تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     20-03-2020

کورونا کا علاج …(2)

امریکی سائنسدان کورونا وائرس کی ویکسین بنا چکے ۔اب کلینیکل ٹرائلز ہورہے ہیں۔ کچھ دوسرے ممالک بھی ویکسین بنانے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ بڑے پیمانے پر ویکسین کی دستیابی تک یہ وائرس انسانوں اور عالمی معیشت کا کیا حال کرے گا؟ کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ وائرس امریکی لیبارٹریوں میں تیار کیا گیا ‘ تاکہ چین کو تباہ کیا جا سکے ۔کچھ کہہ رہے ہیں کہ چین والوں نے یہ وائرس امریکا کو تباہ کرنے کے لیے ایجاد کیا ہے ۔ آئیں اندر کی باتوں کا جائزہ لیں ۔ 
پہلے تواس سوال کا جائزہ لیں کہ چمگادڑ میں ایسی کیا خاص بات ہے کہ حالیہ برسوں میں سامنے آنے والے انتہائی ہلاکت خیز وائرسز SARS, MERS, Ebola, Marburgاور ممکنہ طور پر nCoV(کورونا ) بھی چمگادڑوں سے انسانوں میں منتقل ہوا ہے؟یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کی ایک ریسرچ کے مطابق ‘چمگادڑوں کا قدرتی مدافعتی نظام انتہائی طاقتور ہوتاہے ۔ ان میں وہی وائرس باقی بچتا ہے ‘ جو انتہائی طاقتور ہو اور طاقتور امیون سسٹم کے حملوں کے باوجود نا صرف زندہ رہ سکے‘ بلکہ ارتقا کر کے مزید طاقتور ہو سکے ۔ وائرس کو ایک زندہ میزبان (Host)کی تلاش ہوتی ہے ۔ یہ طاقتور وائرس جب انسانوںمیں منتقل ہوتاہے تو ہلاکت خیز ثابت ہو تاہے ۔ 
سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کورونا‘ اگر انسانوں نے لیبارٹری میں تیار کر کے دشمنوں کو تباہ کرنے کے لیے چھوڑ ا ہے تو اس کا فائدہ کس کو ہو رہاہے ؟ چین کی پیدا وار بری طرح متاثر ہوئی ۔امریکا سمیت عالمی معیشت کو نقصان پہنچا۔ فائدہ کسے پہنچا؟ ماسک اور جراثیم کش ادویات بنانے والی کمپنیوں کو ؟ کیا ادویات بنانے والی کمپنیاں کورونا وائرس بنانے اور پھیلانے میں ملوث ہیں ۔اگر ایسا ہے تو عالمی معیشت کو خوفناک نقصان پہنچنے کے باوجود سی آئی اے سمیت امریکی اور چینی خفیہ ایجنسیاں کہاں مری ہوئی ہیں ؟ ایڈورڈ سنوڈن کے انکشافات کے مطابق ‘جو فیس بک اور گوگل سمیت ہر چیزکی جاسوسی کر رہی ہیں ۔ 
ادھرچمگادڑوں پر تجربات کے بعد سائنسدانوں پر یہ انکشاف ہوا ہے کہ یہ سب اتفاق ہرگز نہیں ۔یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سمیت دنیا بھر کے سائنسدان‘ بالخصوص امریکی اور چینی اس وقت پاگلوں کی طرح چمگادڑوں کا مطالعہ کر رہے ہیں۔"Bat One Health" کے نام سے امریکا ایک پراجیکٹ کو فنڈ کر رہا ہے ۔ یہ پراجیکٹ بتاتا ہے کہ چمگادڑ دوسرے میملز جیسا ایک میمل ہرگز نہیں ۔ یہ بھی کہ دنیا میں جیسے جیسے چمگادڑوں کے مسکن ختم کیے جا رہے ہیں ‘ تو انسانوں اور دوسرے جانوروں کے ساتھ چمگادڑوں کا interaction بڑھ رہا ہے ۔ سائنسدانوں کو معلوم ہوا ہے کہ چمگادڑوں میں وائرس کی جیسی افزائشِ نسل ہوتی ہے ‘ کسی اور میں نہیں ہوتی ۔ Mike Bootsایک سائنسدان ہے ‘ جو کہ Disease Ecologistہے اور Integrative Biologyکا پروفیسرہے ‘یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں ۔ اس کی تحقیق جرنل eLifeمیں شائع ہوئی ہے اور دنیا بھر کے سائنسدان اس تحقیق کا مطالعہ کر رہے ہیں ۔ وہ کہتاہے کہ یہ کوئی اتفاق نہیں کہ ایسے اکثر وائرس چمگادڑوں سے آر ہے ہیں ۔
Boots چوٹی کے ان 23امریکی اور چینی سائنسدانوں میں شامل ہے ‘ جنہوں نے مشترکہ طور پر جرنل Eco Healthکے لیے ایک پیپرلکھتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ کہ دونوں طرف کے سائنسدانوں کا اشتراکِ عمل تیز کیا جائے ۔ اگر انسانی سازش سے یہ وائرس دنیا میں پھیلایا گیا ہے تو آپ کا کیا خیال ہے کہ دنیا کے چوٹی کے ان سائنسدانوں کو اس کا اندازہ نہیں ہوگا ؟ امریکا اور چین کے انتہائی ترقی یافتہ خفیہ اداروں کو اس کا علم نہیں ہو گا۔ اگر امریکا نے یہ کارنامہ سرانجام دیا ہوتا تو چین اب تک باضابطہ طور پراس معاملے کو اقوامِ متحدہ میں اٹھا چکا ہو تا۔ 
چمگادڑوں کا مطالعہ کرنے والے حیران ہیں ۔ انتہائی تیز میٹابولک ریٹ ‘ انتہائی تیز رفتار جسمانی سرگرمیاں ۔اپنے ساتھ کے میملز کی نسبت چمگادڑوں کی عمر انتہائی زیادہ ہے ۔ چمگاڈر چالیس سال بھی زندہ رہتی ہے ‘ جبکہ اسی سائز کا چوہا دو سال میں مر جاتاہے ۔ وائرس کے خلاف چمگادڑ میں ایک مالیکیول پیدا ہوتاہے ‘ جسے کہتے ہیں؛ Alpha interferon۔یہ دوسرے خلیات کی رہنمائی کرتا ہے کہ وائرس کو کیسے تنہا کرنا ہے ۔ چمگادڑوں کا انتہائی طاقتور امیون سسٹم انتہائی تیزی سے وائرس پر حملہ کرتاہے ۔ اس کے نتیجے میں وائرس بھی زندہ رہنے کی بھرپور کوشش کرتے ہوئے زیادہ تیزی سے ارتقا کرتاہے ۔ 
ان چمگادڑوں کے لعاب اور بول وبراز میں یہ وائرس ہوتاہے ۔دنیا کی بڑی لیبارٹریز میں ان پر تجربات کیے جا رہے ہیں ‘ پھر نتائج کے مطابق ‘ایلو پیتھک دوا ساز کمپنیاں اپنی پیداوار شروع کر دیں گی ۔ آپ کے خیال میں دنیا سے پولیو کیسے ختم ہوا؟جواب : ویکسی نیشن سے ۔ اگر علامات کے ظاہر ہونے کا انتظار کیا جاتا تو اس وقت ساری دنیا لنگڑی ہوتی اور سالانہ دس پندرہ کروڑ لوگ پولیو سے مر رہے ہوتے۔ ان سائنسدانوں نے لیبارٹری میں Egyptian fruit batنامی چمگادڑ میں وائرس داخل کر کے اس کا مطالعہ کیا ہے ۔ انہوں نے دیکھا کہ ان کا امیون سسٹم بہت تیزی سے وائرس پر حملہ آور ہوتاہے ۔ اس کے مقابلے میں جب ایک بندر میں marburg وائرس داخل کیا گیا تو امیون سسٹم کا responseبہت سست تھا ‘اسی وائرس کے حملے میں بندر میں interferonپیدا ہی نہیں ہوتا۔ایبولا کے حملے میں بندر کے خلیات مرنے لگتے ہیں ‘ جبکہ چمگادڑ کا امیون سسٹم اسے بچا لیتاہے ۔ 
یہاں میں یہ وضاحت کرتا چلوں کہ میرے گزشتہ کالم میں alternative medicineپر جو تنقید کی گئی ‘وہ قومی ہربل دوائیں بنانے والے اداروں پر نہیں تھی ‘ کیونکہ ان اداروں نے کبھی کینسر کو دنوں میں ختم کرنے جیسے دعوے نہیں کیے‘ لیکن میں ایلو پیتھی کا قائل ہوں تو اس کی بہت ٹھوس وجوہ ہیں ۔ ایلو پیتھی میں طلبا کو انتہائی سخت امتحانی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ انتہائی ذہین اور محنتی طلبا کے علاوہ ایک بہت بڑی تعداد فیل ہوتی ہے ۔ دوسری طرف alternative medicineمیں یہ دیکھا گیا ہے کہ داخلہ لینے والا ناکام نہیں ہوتا ۔ ایلو پیتھی میں specializationہے ‘ جبکہ اکثر صورتوں میں ایک ہی حکیم بالوں سے لے کر کینسر تک ساری بیماریوں کا علاج کر رہا ہوتا ہے ‘ جو کہ بالکل بھی پروفیشنل روّیہ نہیں ۔ ایلو پیتھی میں ایکسرے ‘ الٹرا سائونڈ اور اینڈو سکوپی سمیت تشخیص کیلئے انتہائی جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جاتا ہے ۔آسانی سے پتہ چل جاتاہے کہ کینسر معدے میں ہے یا آنت میں ؛حالانکہ دونوں کی علامت بظاہر ایک ہو سکتی ہیں ۔ صرف ایلو پیتھی ہی ہے ‘ جس میں انتہائی پیچیدہ سرجری کرنے کی صلاحیت ہے ۔ alternative medicine والوں کو اگر سرجری کی اجازت دی جائے تو روزانہ ملک میں ہزاروں جنازے اٹھیں ۔ اس لیے کہ کٹ لگانے کے بعد معاملات سنبھالنا خوفناک حد تک مشکل کام ہے۔سرجن ذرا سا بھی نکما ہوگا تو مریض مر جائے گا۔ کئی ایلوپیتھک ڈاکٹر لالچی ہوتے ہیں‘ اسی طرح جیسا کہ بہت سے پراپرٹی ڈیلر ‘ سنار اور دیگر‘ لیکن ایلوپیتھی ‘جس ٹیکنالوجی کو استعمال کرتی ہے ‘ وہ بہت جدید ہے۔سوال یہ ہے کہ ایک لینڈ کروزر کا ڈرائیوراگر لالچی ہے‘ جبکہ سائیکل چلانے والا انتہائی نیک تو بھی آپ سائیکل جیسی ٹیکنالوجی کا لینڈر کروزر سے موازنہ تو نہیں کر سکتے ۔ 
دو دن پہلے میں نے ایک نیشنل ریڈیو پر ایک حکیم صاحب کا خطبہ سنا۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ جو بچّے پیدائشی طور پر ذہنی معذور ہوتے ہیں ‘ ان کے لیے حکیم صاحب کے پاس ایک دوائی ہے ‘ جس سے دماغ میں نیورونز بننا شروع ہوجاتے ہیں ۔(جاری )

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved