تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     18-03-2020

نئے صوبے

دو ہزار دس کی بات ہے کہ میں ایبٹ آباد میں بابا حیدر زمان (مرحوم) کو ڈھونڈ رہا تھا۔ ان سے فون پر بات ہوتی تو وہ کہتے: میں فلاں جگہ سے نکل کر تمہاری طرف آرہا ہوں۔ کچھ دیر بعد ہی ان کا فون آجاتا کہ راستے میں انہیں ایک جگہ رکنا پڑا ہے، بس یہاں سے نکل کر ملتا ہوں۔ صبح سے شام ہو گئی، بابا حیدر زمان کی مصروفیات ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔ ان دنوں ہزارہ ڈویژن کو صوبہ بنانے کی تحریک ہری پور سے مانسہرہ تک لوگوں کے دلوں کو گرما رہی تھی اور بابا حیدر زمان بظاہر اس تحریک کے رہنما تھے۔ یہ تحریک اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے صوبہ سرحد کا نام خیبرپختونخوا کرنے کے خلاف شروع ہوئی تھی۔ ایک موقع پر تو یہ اتنا زور پکڑ گئی تھی کہ اس وقت کی صوبائی حکومت نے چارسدہ اور مردان سے پولیس بلوا کر عوام کے پرامن اجتماع پر سیدھی گولیاں چلوا دیں‘ جس کے نتیجے میں کئی لوگ جاں بحق ہو گئے تھے۔ اس خونریزی سے تحریک میں اتنی تیزی آ گئی کہ ہزارہ ڈویژن باقاعدہ سلگنے لگا۔ میں اسی تحریک کو سمجھنے کے لیے ہزارہ میں سفر کررہا تھا۔ خیر، بابا حیدر زمان جب میسر آئے تو مجھے کہیں اور نکلنا تھا اس لیے طے پایا کہ ملاقات اگلے دن ہری پور میں گوہر ایوب خان (سابق سپیکر قومی اسمبلی) اور ان کے صاحبزادے عمر ایوب خان (موجودہ وزیرِ بجلی) کے گھر پر ہو گی۔ میں وقت پر ہری پور پہنچ گیا جہاں عمر ایوب خان سے ملاقات ہوئی تو وہ بڑی گرم جوشی سے ملے۔ گوہر ایوب خان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے اعدادوشمار کی روشنی میں صوبہ ہزارہ کی معیشت کے بارے میں بتایا۔ عمر ایوب بھی گفتگو میں شامل رہے اور بار بار تقریباً نعرہ زنی کے انداز میں ہزارہ سے ہونے والی زیادتیوں کا ذکر کرتے رہے۔ پھر بابا حیدر زمان پہنچ گئے تو گوہر ایوب کے سامنے بیٹھنے کے انداز نے ہی بتا دیا کہ صوبہ ہزارہ کی تحریک چلا کون رہا ہے۔ تھوڑی دیر بعد انہوں نے گوہر ایوب کو مخاطب کرکے کہا، ''علی جدون (موجودہ ممبر قومی اسمبلی تحریک انصاف) ٹکٹ لے کر آرہا ہے، میں کراچی جارہا ہوں جہاں ہزارہ والوں کے ساتھ ایک پروگرام ہے‘‘۔ بابا باہر نکلنے لگے تو میں نے پوچھا، یہ کارخانۂ تحریک چلانے کے لیے پیسے کہاں سے آرہے ہیں؟ بابا نے درویشانہ انداز میں کہا، ''اللہ بندوبست کردیتا ہے‘‘۔ میں سن کر خاموش ہوگیا کیونکہ مجھے پتا تھا کہ چند دنوں میں یہ آسمانی بندوبست توختم ہونے والا ہے لیکن تحریک صوبہ ہزارہ شاید پیسے کے بغیر بھی چلتی رہے۔ واپسی کے سفر میں حسن ابدال کے پاس چائے پینے کے لیے رکے تو ایک نوجوان میرے پاس آیا اور صوبہ ہزارہ کے حق میں تقریر کرنے کے بعد پوچھا‘ 'کیا آپ نہیں سمجھتے کہ صوبہ ہزارہ بننا چاہیے؟‘ میں نے کہا، ''میرے بھائی ہزارہ والوں کا مسئلہ صوبہ نہیں ہے، بلکہ اصل میں یہ رونا اس طاقتور بلدیاتی نظام کی موت کا ہے جو جنرل پرویز مشرف نے ایبٹ آباد سمیت سارے پاکستان کو دیا تھا۔ اب چونکہ یہ نظام لپیٹ کر حکومت و ریاست میں عوام کی حصے داری ختم کر دی گی ہے تو انہیں یہ بتایا جا رہا ہے کہ انہیں سوائے صوبے کے دستوری اختیارات مل ہی نہیں سکتے۔ صوبے کا مطالبہ کرنے والے وہی سیاستدان ہیں جن کی دکانیں بلدیاتی نظام نے بند کرا دی تھیں۔ عوام کا مطالبہ صوبہ نہیں اختیار ہے۔ آج اگر وہی نظام بحال کردیا جائے توصوبے کا مطالبہ سرے سے ختم ہوجائے گا‘‘۔ وہ نوجوان میری بات کچھ سمجھا ، کچھ نہیں سمجھا لیکن خاموش ہو کر چلا گیا۔ 
ہزارہ تحریک کچھ مدھم ہوئی کہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کا اعلان کیا تو میں جھنگ سے ہوتے ہوئے ملتان جا پہنچا۔ جھنگ کے بازاروں میں دکانوں پر پوسٹر لگے تھے، ''جھنگ کو ڈویژن بناؤ‘‘۔ لوگوں سے پوچھا تو پتا چلا کہ انہیں فیصل آباد جانے میں بڑی 'تکلیف‘ ہے، اس لیے جھنگ ہی ڈویژن ہونا چاہیے۔ ایک وکیل صاحب نے تو قانون کے ساتھ ساتھ معاشی حوالے دے کر سمجھایا کہ ڈویژن بنایا جانا جھنگ والوں کا حق ہے۔ وہاں جتنے لوگوں سے بات ہوئی، اس کی تہہ میں وہی ناراضگی تھی جو دو ہزار ایک کے بلدیاتی نظام کو تباہ کرنے سے پیدا ہوئی تھی۔ جھنگ سے نکل کر ملتان، بہاولپور، رحیم یار خان، وہاڑی گیا، ہر جگہ بات وہی کہ عام آدمی کو اختیار چاہیے تھا جو اسے تاریخ میں پہلی بار جنرل پرویز مشرف نے دیا تھا۔ ان کے دیے ہوئے بلدیاتی نظام کو جب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے تباہ کیا تو اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بے چینی کو چند سیاستدان صوبے کے مطالبے میں ڈھال رہے تھے۔
ہزارہ صوبہ ہو یا کوئی اور، ان سیاستدانوں کا مسئلہ صرف یہ ہے کہ اگر ایک طاقتور بلدیاتی نظام جڑ پکڑ گیا تو ان کی گرفت اپنے انتخابی حلقوں پر کمزور پڑ جائے گی۔ ہر ضلعے، ہر تحصیل اور ہر یونین کونسل میں ایسے سیاسی کارکن پیدا ہو جائیں گے جو عوام کو متبادل قیادت مہیا کر دیں گے اور روایتی خاندانوں کی سیاست ٹھکانے لگ جائے گی۔ یہی خوف مسلم لیگ ن کو لاحق رہا اور اسی خوف نے پیپلزپارٹی کی جان خشک کیے رکھی کہ اگر بلدیاتی نظام مضبوط ہوگیا تو انہیں کون پوچھے گا۔ جنوبی پنجاب کا صوبہ ہو یا بہاولپور کا صوبہ، دونوں درحقیقت طاقتور بلدیاتی نظام کا راستہ روکنے کی کوششیں ہیں۔ ذرا تصور کیجیے کہ جنوبی پنجاب کے ہر ضلعے اور تحصیل میں عوام کا منتخب طاقتور ناظم موجود ہو، صوبے میں صوبائی فنانس کمیشن ہر ضلعے کو اس کے حصے کے مطابق فنڈز مہیا کرے اور ان فنڈز کا تیس فیصد براہ راست یونین کونسل کو جا رہا ہو تو کتنے مسائل حل کے بغیر رہ جائیں گے؟ 
آج کراچی میں بھی ایسے لوگ کم نہیں جو شہر کے مسائل کا حل نئے صوبے کی صورت میں دیکھتے ہیں۔ سندھ حکومت کے غیر منصفانہ اور کسی حد تک متعصبانہ رویے کی وجہ سے نئے صوبے کا مطالبہ رفتہ رفتہ ایک سیاسی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ظاہر ہے جب کراچی اور حیدر آباد کو نظر انداز کیا جائے گا تو اس طرح کی باتیں ہوں گی۔ لیکن نئے صوبے کی بات کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ ان دونوں شہروں کے مسائل کا حل بھی دو ہزار ایک کے بلدیاتی نظام نے بخوبی کردیا تھا۔ سندھ حکومت کراچی یا حیدرآباد میں جو چھوٹا موٹا کام کرکے 'ہو جمالو‘ رقص شروع کر دیتی ہے، اس طرح کے سینکڑوں کام شہر میں مرحوم نعمت اللہ خان اور سید مصطفیٰ کمال بطور ناظم بغیر کسی تام جھام کے کرکے اپنا لوہا منوا چکے ہیں۔ سندھ کے دوسرے اضلاع میں بھی شہری ترقی کی جو بچی کھچی علامتیں آج نظر آتی ہیں وہ اسی نظام کی دین ہیں جسے پیپلز پارٹی نے 'آمر کا نظام‘ قرار دے کر برباد کر ڈالا۔ پیپلز پارٹی کا حق ہے کہ وہ اپنی حکومت کو بہترین قرار دے‘ لیکن اندرونِ سندھ کسی بھی شہر میں جا کر دیکھ لیں، اس دعوے کی قلعی کھل جائے گی۔ حالت یہ ہے کہ لاڑکانہ تک میں یہ نام نہاد بہترین حکومت شہریوں کو پانی فراہم کر سکتی ہے نہ شہر سے پانی نکال سکتی ہے۔ یہ مرسوں مرسوں، سندھ نہ ڈیسوںکا نعرہ تو گلے پھاڑ کر لگاتی ہے لیکن کشمور سے کراچی تک اس صوبے کو برباد کیے دے رہی ہے۔ اور میں یہ بھی عرض کروں کہ اگر پیپلز پارٹی نے سندھ میں بلدیاتی نظام ٹھیک نہ کیا تو اسے ایک نہیں شاید دو صوبے دینے پڑیں۔ 
پاکستان میں نئے صوبوں کا تصور دراصل گورننس بہتر بنانے کے لیے انیس سو اسّی کی دہائی میں متعارف ہوا تھا۔ اسی کے ساتھ جڑا ایک خیال ملک میں صدارتی نظام بھی تھا۔ ان دونوں تجاویز کی تیاری میں کارفرما اخلاص اپنی جگہ لیکن پاکستان کے مسائل کا حل ان دونوں میں نہیں۔ یہ بالکل اسی طرح ہے کہ خرابی تو مکان کی بنیاد میں ہو اور ہم چھت کی مرمت کرانے لگیں۔ بنیادی مسئلہ ضلعے اور تحصیل کی سطح پر ہے جسے اسلام آباد یا لاہور میں بیٹھ کر ٹھیک کیا جا سکتا ہے نہ کسی اور صوبائی صدر مقام پر۔ ان مسائل کے حل کے لیے ہمیں بلدیاتی نظام کی طرف ہی جانا پڑے گا۔ اگر صوبے ہی بنانے ہیں تو پھر بد نیتی اور سیاسی مفادات کے تابع نہ بنائیں بلکہ ہر ڈویژن کو صوبے کا درجہ دے دیں۔ ڈویژن کے صوبہ بننے کی صورت میں عام آدمی کسی نہ کسی طرح تو شریکِ اقتدار ہو گا۔ ایڈیشنل چیف سیکرٹری یا ایڈیشنل آئی جی بٹھا کر دستور و قانون کا مذاق تو نہ اڑائیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved