تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     26-05-2013

بھید کی بات

عجیب چیز ہے‘ آزادی ایک عجیب چیز۔ آدمی جب اسے پالیتا ہے تو وہ اس خاک داں سے اوپر اٹھتا ہے اور آسمانی بھید اس پر کھلنے لگتے ہیں۔ جو جانتے ہیں‘ وہ جانتے ہیں اور جو نہیں جانتے‘ جلد انہیں معلوم ہوجائے گا۔ دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو عجب چیز ہے لذّتِ آشنائی الیکشن کمیشن کے سیکرٹری اشتیاق احمد کو یکایک کیا ہُوا؟ وہ مردِ معقول ہیں۔ دلیل سے بات کرتے اور سوال کا جواب تحمّل سے دیتے ہیں۔ سرکاری افسر بالعموم ایسے نہیں ہوتے ۔ آدمی کے عیب وہُنرکا زیادہ تعلق اگرچہ موروثی اثرات اور ماحول سے ہواکرتا ہے لیکن پیشوںاور اداروں کی اپنی نفسیات بھی ہوتی ہے ۔ سرکاری افسروں کو سکھایا جاتاہے کہ عام لوگ کم فہم ہوتے ہیں‘ جذبات کے توازن سے محروم۔ ذہنی طور پر الگ تھلگ ہو کر‘ ایک بلندی سے انہیں دیکھنا چاہیے۔ معاملات کو اُلجھانے کے بجائے سلجھاناچاہیے ۔ہر آدمی مگر مختلف ہے اور بعض اعتبار سے ہر ادارہ بھی کہ پروردگارنے زندگی کو تنوع میں تخلیق کیااور دائم وہ ایسی ہی رہے گی۔اقبالؔ نے اپنے مردِ مومن کے بارے میں یہ کہاتھا ’’شمعِ محفل کی طرح سب سے جُدا‘ سب کا رفیق‘‘۔ سچ پوچھیے تو ہر آدمی زندگی کے اس لامحدود کارواں کا حصّہ تو ہے ‘ ہزار جہات میں جو بروئے کار آتا ہے مگر اس سے الگ بھی۔ آدمی کے اندر بھی ایک پوری کائنات برپا ہوتی ہے ۔ظفر اقبال کا شعر یہ ہے : دل کا یہ دشت عرصۂ محشر لگا مجھے میں کیا بلا ہوں‘ رات بڑا ڈر لگا مجھے اپنی داخلی کائنات ہی میں آدمی زروجواہر یا پتھر کنکر چنتا ہے ۔ خیال وفکر میںستارے ڈھالتا ہے یا خاک آلودہوتا ہے ۔ خود کوپالے تو آسمانوں کی رفعت کا ہم نفس ہوسکتا ہے‘ جبرئیلِ امین ہی نہیں‘ عرشِ بریں کا ہمسایہ۔ ادنیٰ آرزوئوں اورتعصبات میں الجھ کرجہل کا شکار ہوجائے توحیوان سے بد تر۔ قسم ہے التین کی‘ زیتون‘ طور ِ سینا اور اس شہرِ امن (مکّہ مکرّمہ) کی‘ بے شک انسان کو ہم نے بہترین تقویم( امکانات) پر پیدا کیا‘ پھر اسے پست سے بھی پست کر ڈالا۔ ہاں! وہ لوگ جو ایمان لائے اور عمل اُجلے کیے پس‘ ان کے لیے بے انتہا اجر ہے پھر اس کے بعد کون اس دین کو جھٹلا سکتا ہے کیا اللہ سب حاکموں سے بلند و بالا اور برتر حاکم نہیں؟ سبھی کو اختیارہے اور سبھی جواب دہ۔ اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان یہ ہے ’’کلّکم راع و کلّکم مسئول‘‘۔ ہر ایک تم میں سے حاکم ہے اور ہر ایک کو جواب دینا ہوگا۔ آدمی کا مسئلہ مگر یہ ہے کہ زیادہ تروہ فقط اپنی ذات کے بارے میں فکر مند ہوتا‘ تعجیل سے کام لیتا اور وسیع تناظر میں غور وفکر سے گریز کرتاہے۔ ’’بے شک آدمی ناشکرا ہے اور وہ خود( اپنی فردِ عمل سے ) اس پر( سب سے بڑا ) گواہ ہے‘‘۔ ذمے داری اختیار کے بغیر نہیں ہوتی اوراختیاراحتساب کے بغیر آدمی کو حیوان بناسکتا ہے ۔ فاتحِ مصر‘ جناب عمروبن العاصؒ سے اس نادرِ روزگارمفکّر سیّدنافاروق اعظمؓ نے کہاتھا:’’ انسانوں کو اُن کی مائوں نے آزاد جنا تھا‘ تم کب سے انہیں غلام بنانے لگے‘‘۔ واقعہ یہ ہے کہ گورنر کے فرزند نے ایک مصری کو پیٹا اور پھر یہ کہا:تم جانتے نہیں کہ میںفرزند کس کا ہوں۔ وہ بھی ایک خوددار آدمی تھا۔ کنارِ نیل سے صحرا کا قصد کیا اور حج کے موسم میں مدینۂ منوّرہ جا پہنچا ۔ اپنی حکایت اس آدمی سے‘ مظلوم مسافر نے بیان کی‘ جیسے عادل آسمان کی آنکھ نے کم دیکھے ہیں۔ بارگاہِ فاروقی ؓ میں باپ بیٹا طلب کیے گئے اور کوڑا معتوب کو تھمادیاگیا۔ بظاہر قصاص پورا ہوچکا تو بارعب آوازاس نے سنی ’’مارو اب اس کے باپ کو‘‘۔ پلٹ کر اس نے کہا :امیر المومنین‘ میرا بدلہ تمام ہوچکا۔ کہا:خدا کی قسم‘ اگر تو اس کے باپ کو مارتا تو اس لمحے تک میں تیرا ہاتھ نہ روکتا ‘ جب تک کہ توخود نہ تھک جاتا۔ کیا عمر ابن خطابؓ ایک مطلق العنان حاکم تھے اور اپنے عمّال کو رعب ودہشت سے دبائے رکھتے ؟ تاریخ تو کچھ اور بتاتی ہے ۔ انہی عمرو بن العاص ؓ کو ٹیکس وصولی کے باب میں جب سخت احکامات دیے گئے تو ماننے سے انہوں نے انکار کردیا۔ بظاہر ناتراشیدہ لہجے کے باوجود‘ نہ صرف ان کی جواب طلبی نہ ہوئی بلکہ تمام تر شان وشوکت کے ساتھ منصب پر وہ براجمان رہے تاآنکہ سید نا عثمان غنی ؓ کا عہد آپہنچا۔ مدینہ سے مکتوب پہنچا کہ ٹیکس تم کم بھیجتے ہو اور تاخیر کے ساتھ۔ جواب ملا کہ صدیوں کے مظلوم‘ محتاج اور مفلس مصری زیادہ مستحق ہیں۔ اصرار ہوا تو جواب یہ ملا: ’’عمرؓ! تم مجھے جانتے ہو اور میں تمہیں جانتا ہوں۔ تم میرے باپ کو جانتے ہو اور میں تمہارے باپ کو جانتا ہوں۔ اس طرح کے خط مجھے نہ لکھا کرو‘‘۔ وہ باقی رہے‘ اپنے مقام پر وہ باقی رہے ۔ان کا موقف قبول کرلیا گیا۔ قانون! قانون کی حکمرانی۔ عدل‘ اپنے تمام تر تقاضوں کے ساتھ انصاف ۔ فریاد کرتے‘ دہائی دیتے زمانے گزر گئے اور اسد اللہ خاںغالبؔ یاد آتے ہیں: حالِ دل لکھوں کب تک‘ جائوں اُن کو دکھلائوں انگلیاں فگار اپنی‘ خامہ خونچکاں اپنا عدل جہاں نہ ہو‘ دلوں میں وہاں شکایت پھوٹتی اور بے قراری پیدا کرتی ہے ۔ پھر اضطراب اس کے بعد گرد وپیش میںپھیلتا ہے ‘ جیسے تالاب میں پتھر سے پیدا ہونے والی امواج۔تدارک نہ ہو تو بے چینی برہمی میں ڈھلتی ہے‘ حتیٰ کہ بغض وعناد تک جتھے وجود میں آتے اور باہم دگر متصادم ہوجاتے ہیں ۔تاریخ یہ ہے کہ پھر نوبت خوں ریزی تک پہنچتی ہے ۔نفسیاتی امراض جنم لیتے اور پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اخلاق و اقدار کی موت واقع ہوتی ہے اور وحشت حکمران ہوجاتی ہے ۔ ہم سب ایسے لوگوں سے واقف ہیں کہ خیر خواہی بھی کرو تو کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں۔ اختلاف کی تاب ہی نہیں رکھتے۔ دوسروں کی محتاجی اور موت میں جنہیں اپنی بقا نظر آتی ہے ۔ حقائق سے بے خبر‘ اپنی تخلیق کردہ ذہنی فضا میں زندگی کرنے والے ۔ زندگی کیا جنون فقط جنون ہی۔ بیرون ِ ملک مقیم ایک لیڈر کے بارے میں آج صبح ایک با خبر نے کچھ واقعات سنائے ۔ الامان والحفیظ۔ غصّہ نہیں‘ اس پر ترس آنے لگا ۔ آدمی کو وہ ’’چیز‘‘ سمجھنے لگے ہیں اور عوام کو ریوڑ۔ ریوڑ جانوروں کے ہوتے ہیں‘ آدمیوں کے کبھی نہیں۔کتاب میںلکھا ہے ’’کرّمنا بنی آدم‘‘۔ آدم کی اولاد کو ہم نے عزت بخشی ہے ۔ رسولِؐ خدا کا فرمان یہ ہے :’’اللہ کی مخلوق خدا کا کنبہ ہے‘‘۔کون اپنے خاندان کی توہین و تذلیل گوارا کرتاہے اور وہ پروردگارکیوں کرے گا ‘ جس نے ’’کُن‘‘ سے کائنات بنائی اورجس کا قانون کبھی بدلتا نہیں۔ ہر ظلم کا بالآخر حساب ہوتا ہے اور ہر ظالم‘ بالآخر انجام کو پہنچتاہے ۔ تیری رسوائی کے خونِ شہدا درپے ہے دامنِ یار خدا ڈھانپ لے پردہ تیرا جناب اشتیاق احمد یقینا ایک مہذب شخص ہیں مگر وہ ایک اور طرح کی آب و ہوا میں رہتے ہیں۔ کراچی رینجرز کے سربراہ جنرل رضوان بھی سلیقے کے آدمی ہیں مگر وہ سمجھ نہ سکے اور کورکمانڈر جناب اعجاز بھی حالات کا ادراک نہ کرسکے‘ حتیٰ کہ جنرل اشفاق پرویز کیانی بھی۔ رہا الیکشن کمیشن تو اشتیاق احمد خود مان چکے ہیں کہ کراچی میں صاف ستھرا انتخاب کرانے میں وہ ناکام رہا ۔ اس اعتراف کے بعد برہمی کیسی اور دھمکی کیا؟ ۔ خوف ایک ہتھیار ہے‘ بہت سوچ سمجھ کرجو استعمال کرنا چاہیے‘ وگرنہ آسٹریلوی ’’بوم رینگ‘‘ کی طرح وہ لوٹ آتا ہے ۔ ہائی کورٹ بھی چینی کی قیمت کم نہ کرسکی تھی۔لاکھوں کو کبھی دھمکایا نہیں جاتا‘ دلیل دی جاتی ہے‘ دلیل! ہم سب جانتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کے ارکان کا انتخاب میاں محمد نواز شریف اور صدر زرداری کی خفیہ مفاہمت سے ہواتھا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ نگران حکومتیں بھی اسی طرح وجود میں آئیں‘ اور بہت سے سرکاری افسروں کا تقرر ساز باز سے ہوا۔حکمران جس سے بے خبر ہیں وہ یہ ہے کہ کوئی معاشرہ آزادی کا مزہ چکھ لے تو وہ اس کی تکمیل کرکے رہتا ہے ۔ خوف کی زنجیر پگھلنے لگے تو بالآخر یکسر پگھل کررہتی ہے ۔ توہینِ عدالت کی سولی پر کتنے لوگ لٹکائے جاسکتے ہیں؟سردار نبیل گبول کے حلقے میںاتنے ووٹ کیسے ڈالے جاسکے ؟ ایک منٹ میں کتنے ؟ عجیب چیز ہے‘ آزادی ایک عجیب چیز۔ آدمی جب اسے پالیتا ہے تو وہ اس خاک داں سے اوپر اٹھتا ہے اور آسمانی بھید اس پر کھلنے لگتے ہیں۔ جو جانتے ہیں‘ وہ جانتے ہیں اور جو نہیں جانتے ‘ جلد انہیں معلوم ہوجائے گا۔ دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو عجب چیز ہے لذّتِ آشنائی

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved