ناتجربہ کار شخص بحرانوں سے کیسے نمٹ سکتا ہے: شیری رحمن
پاکستان پیپلز پارٹی کی نائب صدر سینیٹر شیری رحمن نے کہا ہے کہ ''بڑے عہدے پر فائز‘ ناتجربہ کار شخص بحرانوں سے کیسے نمٹ سکتا ہے‘‘ اسے کم از کم ہمارے تجربے ہی سے فائدہ اٹھانا چاہیے تھا‘ جس میں ہمارے جملہ سینئر عمائدین پوری جانکاری حاصل کر چکے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں انتقامی کارروائی کا نشانہ بنا یا جا رہا ہے‘ جبکہ تجربہ محنت سے حاصل ہوتا ہے‘ فرنٹ مینوں کا جال بچھانا پڑتا ہے اور قومی مفاد میں زیادہ سے زیادہ اثاثے بنانا پڑتے ہیں اور خون پسینے کی اس کمائی کو حفاظت کی غرض سے بیرون ملک منتقل کرنا پڑتا ہے اور یہ کوئی آسان کام نہیں ہے اور نہ ہی یہ کرکٹ کا کھیل ہے ‘جسے کھیلتے کھیلتے کوئی ملک کا وزیراعظم بن جائے اور ہمارے اتنے واویلے کے باوجود ہٹنے کا نام ہی نہ لے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں وزیراعظم کی تقریر پر اظہار خیال کر رہی تھیں۔
حکومت کا معیشت اور کورونا کیلئے ایک ہی انداز ہے: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''حکومت کا معیشت اور کورونا کے لیے ایک ہی انداز ہے‘‘ اور میں اگر یہاں پر اس قدر مصروف نہ ہوتا تو اسے بتایا کہ یہ دونوں کام مختلف انداز میں بھی کیے جا سکتے ہیں‘ کیونکہ یہاں بھائی صاحب کا معاملہ اس قدر تشویشناک ہو چکا کہ ان کی صحت مندی ہمارے لیے ایک چیلنج کی حیثیت اختیار کر گئی ہے‘ جس کی بنا پر و ہ ہتھ چھٹ بھی اتنے زیادہ ہو گئے ہیں کہ یہاں ہر کسی کو ان سے بچنے کیلئے خصوصی احتیاط بروئے کار لانا پڑ رہی ہے ‘کیونکہ وہ جوش اور غصے میں آ کر کسی پر بھی حملہ آور ہو سکتے ہیں اور جس کی ایک وجہ ان کے پرہیزی کھانے بھی ہیں‘ اس کے علاوہ وہ ورزش بھی اس مقدار میں کیا کرتے ہیں کہ جسے دیکھ دیکھ کر ہم سب پر تھکن طاری ہو جاتی ہے‘ لیکن وہ تھکنے کا نام ہی نہیں لیتے۔ آپ اگلے روز لندن میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
کورونا کے خلاف جنگ جیتنے کے سوا کوئی آپشن نہیں: عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''کورونا کیخلاف جنگ جیتنے کے سوا کوئی آپشن نہیں‘‘جبکہ کئی آپشنز اور بھی ہیں‘ جن میں سے کچھ پر ہم عمل کر بھی رہے ہیں ؛حالانکہ کسی چیز پر عمل کرنا بجائے خود ایک تکلیف دہ امر ہے ‘جبکہ عمل نہ کرنا کافی اطمینان بخش چیز ہے‘ تاہم گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں اور یہ وزیراعظم کا ماٹو بھی ہے‘ جسے ہم نے اپنے طور پر سیکھنا شروع کر دیا ہے ‘جو کہ ایک مسلسل عمل ہے‘ یعنی آگے سیکھتے جاتے ہیں تو پچھلا سیکھا ہوا بھول جاتا ہے اور جس کے لیے بادام وغیرہ بھی استعمال کیے جاتے ہیں ‘لیکن اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ جب سے ہم نے حکومت سنبھالی ہے‘ ہر چیز میں تاثیر ہی ختم ہو گئی ہے‘ اوپر سے اس کم بخت کورونا وائرس نے الگ ہماری مت مار رکھی ہے‘ جو پہلے بھی کچھ زیادہ زندہ نہیں تھی‘ یعنی مرے کو مارے شاہ مدار ۔ آپ اگلے روز لاہور میں کور کمانڈر لاہور سے گفتگو کر رہے تھے۔
سیاسی وابستگیاں تبدیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے: ساجد میر
مرکزی جمعیت اہلحدیث کے سربراہ سینیٹر پروفیسر ساجد میر نے کہا ہے کہ ''جیلوں میں ڈال کر سیاسی وابستگیاں تبدیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے‘‘ حالانکہ یہ سب کچھ جیلوں میں ڈالے بغیر ہی کیا جا سکتا ہے اس لیے جیلوں کا خرچہ بڑھانے کی کیا ضرورت ہے‘ کیونکہ سب نے دیکھا کہ اپوزیشن کے جن ارکان صوبائی اسمبلی پنجاب نے جو سردار عثمان بزدار کی ولولہ انگیز قیادت سے متاثر ہو کر اپنی اپنی جماعت کو داغِ مفارقت دیا ہے‘ انہیں کسی نے جیل میں نہیں ڈالا تھا‘ نیز کمر توڑ مہنگائی کے اس زمانے میں ہر شخص ضرورت مند ہوتا ہے اور اگر اس کی ضروریات پوری کر دی جائیں تو سیاسی وابستگی اس کے آگے کیا چیز ہے اس لیے جیلوں میں ڈالنے کی بجائے ارکان اسمبلی سے ان کی جائز ضروریات کے متعلق ہی دریافت کرنے سے بہت سے ایسے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ ہاتھ کنگن کو آر سی کیا ہے۔ آپ اگلے روز مریدکے میں کارکنوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
وزیراعظم نے قوم سے خطاب میں صرف جھوٹ بولا: مریم اورنگزیب
سابق وفاقی وزیر اطلاعات اور نواز لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم نے قوم سے خطاب میں صرف جھوٹ بولا‘‘ حالانکہ اس کے علاوہ بھی بہت سی دھوکے بازیاں ہیں‘ جو جھوٹ بولے بغیر بھی کی جا سکتی ہیں‘ مثلاً ہمارے قائد تیز رفتار ترقی بھی کرتے جاتے تھے اور کرپشن بھی‘ کیونکہ کرپشن کے بغیر ترقی ان کے بقول ہو ہی نہیں سکتی‘ تاہم یہ ایک عجیب بات ہے کہ جوں جوں ہم حکومت کی مخالفت میں تقریریں اور بیان بازی کرتے جاتے ہیں‘ حکومت پہلے سے بھی مضبوط ہوتی جاتی ہے اور لگتا ہے کہ یہ ہماری تقریروں اور بیانات ہی کا اثر ہے‘ اس لیے ہم نے اب سوچا ہے کہ مخالفت کی بجائے تقریروں میں حکومت کی دل کھول کر تعریف کی جائے اور حکومت کے لڑکھڑانے کا انتظار کیا جائے۔آپ اگلے روز لاہور سے ایک بیان جاری کر رہی تھیں۔
اور‘ اب آخر میں محمد اسحاق وردگ کی غزل:
ایسی ترقی پر تو رونا بنتا ہے
جس میں دہشت گرد کورونا بنتا ہے
جب اس کی تصویر صدا میں ڈھل جائے
پھر تو میرا ''کچھ تو کہو نا‘‘ بنتا ہے
نو صدیوں کا قصہ کہتا ہے ہم سے
جنگوں میں پشتون کھلونا بنتا ہے
شرط یہی ہے تیرے بدن کا لمس ملے
پیتل کا زیور بھی سونا بنتا ہے
آئینے کا مجھ پر ہنسنا جائز ہے
آئینے پر میرا رونا بنتا ہے
قید پرندے روز خدا سے پوچھتے ہیں
کیا ہم سب کا باہر ہونا بنتا ہے؟
آج کا مقطع
دھیان رکھتا ہوں ظفرؔ‘ زخمِ تماشا کا بہت
پھر بھی ٹانکے کئی کھل جاتے ہیں اکثر میرے