنالوجی اور اس شعبے میں درکار پیشہ ور افراد کی کمی ہے، جس کا براہ راست تعلق وسائل کی کمی سے ہے‘ اور وسائل کی کمی کی وجہ وہ اہل حکم ہیں، جو اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں کہ وسائل کو سماج کی ضروریات کے مطابق کیسے تقسیم کیا جائے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved