17 اگست 2018 کو عمران خان صاحب نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا تو پاکستان کی اکثریت کو یہ لگا کہ اب ایک متبادل قیادت کے طور پر ملک کے تمام مسائل تقریباً حل کر لئے جائیں گے۔ جناب عمران خان نے اپنی انتخابی مہم میں اور اس سے پہلے عوام کو روشن مستقبل کے جو خواب دکھائے تھے‘ ان کا بنیادی خلاصہ یہ بنتا ہے کہ انتظام ایماندارانہ ہو گا‘ لوگوں کو انصاف ملے گا اور مالی بدعنوانیوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ یہ بنیادی وعدے بھی کیے گئے کہ لوگوں کو نوکریاں دی جائیں گی، قوم کو لوٹنے والوں کا احتساب کیا جائے گا۔ یہ دعوے بڑے خوش نما تھے‘ لیکن جب وہ وزیر اعظم بن گئے تو آہستہ آہستہ ایسا لگا‘ جو خواب انہوں نے دکھائے تھے وہ دھیرے دھیرے ٹوٹ رہے ہیں‘ لیکن وہ یہ کہہ کر عوام کا حوصلہ بڑھاتے رہے کہ آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔ دکھائے گئے سپنوں کو حقیقت کا روپ دینے کے بجائے صورتحال کو مزید گمبھیر بنا دیا گیا ہے‘ لیکن کپتان صاحب اپنی جگہ ڈٹے ہوئے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔
سب سے پہلے حکومتی معاشی اقدامات کے نتیجے میں جب ڈالر نے اڑان بھری اور معیشت کی کشتی کو ہچکولے لگنے لگے تو یہی دلاسا دیا گیا کہ آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔ پاکستان کی معیشت میں تیل کی قیمت بڑھنے سے ہر شے کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ تیل کی قیمتیں بڑھا دی گئی‘ بجلی اور گیس کی قیمتوں کا ایٹم بم گرا دیا گیا اور دھیرے سے عوام سے کہا گیا: آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔ ملکی معیشت کا بھٹہ بیٹھ گیا، صنعتیں بند ہونا شروع ہو گئیں‘ کاروبار سمٹنا شروع ہو گئے‘ لوگ بیروزگار ہونا شروع ہو گئے‘ لیکن حکم یہ تھا کہ گھبرانا نہیں ہے۔
دنیا بھر میں کورونا وائرس انسانی جان ہی نہیں بلکہ بھاری بھرکم معیشتیں بھی نگل رہا ہے۔ ''بلوم برگ‘‘ کا تخمینہ ہے کہ اس وبا کے ختم ہونے تک دنیا کو معاشی طور پر دو اعشاریہ سات (2.7) کھرب امریکی ڈالر کے مساوی نقصان ہو چکا ہو گا۔ پاکستان میں کورونا وائرس کا پہلا کیس 26 فروری کو سامنے آیا اور اس کے معاشی اثرات بھی اپنا رنگ دکھانا شروع ہو گئے ہیں۔ مزید ابتر صورتحال کا عندیہ وزیر اعظم اپنی تقریر میں دے چکے ہیں۔ کورونا وائرس کی وجہ سے کاروبار ٹھپ ہو چکے ہیں۔ خاص طور پر مزدور طبقہ بہت زیادہ متاثر ہوا ہے۔ حکومت کا فرض ہے کہ غربت کی چکی میں پسنے والوں کو ریلیف دے۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے تو 25 ہزار سے کم ماہانہ آمدن والے شہریوں کے بجلی اور گیس کے بل معاف کیے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔ اگر صرف سٹاک مارکیٹ انڈکس پر ہی نظر ڈالیں تو پتا لگتا ہے کہ جو انڈیکس 26 فروری کو 38338 پوائنٹس پر بند ہوا تھا‘ وہ آج اس کالم کو سپرد قلم کرنے تک 10 ہزار پوائنٹس گر کر 28577.86 پر ٹریڈ کر رہا ہے۔
50 لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریوں کی فائل پتہ نہیں کہاں گئی؟ لیکن میں عوام سے کہتا ہوں وہ فائل مل جائے گی‘ آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔ اعلان کیا گیا تھا کہ آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکیں گے‘ لیکن پھر آئی ایم ایف سے لایا گیا مشیر خزانہ لگایا گیا‘ وہیں سے امپورٹ کردہ سٹیٹ بینک کا گورنر لگایا گیا‘ ہم قرضے بھی لیتے گئے اور یہ بھی سنتے رہے کہ گھبرانا نہیں ہے۔
ممکن ہے آپ کو یہ لگے کہ کالم میں بار بار ایک ہی جملے کی تکرار نظر آتی ہے تو جناب اس جملے کے ساتھ ساتھ میرے دکھ بھی تو دیکھیں جو اس قدر زیادہ ہیں اور ہر دکھ کے ساتھ ایک ہی جملہ جڑا ہے کہ آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔ ایف اے ٹی ایف کی لٹکی تلوار نہ ہٹ سکی‘ سعودی عرب کی نوازشات زبانی جمع خرچ سے آگے نہ بڑھ سکیں‘ امریکہ، افغان امن معاہدے کے ساتھ ہی آنکھیں پھیرنے کی تیاری کر چکا‘ انہی کے ڈر سے ترکی اور ملائیشیا جیسے دوستوں کو بھی نظر انداز کر دیا‘ پھر بھی کہا جاتا ہے کہ آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔
اب کورونا جیسی عالمی وبا نے دنیا کو گھیر لیا ہے۔ دنیا کی بڑی بڑی معیشتیں اس کے سامنے گھٹنے ٹیک رہی ہیں۔ سٹاک مارکیٹیں کریش ہو رہی ہیں۔ وزیر اعظم صاحب نے اس وبا کے مزید پھیلنے کا اندیشہ ظاہر کیا ہے۔ اگر بات صرف پنجاب کی‘ کی جائے تو پنجاب کی آبادی 11 کروڑ کے لگ بھگ ہے جو اٹلی اور سپین کی مجموعی آبادی (اٹلی 6 کروڑ، سپین4.6 کروڑ) کے برابر ہے لیکن کیا ہمارے انتظامات اور اقدامات اس وائرس کے پھیلاؤ کے تخمینے کی بنیاد پر کافی ہیں؟ یاد رہے کہ ڈبلیو ایچ او کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر مائیکل رائن پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کے شہر بڑے، آبادی کی نقل و حرکت زیادہ اور صحت کی بنیادی سہولیات ناکافی ہیں۔ پنجاب حکومت ایک بڑے انسانی المیے سے بچنے کیلئے سخت اقدامات سے گریز کیوں کر رہی ہے؟ کہا یہ جا رہا ہے کہ آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔ اور شاید اب تک قوم گھبرائی بھی نہیں تھی‘ لیکن جس تیزی سے یہ وبا اس دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے اور ترقی یافتہ ممالک بھی اس موذی وبا کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں‘ میری گزارش ہے کہ تھوڑا سا گھبرانے کی اجازت دیں۔ اس معاملے پر سنجیدگی اختیار کریں اور معاملات صرف عوام پر مت چھوڑیں۔ وزیر اعظم کا یہ کہنا کہ لوگ اپنی ذمہ داری پوری کریں‘ اپنا خود خیال رکھیں‘ حالات مزید بد تر ہوں گے‘ مہنگائی اور بڑھے گی۔ کون شخص ہے جو یہ باتیں سن کر گھبرائے گا نہیں؟ خدارا کچھ عملی اقدامات کر لیں۔
دوسری جانب خان صاحب کے چاہنے والوں کا ماننا ہے کہ گزشتہ ستر سالوں کے مسائل کا حل یقینا چٹکی بجاتے ہی نہیں ہو سکتا اور کوئی بھی سیاسی جماعت اقتدار حاصل کرنے کے لئے خوش کن نعروں کا سہارا تو لیتی ہی ہے‘ یہ سفر ابھی شروع ہی ہوا ہے اور کچھ اقدامات عوام کی امید بندھا رہے ہیں۔ سخت معاشی فیصلوں کی وجہ سے بقول وزیر اعظم کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں 73 فیصد کمی ہوئی ہے۔ برآمدات‘ خاص طور پر ٹیکسٹائل کی برآمدات میں اضافہ ہوا ہے، زرمبادلہ کے ذخائر 12.5 ارب ڈالر سے بڑھ گئے ہیں۔ سیاحت کے فروغ کے لیے ویزہ پالیسی میں نرمی کی گئی جس سے پاکستان میں غیر ملکی سیاحوں میں اضافہ ہوا اور غیر ملکی جریدے نے پاکستان کو 2020 کے لیے بہترین سیاحتی مقام قرار دیا۔ پاکستان کے دنیا کے کئی ممالک کے ساتھ تعلقات میں بہتری آئی، خصوصاً پاک امریکہ تعلقات میں بہتری آئی، امریکی صدر ٹرمپ‘ جو کبھی پاکستان پر تنقید کرتے تھے‘ وہ اب پاکستان کے تعریف کرتے نظر آتے ہیں۔ سول سروس میں ہونے والی اصلاحات اگر نیک نیتی کے ساتھ نافذالعمل ہو جاتی ہیں تو سمجھیے کہ پاکستان کے مسائل کی جڑ پر ضرب پڑے گی۔ خارجی محاذ پر ایک طرف بھارتی وزیر اعظم مودی کو للکارا جا رہا تھا‘ دوسری طرف الیکشن میں ان کی جیت کی تمنا بھی کی جا رہی تھی۔ فروری 2019 میں جب تنقید حد سے بڑھی تو اتفاقاً بارڈر پر حالات خراب ہو گئے۔ بھارتی فضائی جسارت کو پاکستان کی فضائیہ نے منہ توڑ جواب دیا اور ان کے طیارے مار گرائے۔ ایک طیارے کا پائلٹ بھی گرفتار کر لیا۔ ایک تاریخی فتح خوش قسمت کپتان کی جھولی میں آ گری، جس پہ خوب چرچا ہوا۔ بھارت کو امن کا پیغام دیتے ہوئے پائلٹ کو چھوڑ دیا گیا۔ مودی ایک بار پھر الیکشن جیت گیا۔ کپتان صاحب کا خیال تھا کہ مودی جیتے گا تو کشمیر کا مسئلہ حل کی طرف جائے گا۔ مودی نے کشمیر کو گھیر لیا۔ کشمیریوں کی زندگی تنگ کر دی۔ ایک نہ ختم ہونے والا کرفیو نافذ کیا جو اب تک جاری ہے۔ آرٹیکل 370 ختم کرکے کشمیریوں کی حیثیت بدل دی۔ بہرحال کپتان صاحب نے کشمیریوں کی حتی الوسع دل جوئی کی اور عالمی فورموں پر ان کی آواز بنے۔ حکومت کے حامیوں کا مؤقف ہے کہ کیا یہ باتیں عوام کا دل بڑا کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔