جنگ ِستمبر میں لاہور کی فضائوں میں جب پاکستانی اور بھارتی فضائیہ ایک دوسرے سے برسر پیکار تھیں‘ تو لاہور کی چھتیں اور میدان لوگوں سے اس طرح بھرے ہوئے ہوتے تھے کہ لگتا تھا کہ انسانی پتنگ بازی ہو رہی ہے اور یہی صورت ِحال آج ایک مرتبہ پھرپورے پاکستان میں دیکھنے میں آ رہی ہے۔آج جب پوری دنیا پر سب سے بڑی آفت کی صورت میں نازل ہونے والے کورونا وائرس پربار بار جاری کی جانے والی احتیاطی تدابیر کو نظرانداز کیا جا رہا ہے ۔ پاکستان کے مقابلے میں اٹلی‘ برطانیہ‘ امریکا‘ کینیڈا‘ ایران‘ ملائیشیا‘ گلف اور یورپ اپنے پاس بہترین سہولتیں ہونے کے با وجود اجتماعی طور پر ہر قسم کی احتیاطی تدا بیر پر سختی سے عمل کر رہے ہیں‘ لیکن پاکستان میں لوگوں نے اسے مذاق بنا یا ہوا ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ خدا نخواستہ '' اگر پاکستان میں دس ہزار سے زائد کورونا کے مریض ہو گئے تو اتنے لوگوں کا علاج کرنے کی ہمارے پاس گنجائش اور وسائل ہی نہیں ۔
حکومت ِپاکستان نے دفعہ144 کا نفاذ کرتے ہوئے دس سے زائد لوگوں کے ایک جگہ جمع ہونے پر پابندی عائد کر رکھی ہے‘ لیکن کوئی بھی اس پابندی یا ہدایت پر عمل کرنے کو تیار نہیں۔ شادی ہالز بند کر دیئے گئے ہیں‘ لیکن لوگوں نے میدانوں اور خالی پلاٹوں کو شادی ہالز میں تبدیل کر لیا ہے۔ایسے لگ رہا ہے کہ ہم سب جان بوجھ کر اجتماعی طور پر خود کشیاں کرنے جارہے ہیں۔
پندرہ مارچ کو میرے مضمون'' یو ایس بیالوجیکل وار‘‘ پر اندرونِ ملک اور بیرونِ ممالک سے ملنے والے پیغامات میں بہت سے قارئین کی جانب سے سوالات کئے گئے کہ اگر کورونا وائرس کی شکل میں امریکا کا نشانہ چین تھا ‘تو اس کے بعد سب سے زیا دہ اٹلی کیوں متاثر ہوا ہے؟اس کی معیشت اور سیا حت‘ ویرانی کا منظر کیوں پیش کر رہی ہیں؟ امریکا کے سابق وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے کہا تھا '' امریکا اپنے دشمن کو سزا دینے کی بجائے ان دوستوں کو سب سے پہلے سخت سزا دیتا ہے ‘جو اس کیلئے جیتے اور مرتے ہیں‘‘۔ اٹلی کا جرم یہ بنا کہ اس نے یورپی یونین ‘ امریکا اوربرطانیہ کے سخت دبائو‘ منت سماجت اور بہت سی مالی پیشکشوں کو ٹھکرا کر چین کے سی پیک اور روڈ بیلٹ منصوبے میں شامل ہونے کیلئے اپنے بحری‘ بری اور فضائی راستے چین کے استعمال میں دینے کا اعلان کر دیا تھا۔ بس‘ یہی اس کی گستاخی بنی اور اسی حکم عدولی کی اسے سزا دی جا رہی ہے۔(ذہن نشین رہے کہ ہم بھی اسی سی پیک اور روڈ بیلٹ کے مجرم ہیں)
چالیس برس پہلے کیوبا نے جب پینٹاگان اور کانگرس کی کیمیکل اور بیالوجیکل وار کیلئے بڑھائے جانے والے فنڈز ‘ میکنا مارا اور صدر کینیڈی کے بیانات کو بر وقت بھانپ کر کسی بھی ناگہانی وباء کا مقابلہ کرنے کیلئے 1981 ء میں اپنا بائیو ٹیکنالوجی پروگرام شروع کیا اور جلد ہی اس نے Interferon کا توڑ نکال لیا۔ امریکیوں کو بھی جلد ہی اس کی خبر ہو گئی کہ کیوبا اس میڈیسن کو عالمی سطح پر متعارف کروانے کی کوششیں کر رہا ہے‘ لیکن اس وقت چونکہ امریکا کی طرف سے کیوبا پر پابندیاں عائد تھیں‘اس لئے یہ نسخہ دنیا کی فلاح کے کسی کام نہ آ سکا ‘جو کہ حیران کن طور پر شوگر کے مریضوں کیلئے انتہائی مفید دواثابت ہورہی تھی۔
چین کو حالیہCOVID-19 وائرس کا ہی‘ بلکہ اسے مختلف قسم کے برڈ فلو(H7N4 and H7N9) کا2018 ء میں بھی سامنا کرنا پڑا‘لیکن اس بابت خبریں عالمی میڈیا پر پھیلنے سے رہ گئی تھیں ۔ کورونا وائرس پر بحث کرنے سے پہلے ہمیں2018 ء کے اس افریقی سوائن فلو کو بھی یاد رکھنا ہو گا‘ جس سے کئی ملین Pigs مارے گئے تھے‘ تو ساتھ ہی وہاں کی سویا بین اور مکئی کی فصلوں کا صفایا ہو گیا تھا‘ جس پر امریکا نواز میڈیا نے یہ تاثر دیا کہ یہ سب Armywormsنامی کی وجہ سے ہورہا ہے۔ چین کی سوا ارب سے زائد آبادی کی خوراک کا سب سے بڑا حصہ افریقا کی یہی سویا بین‘ مکئی اور Pigs کا گوشت ہوتا ہے‘ لیکن افریقا میں یہ سب ختم ہونے سے چین کی معیشت کو زبردست جھٹکا پہنچنے کے علا وہ خوراک کے بحران کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ اس بحران سے فوری طور پر نمٹنے کیلئے چین کو امریکا سے خوراک منگوانا پڑی اور یوں اپنی خوراک میں خود مختار چین‘ چند روز میں امریکا کا محتاج ہو کر رہ گیا تھا۔
اب ‘ آپ سب کے ذہنوں میں یہ سوال ابھرنا شروع ہو گیا ہو گا کہ چین پر حالیہ کورونا وائرس کا حملہ یقینا کسی بڑی طاقت کا کام ہو سکتا ہے‘ لیکن یورپی یونین کا اہم ملک اٹلی چین کے بعد سب سے زیا دہ اس مہلک وائرس کا نشانہ کیوں بن رہا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اٹلی کا قصور یہ تھا کہ اس نے امریکا کی سخت مخالفت اور ناراضی کے با جود '' چین کے سی پیک اور روڈ بیلٹ‘‘ منصوبے کو کامیاب بنانے اور اسے اپنی تجارت اور انرجی کی ترسیل کیلئے یورپ تک بری‘ فضائی اور بحری راستے دینے کیلئے آمادگی ظاہر کر دی تھی‘ جس کا امریکا کو سخت غصہ تھا‘ بلکہ وہ اٹلی کو اس گستاخی پر سبق بھی سیکھانا چاہتاتھا ‘ کیونکہ امریکیوں کے نزدیک اٹلی کو اگر سخت ترین سزا دیتے ہوئے باقی دنیا کیلئے مثال نہ بنایا جاتا‘ تو کل کو ہو سکتا تھا کہ ایک ایک کر کے یورپی یونین کے دوسرے ممالک بھی اپنی آزادی کا بھرم رکھنا شروع کر دیتے‘ جو امریکا کو کسی بھی صورت گوارا نہیں ہے ۔
اب ‘ذرا30 جنوری 2020ء کو یاد کیجیے! آپ کو پس پردہ حیران کن ہاتھ دکھائی دیں گے‘ جو کچھ اس طرح سے ہے کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے چین کے شہر ووہان سے اٹھنے والے کورونا وائرس کے طوفان کو دیکھتے ہی فوری طور پر پبلک ہیلتھ ایمر جنسی نافذ کر دی اور اس ایمر جنسی کو سامنے رکھتے ہوئے یہ امر بھی ذہن میں رکھنا ہو گا کہ اس وقت تک اس کورونا وائرس کے صرف150 کیسزہی سامنے آئے تھے‘ جن میں چین سے باہر امریکا میں چھ‘ کینیڈا میں تین اور برطانیہ میں صرف دو کورونا کے مریض رپورٹ ہوئے تھے۔( یہاںیہ بات قابل ِذکر ہے کہ ہیلتھ ایمرجنسی نافذ کرتے وقت تک دنیا بھر کی کل ساڑھے چھ ارب آبادی میں سے صرف ڈیڑھ سو مریض رپورٹ ہو ئے تھے )
آخر میں بتاتا چلوں کہ کورونا وائرس کی یہ کہانی ویسے تو شروع ہوتی ہے‘ 18 سے27 اکتوبر2019 ء سے کہ جب چین کے شہر ووہان میں دنیا کی افواج کے درمیان کھیلوں کے عالمی مقابلے منعقد ہوئے‘ جس میں امریکی فوج کے 200 افسروں اور جوانوں پر مشتمل دستے نے شرکت کی اور ان کھیلوں کے دوران ایک خفیہ ہاتھ '' اپنے دشمن پر وار کرنے کیلئے حرکت میں آیا‘ جس کے نتیجے میں ان عالمی کھیلوں کے دو ہفتے بعد ایک دن اچانک Covid19 کا پہلا مریض چین میں سامنے آگیا ‘کیونکہ اس وائرس کے شکار فرد کا مرض دو ہفتوں بعد ہی سامنے آتا ہے۔ کورونا حملے کیلئے وقت کا انتخاب بھی اپنی جگہ بہت اہم ہے ‘کیونکہ چین میں کورونا وائرس ایسے وقت میں سامنے آیا‘ جب وہاں Lunar New year کے تہوار کا آغاز ہورہا تھا‘ جس میں چین کے لوگ اپنے عزیز و اقارب‘ خاندان اور دوستوں سے میل ملاقات کیلئے دور دراز سے سفرکرتے ہوئے پہنچتے ہیں ‘لیکن کورونا نے ووہان اور صوبہHubei کے ایک بڑے حصے کو اس طرح لپیٹ میں لے لیا کہ پچاس ملین سے زائد چینی افراد قرنطینہ میں مقید ہو کر رہ گئے اور یہ قومی تہوار خوف اور سوگ میں بدل گیا۔اس حملے کا ایک مقصد چینی یوان پر حملہ تھا‘ جو جلد ہی امریکی ڈالر کی جگہ لینے جا رہا تھا۔