جنگ بندی کے معاہدے کی خلاف ورزی
بھارت کی کھلی دہشت گردی ہے: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''جنگ بندی کے معاہدے کی خلاف ورزی بھارت کی کھلی دہشت گردی ہے‘‘ اور یہ بیان بھی میں بھائی صاحب سے چھپ چھپا کر ہی دے رہا ہوں‘ کیونکہ وہ بھارت اور مودی کے خلاف ایک لفظ بھی برداشت نہیں کر سکتے اور اس قسم کی حرکت پر جب وہ گرز پھیرنے لگتے ہیں‘ تو بڑے بڑوں کی چیخیں نکال کر رکھ دیتے ہیں اور میں خود بھی ایک بار اپنی ہڈی پسلی تڑوا چکا ہوں‘ کیونکہ بھائی صاحب ہمسایہ ممالک کے ساتھ محبت بھرے تعلقات کو بے حد اہمیت دیتے ہیں اور کھانے کے بعد یہ دوسری چیز ہے‘ جسے وہ اپنی زندگی میں بے حد اہمیت دیتے ہیں اور اگر میں یہاں موجود نہ ہوں‘ تو وہ مار مار کر سب کا بھرکس نکال دیں‘ اسی لیے میرا وطن واپس آنا روز بروز مؤخر ہو رہا ہے اور پچھلے دنوں جو ان کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان صاحب کے زخمی ہونے کی اطلاع آئی تھی‘ وہ کسی نے ان پر حملہ نہیں کیا تھا‘ بلکہ وہ بھائی صاحب کا کارنامہ تھا۔ آپ اگلے روز لندن میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
عوام کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے والوں
پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''عوام کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے والوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے‘‘ مجھے اس سے بھی پہلے میری مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے والوں پر نظر رکھنا ضروری ہے‘ کیونکہ میں ہر روز بیان دے دے کر تنگ آ چکا ہوں‘ لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی‘ جس کا مطلب ہے کہ یا تو حکومت اور عوام کے سروں سے جوئیں ختم ہو گئی ہیں یا پھر جوئیں ہی اس قدر لاغر اور کمزور واقع ہوئی ہیں کہ ان میں اب رینگنے کی بھی توفیق باقی نہیں رہی یا ان سب کا خون ہی اس قدر ناقص ہے کہ جوئوں کا ویسے ہی خانہ خراب ہو رہا ہے اور یہ بہت زیادتی ہے‘ میرے ساتھ بھی اور جوئوں کے ساتھ بھی‘ جبکہ جوئیں تو بیچاری بے زبان ہیں‘ فریاد بھی نہیں کر سکتیں‘ لیکن یہاں فریاد بھی کون سنتا ہے ‘ورنہ آج تک میری فریاد ہی سن لی گئی ہوتی۔ آپ اگلے روز لاہور سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
نیب صرف عمران خان کی مرضی پر چل رہا ہے: شاہد خاقان عباسی
سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ( ن)کے مرکزی رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ''نیب صرف عمران خان کی مرضی پر چل رہا ہے‘‘ حالانکہ اسے ہماری مرضی کا بھی کچھ خیال رکھنا چاہیے‘ کیونکہ اسے عمران خان نے نہیں‘ بلکہ ہم نے منتخب کیا تھا‘ جبکہ اسی طرح پیپلز پارٹی والے بھی اسے تعینات کرنے والوں میں سے ہیں ‘لیکن اس نے پیپلز پارٹی والوں کا بھی برا حال کر رکھا ہے؛ حالانکہ موجودہ حالات میں تو سب کا حال‘ بے حال ہے‘ لیکن ملک ِعزیز میں چونکہ کوئی کام صحیح طریقے سے ہو ہی نہیں رہا تو حال کا صحیح استعمال کیونکر ہو سکتا ہے۔آپ اگلے روز دیگر لیگی رہنمائوں کے ہمراہ اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
اور اب آخر میں ممتاز مزاح نگارحسین احمد شیرازی کی مزاحیہ کتاب''دعوتِ شیراز‘‘ میں سے ایک اقتباس پیش خدمت:
''اگر شادی کو آرٹ کہا جائے تو مشکور صاحب کے لیے یہ مارشل آرٹ ہے‘ جس نے مار مار کر ان کو شل کر دیا ہے۔ ہمارے اس دوست کا عقد پہلوانوں کے خاندان میں ہوا تھا اور ان کی اہلیہ جسامت اور وزن میں ان سے دگنی تھیں۔
شادی کے چند روز بعد لڑکی والے آئے تو بیگم کے ایک ویوہیکل چچا نے گرج دار آواز میں ان سے پوچھا کہ تم ہماری بیٹی سے کوئی جھگڑا وگڑا تو نہیں کرتے؟ انہیں یہ آواز سامنے سے آنے کی بجائے چھت کے پنکھے کے قریب سے آتی ہوئی محسوس ہوئی تو ڈر کے بولے: ''نہیں انکل! خدا نہ کرے میں تو یہ بات سوچ بھی نہیں سکتا۔ ہاں اگر کبھی ناراضگی ہو تو یہ ہی ہاتھ اٹھا لیتی ہیں اور بے شک پوچھ لیں‘ میں نے تو ان کے ہاتھ کو ذاتی دفاع میں بھی کبھی نہیں روکا؛حالانکہ میں سکول میں باکسنگ کرتا تھا۔ قسم لے لیں‘ اتنے مکے تو مجھے باکسنگ رنگ میں نہیں پڑے تھے‘ جتنے میں نے گزشتہ چند دنوں میں کھائے ہیں! اس پر ان بزرگ نے مشکور صاحب کو پچاس روپے کا نوٹ دیا‘ جسے وہ بڑے فخر سے بطورِ انعام دکھاتے تھے‘ جبکہ دوستوں کا خیال تھا کہ یہ تو مرہم پٹی کا خرچہ بھی نہیں! ہم نے ان کے ہمسایوں سے سنا ہے کہ ان کی پٹائی کے حادثے کے دوران میں کئی ستم ظریف‘ پولیس کی بجائے‘ محکمہ انسداد بے رحمی حیوانات کا فون نمبر ڈھونڈتے تھے! وہ اکثر یہ شعر گنگناتے پائے جاتے تھے:؎
مشکورؔ تیری بیوی نے سب بل دیئے نکال
مدت سے آرزو تھی کہ سیدھا کرے کوئی
مشکور صاحب کا خیال ہے کہ ان کا رشتہ طے ہونے کی تقریب میں ان کی والدہ نے اپنی سمدھن سے مشکور صاحب کو اپنی غلامی میں لینے کی استدعا کی تھی۔ بس‘ وہ دن اور آج کا دن‘ بیگم کا سارا خاندان مشکور صاحب کو اپنا غلام ہی سمجھتا ہے۔
اس بارے میں ہم سے قانونی مشورہ مانگا تو ہم نے غلامی کے بارے میں اقوام متحدہ کے چارٹر‘ پاکستان کے آئین اور تعزیراتِ پاکستان میں درج ضوابط سمجھائے۔ اس مرحلے پر باسی کڑھی میں عارضی ابال تو آیا‘ مگر جب انہوں نے اس قباحت کے مقابلے میں اپنی شوہری فدویت کے فیوض و برکات گنوائے تو ہم نے انہیں پرانی تنخواہ پر ہی کام کرنے کی ہدایت کی----- چوہے کبھی بلی کے گلے میں گھنٹی نہیں باندھ سکے!‘‘۔
آج کا مقطع
ظفرؔ اک مشعل ِ مہتاب گزری تھی کبھی دل سے
یہ شمع ِ شعر میں نے جس کے شعلے سے فروزاں کی