مصمم ارادہ کیا تھا کہ جب تک کورونا عذاب بن کر منڈلا رہا ہے‘ سیاست اور سیاسی بازیگروں سے اجتناب ہی کروں گا‘ لیکن ہزارہا کوشش کے باوجود اپنے اس ارادے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ جب مسئلہ عوام کا ہو اور متاثرہ فریق بھی عوام ہی ہوں تو سیاست اور ریاست سے کیسے اجتناب کیا جا سکتا ہے؟ کورونا کی تباہ کاریاں اور ہیبت اپنی جگہ‘ لیکن اس موذی وائرس میں ایک خوبی ضرور ہے کہ یہ اعلیٰ، ادنیٰ‘ حاکم، محکوم‘ امیر، غریب‘ کالے، گورے‘ پیدل، سوار کی تفریق سے بے نیاز ہر کسی کے لیے یکساں مہلک ہے۔ کیا بندہ‘ کیا بندہ نواز‘ سبھی گھبرائے ہوئے ہیں اور بھاگے پھر رہے ہیں۔
وزیر اعظم نے قوم سے مختصر ترین خطاب میں عوام کو خوشخبری دی ہے کہ کورونا کے خلاف جنگ ہم جیتیں گے... معاشی ٹیم کو ہدایت کر دی گئی ہے کہ مہنگائی کو بڑھنے نہ دے۔ اس خطاب میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ہنگامی صورتحال کے پیش نظر وینٹی لیٹرز کے بندوبست کی ہدایات جاری کر دی ہیں اور حفاظتی ماسک بھی کافی تعداد میں موجود ہیں جبکہ دوسری جانب صورتحال اس کے عین برعکس اور کچھ یوں ہے کہ ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن نے حکومت پر واضح کیا ہے کہ مریض چیک کرنے کے لیے ہمیں حفاظتی کٹس اور ماسک فراہم نہ کیے گئے تو وہ ہڑتال پر جا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ مارکیٹوں میں ماسک اور سینیٹائزر ناصرف ناپید ہیں بلکہ منہ مانگے داموں میں بھی دستیاب نہیں۔
رہی بات وینٹی لیٹرز کی تو یہ بھی بتاتا چلوں کہ 10 کروڑ سے زائد آبادی والے صوبہ پنجاب میں صرف 882 وینٹی لیٹرز دستیاب ہیں‘ جو پہلے ہی دیگر امراض میں مبتلا مریضوں کے لیے ناکافی ہیں۔ ایسے میں خدانخواستہ کورونا سے متاثرہ مریضوں کی تعداد بڑھ گئی تو مطلوبہ وینٹی لیٹر کہاں سے آئیں گے اور کب آئیں گے؟ کورونا تو بہرحال آچکا ہے۔ ممکن ہے انصاف سرکار کے پاس کوئی ایسا ''گیجٹ‘‘ ہو جو کورونا سے کہے کہ ابھی ٹھہرو اور اپنی تباہ کاریاں روکے رکھو‘ ہم وینٹی لیٹرز کا بندوبست کر رہے ہیں۔
وزیر اعظم نے تفتان بارڈر پر زائرین کی سکریننگ، رہائش اور دیگر سہولیات کی فراہمی پر بلوچستان حکومت کی تعریف کی ہے جبکہ ٹیلی ویژن سکرین پر گندگی، غلاظت کے ڈھیر‘ ناقابل استعمال اور ناکافی بیت الخلا اور ایک خیمے میں چار سے چھ افراد کو رکھنے کی خبریں اور مناظر دِکھائے جا رہے ہیں۔ زائرین کو یہ ماحول دے کر کورونا کا رونا رونے والوں کی عقل اور قابلیت پر بس ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ تفتان بارڈر پر نجانے وہ کون سے انتظامات اور اقدامات ہیں جن کی تعریفوں کے پل باندھنا پڑ گئے۔ اس موقع پر سندھ سرکار کی تعریف نہ کرنا یقینا ناانصافی ہو گی۔ سیاسی اختلافات اور تعصب اپنی جگہ لیکن کورونا سے بچاؤ کے لیے سندھ حکومت نے مستعدی اور اپنی مدد آپ کے تحت جو ہنگامی اقدامات کیے ہیں یقینا قابلِ تعریف اور قابلِ تقلید ہیں۔
کورونا کے حوالے سے انصاف سرکار کے دعووں، بیانات اور اقدامات کو دیکھ کر ایک کہانی بے اختیار یاد آ گئی جو آپ سے شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ ''ایک گاؤں میں سیلاب کا شدید خطرہ تھا‘ سرکار کی طرف سے منادی کروائی گئی کہ بڑے صاحب (اعلیٰ افسر) آرہے ہیں۔ گاؤں کے تمام لوگ اپنی ہر قسم کی مصروفیات ترک کر کے پنڈال میں اکٹھے ہو جائیں تاکہ متوقع سیلاب سے محفوظ رہنے کے لیے کوئی مناسب لائحہ عمل ترتیب دیا جا سکے۔ خیر سارا گاؤں پنڈال میں اکٹھا ہو گیا۔ وقت مقررہ پر بڑے صاحب تشریف لائے اور گاؤں والوں سے مخاطب ہوئے کہ میں آپ لوگوں کو ''وارننگ‘‘‘ دینے آیا ہوں کہ ایک بے رحم سیلابی ریلا آپ کے گاؤں کی طرف بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے‘ باآسانی دیکھا جا سکتا ہے کہ دریا کی لہریں خطرے کے نشان کو چھونے کے لیے کس طرح بے تاب ہیں‘ اگر بروقت آپ لوگوں نے گاؤں نہ چھوڑا تو بہت بڑی تباہی ہو سکتی ہے‘ کل صبح سورج نکلنے سے پہلے آپ سب کو گاؤں چھوڑنا ہو گا‘ آپ کی نقل مکانی کے لیے ٹرانسپورٹ اور دیگر انتظامات کر دئیے گئے ہیں۔
گاؤں والے بڑے صاحب کی بات سنتے ہی بھڑک اُٹھے کہ آپ اچانک ہمیں بتانے آ گئے ہیں کہ ہمیں گاؤں چھوڑنا ہوگا۔ ہم اپنا مال اسباب چھوڑ چھاڑ کر کیسے نقل مکانی کر سکتے ہیں۔ کوئی ایسا لائحہ عمل اختیار کریں کہ ہم گاؤں چھوڑنے سے پہلے اپنا مال اسباب اکٹھا کر لیں۔ گاؤں والوں کا جواب سن کر بڑے صاحب سوچ میں پڑ گئے اور پھر کافی گہرا سانس لینے کے بعد بولے کہ آپ کم سے کم وقت میں اپنا قیمتی سامان اکٹھا کر لیں۔ میں آپ کیلئے زیادہ سے زیادہ یہی کر سکتا ہوں کہ دریا میں سیلابی خطرے کی نشاندہی کے لیے لگائے گئے نشان کے اُوپر ایک نیا نشان لگوا دیتا ہوں‘ آپ پرانے نشان کو نظر انداز کرکے نئے نشان پر نظر رکھیں اور نئے نشان تک پانی پہنچنے سے پہلے پہلے گاؤں چھوڑ دیں۔ یعنی گاؤں کے لوگوں کی جان و مال کو محفوظ کرنے کیلئے نہ تو پانی کا رُخ موڑا‘ نہ ہی کوئی حفاظتی بند باندھا‘ بس خطرے کا نشان تبدیل کیا اور بڑے صاحب گاؤں والوں کو بہت بڑا ریلیف دے کر چلتے بنے۔ بلی کو دیکھ کر کبوتر کا آنکھیں بند کر لینا یا سیلابی ریلے کی نشاندہی کرنے والے نشان کا اُوپر کر دینا‘ بات ایک ہی ہے۔ بڑے صاحب خطرے کا نیا نشان لگا کر ''تام جھام‘‘ کے ساتھ واپس چلے گئے اور نیا نشان لگنے کے بعد گاؤں کے مکین بھی اُن کے شکر گزار تھے کہ ان کی وجہ سے خطرہ ٹل گیا۔ گاؤں کے بیچارے لوگوں کو کیا معلوم کہ سیلابی ریلے کسی نشان یا بڑے صاحب کو کب مانتے ہیں؟پھر وہی ہوا جو ہو کر رہنا تھا کہ ہونی کو کون ٹال سکتا ہے؟ گاؤں کے عوام نیا نشان لگنے کے بعد مطمئن ہو کر سو گئے اور رات کے کسی پہر بے رحم سیلابی ریلا خوابِ خرگوش میں مست سارے گاؤں کو بہا لے گیا‘‘۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں بھی کورونا سے نمٹنے کے لیے بڑے صاحب کی طرز پر ہی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ اپنا اپنا مقامِ طمانیت ہے اور خود فریبی پر آمادہ اور بضد کب کسی کے کہنے میں ہوتے ہیں؟ وہ تو زمینی حقائق اور عقل و دانش کی ضد ہوتے ہیں۔ کورونا سے مقابلے کے لیے اتنی میٹنگز تو شاید چائنہ میں بھی نہیں ہوئی ہوں گی۔ طویل دورانیے کی ریکارڈ میٹنگز کا اعزاز بھی انصاف سرکار کو ہی حاصل ہے۔ کورونا سے بچاؤ کے لیے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی اندرونی کہانی سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ملک و قوم کا مستقبل کن کے ہاتھوں میں اور کتنا محفوظ ہے۔ ''کورونا سے بچاؤ کے لیے ملک کے سب سے بڑے صوبے میں اعلیٰ سطحی اجلاس جاری تھا‘ جس میں سبھی اعلیٰ حکام ''چیئر‘‘ کو کورونا کے بارے میں بریفنگ دے رہے تھے کہ یہ وائرس کس نوعیت کا ہے‘ کتنا مہلک اور جان لیوا وائرس ہے‘ دنیا بھر میں اس کی تباہ کاریاں کس حد تک جا پہنچی ہیں اور متاثرہ ممالک کیا اقدامات کر رہے ہیں۔ طویل دورانیے کے اس اجلاس میں تمام شرکا نے اپنی آرا اور مہارت کا اظہار کیا اور ''چیئر‘‘ نے ہمیشہ کی طرح اچھا سامع ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے تمام اعلیٰ حکام کی ساری باتیں بڑی توجہ اور سمجھداری سے سنیں‘ اجلاس کے اختتامی لمحات میں مائیک سنبھالا اور انتہائی متانت سے بولے: وہ تو سب ٹھیک ہے لیکن یہ کورونا وائرس کاٹتا کیسے ہے؟ اس پر اچھا خاصا سنجیدہ اجلاس کشتِ زعفران بن گیا‘‘۔
چند روز قبل ہی لاہو رکے ایک بڑے ٹیچنگ ہسپتال کے ایم ایس کو اسی لیے فارغ کیا گیا تھا کہ اُس نے انسدادِ کورونا کے حوالے سے مناسب اقدامات نہیں کیے تھے جبکہ صوبائی دارالحکومت کے کسی ٹیچنگ ہسپتال میں اس کی تشخیص کے حوالے سے کوئی انتظام موجود نہیں ہے۔ باقی صوبے کا کیا حال ہو گا یہ جاننے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں‘‘ دور کی کوڑی لانے والے تو یہ مطالبہ بھی کر رہے ہیں کہ نواز شریف کے مرض کی تشخیص اور علاج کی نگرانی پر مامور انصاف سرکار کے چیمپئنز کو کورونا کے اقدامات سے دور ہی رکھا جائے کیونکہ جن رپورٹوں میں وہ نواز شریف کی جان کو لاحق شدید خطرات کی نشاندہی کرتے تھے وہ رپورٹیں تو خود اُن کے گلے پڑ چکی ہیں اور اب وہ نواز شریف کی بیماری کو جھٹلاتے پھرتے ہیں۔ خدارا انہیں کورونا کے معاملات سے دور ہی رکھا جائے۔