تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     21-03-2020

کورونا پر سیا ست اور ظرافت

جب ایران میں قم اور دوسری زیارات سے پاکستان پہنچنے والے زائرین کو تفتان بارڈر پر قرنطینہ میں ٹھہرایا گیا اور کوروناوائرس کے ابتدائی ٹیسٹ کئے گئے تو یہ وہ وقت تھا جب ابھی ایران میں بھی کوروناکے ٹیسٹ شروع نہیں ہوئے تھے اور کراچی میں پانچ افراد کے کوروناٹیسٹ مثبت آئے ‘ لیکن تفتان کیمپ کی زبوں حالی بارے تیار کی گئی ایک ویڈیو گزشتہ چند روز سے سوشل میڈیا پر بہت وائرل کی جارہی ہے اور کچھ میڈیا چینل اس ویڈیو کو تنقیدی تبصروں کے ساتھ دکھا رہے ہیں ۔اس ویڈیو کو غور سے دیکھئے‘ اگر تو یہ پاکستان کی حدود میں ہے تو تفتان کے اس سنٹر میں کام کرنے والا کوئی ایک پاکستانی سٹاف ممبر آپ کو نظر کیوں نہیں آتا ؟جس وسیع و عریض برآمدے کی ویڈیو دکھائی گئی ہے اس میں کوئی ایک بھی پاکستانی اہلکار کیوں نہیں ہے؟ اس ویڈیو میں کسی بھی جگہ پاکستان کا قومی پرچم کیوں دکھائی نہیں دیتا؟
تفتان کے اس قرنطینہ سنٹر کی تمام سکیورٹی پاک فوج کے سپرد ہے‘ زائرین کو عام حالات میں بھی تفتان سے کوئٹہ تک لے کر آنے والی بسوں کو دہشت گردوں کے حملوں سے محفوظ رکھنے کیلئے قافلوں کی صورت میں ایف سی کے جوان لے کر آتے ہیں۔ اس پورے کیمپ اور اس کے ارد گرد کی ویڈیو میں کسی بھی جگہ نہ تو پاکستان کی کوئی گاڑی اورنہ ہی کہیں پر ایک بھی پاکستانی فوجی یا سکیورٹی اہلکار نظر آ تا ہے۔ اس ویڈیو کو دکھانے والوں کا ایک ہی سیا سی مقصد سامنے آتا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تنقید اور غصہ ابھارا جائے۔ اس ویڈیو میں کمنٹری کرنے والا شہباز شریف اور ان کے گروپ کے افراد جیسی ہی تکرار کرتا دکھائی دے گا ۔ ویڈیو میں دکھاتے ہیں کہ تفتان میں ٹھہرائے گئے ہزاروں لوگوں کیلئے ٹائلٹ کا بند وبست نہیں اور جگہ جگہ چار چار بانس کھڑے کر کے ان کے ارد گرد موٹا سا کپڑا لپیٹ کر ٹائلٹ بنادیئے گئے ہیں۔ تفتان بارڈر اگر کسی نے دیکھ رکھا ہے تو وہی اندازہ کر سکتا ہے کہ وہاں ایران یا پاکستانی حکومت کی جانب سے فوری طور پر کیا جانے والا یہ بندو بست بھی کس قدر مشکل تھا‘ کیونکہ کوئٹہ سے تفتان کا سفر چھ سو کلو میٹر سے زائد اور گیارہ گھنٹوں سے کم نہیں ۔ یہ ویڈیو تیار کرنے والا وزیر اعظم عمران خان کا نام لے کر جو زبان استعمال کر رہا ہے اسی سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ ویڈیو کن لوگوں نے تیار کی اور اب اسے وسیع پیمانے پر اپنے سوشل میڈیا سیل کے ذریعے کیوںپھیلایا جا رہا ہے ؟
اکتوبر2005ء کے زلزلے میں مجھے امدادی ہیلی کاپٹروں کے ساتھ آزاد کشمیر جانے کا موقع ملا‘ ایک رات مجھے گڑھی دوپٹہ ٹھہرنے کا موقع ملا تو اس وقت اسی قسم کے ٹائلٹ پاک فوج کے کرنل‘ میجر اور کیپٹن رینک کے افسروں کیلئے عارضی طور پربنائے گئے تھے۔ اب اگر وہاں پختہ ٹائلٹ بنائے جاتے تو کوئٹہ سے اینٹ بجری سیمنٹ ریت ا ور دوسری ضروری اشیا لانے اور تعمیر کرنے کیلئے کم ازکم ایک ماہ کا عرصہ درکار ہونا تھا۔
یہ ہائی برڈ وار کی دنیا ہے اور یہاں جس نے بھی اپنے سوشل میڈیا کے ذریعے پراپیگنڈااور جھوٹی ویڈیوز‘ آڈیوز کواستعمال کرتے ہوئے بر وقت وائرل کر دیا‘ وہ اپنے مقابل کو اگر چاروں شانے چت نہیں تو حواس باختہ ضرور کر دیتا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ کوروناوائرس کے پردے میں کچھ لوگ اپنے پرانے بدلے چکانے میں مصروف ہیں‘ بلکہ معروف سیا ستدان ٹی وی پر کہہ رہے ہیں کہ عمران خان سے بدلہ لینے کا اب تو موقع ملا ہے‘ شایدایسے ہی موقعوں پر بزرگ‘ درویش اورعقل مند لوگ کہا کرتے تھے کہ انسان جس قدر چاہے پڑھ لکھ جائے ‘اعلیٰ ترین ڈگریوں سے لے کر بین الاقوامی تعلقات میں مہارت حاصل کر لے‘ لیکن اگر وہ یہ سبق یاد نہیں رکھتا کہ بہتان طرازی ‘جھوٹ اور غیبت خالقِ کائنات کے نزدیک ناپسندیدہ فعل گردانا گیا ہے ‘تو اس کا حاصل کیا گیا علم بنی نوع انسان کی فلاح کیلئے نہیں بلکہ اسے نفرت اور تباہی کے راستوں کی طرف لے جائے گا‘ علم کی اعلیٰ ترین ڈگری سے فیض یاب ہونے والوں میں اس کی جھوٹ‘ غیبت اور جعل سازی جیسی تمام سرشتیں بھی ساتھ ہی منتقل ہو تی رہیں گی۔ ہمیں اپنی زندگیوں‘ لین دین اور معاشرت سے لے کر زندگی کے تمام شعبوں میں روزِ حساب کے مالک کے ان احکامات پر کاربند رہنا چاہیے‘ لیکن اگر ہم کسی بڑے کو خوش کرنے کیلئے اپنی معلومات کی دھاک بٹھانے یا خود کو بہت بڑا لکھاری ظاہر کرنے کیلئے بہتان اور جھوٹ کا سہارا لینا شروع کر دیں تو وقتی طور پر آپ اپنے گھڑے گئے جھوٹ یا مذاق سے ٹارگٹ کی جگ ہنسائی کرا کر اپنے نام کی وقتی طور پر دھاک بٹھا لیں گے‘ لیکن دنیا کے یہ سب انعام اور کام عارضی ہیں‘ کیونکہ وہ دن قریب ہے جب ہم سب کو خالقِ کائنات کے دربار میں اپنے کہے گئے ہر لفظ کا حساب دینا ہو گا ۔
ایک صاحب نے دو دن ہوئے‘ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے حوالے سے ایک انگریزی اخبار میں لکھا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کو یہ علم ہی نہیں کہ کوروناکیا ہے اور یہ وبا ہے یا کوئی جراثیم ‘کیونکہ انہوں نے ایک اجلاس میں پوچھ لیا کہ کہ کوروناکاٹتا کیسے ہے؟ جس اجلاس کا حوالہ دیا گیا‘ اس میں شریک ایک صاحب سے جب سردار عثمان بزدار کے حوالے سے لکھے گئے اس فقرے بارے پوچھا تو وہ یہ کہنے لگے کہ جھوٹوں پر خدا کی لعنت۔اس الزام اور بہتان پر پی ٹی آئی کی ایک اتحادی جماعت کے خاندان کے رکن نے بھی مزے لیتے ہوئے ٹویٹ کیا ہے جو انتہائی قابل ِافسوس ہی کہا جا سکتا ہے۔کاش اس ٹویٹ سے پہلے وہ اس اجلاس میں شریک کسی ایک فرد سے تصدیق ہی کر لیتے۔
19 مارچ کو وزیر اعلیٰ ہائوس میں کوروناوائرس کے حوالے سے پنجاب حکومت کی اب تک کی جانے والی کوششوں اور مستقبل میں پیش آنے والے حالات پر تنقیدی جائزہ لینے کیلئے بلائے گئے اعلیٰ سطحی اجلاس میں چیف سیکرٹری پنجاب ‘ آئی جی پنجاب اور تمام صوبائی سیکرٹری صاحبان اور متعلقہ محکموں کے وزرا اس اجلاس میں شریک تھے اور جس انداز ‘ مہارت اور دانش مندی سے وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے ڈیڑھ گھنٹے تک یہ اجلاس کنڈکٹ کیا وہ ان کی معاملات تک رسائی کا ثبوت دے رہا تھا۔ سیکرٹری ہیلتھ یا چیف سیکرٹری کے علا وہ فنانس سیکرٹری اور سیکرٹری ایجو کیشن سے کورونامتاثرین کی صورتحال‘ عام مزدوروں‘ ڈیلی ویجرز‘ملازمین اور شادی ہالوں میں ہونے والی تقریبات پر عائد پابندیوں کی وجہ سے بے روزگار ہونے والے ہزاروں کی تعداد میں ملازمین کی دیکھ بھال اور ان کی خوراک کیلئے پریشان صوبائی چیف ایگزیکٹو نے چیف سیکرٹری پنجاب کو حکم دیا کہ جو سکول خالی ہیں وہاں لنگر خانے کھول دیئے جائیں اور اس سلسلے میں احساس پروگرام کے فنڈز کے حصول کیلئے وفاقی حکومت سے فوری رابطہ کریں۔ وزیر اعلیٰ عثمان بزدارکو دیکھاکہ ان میں کسی قسم کی رعونت یا چہرے پر طاری کی گئی سختی کا دور دور تک بھی شائبہ نہیں تھا ۔ ہاں جن کے متعلق انہیں اطلاعات تھیں کہ وہ اس نازک ا ور اہم ترین گھڑی میں اپنے فرائض صحیح طرح سے ادانہیں کر رہے ان سے سخت باز پرس کی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے جس طریقے سے اس اجلاس میں شریک افسران سے چھوٹی چھوٹی تفصیلات پوچھیں ان کی دی گئی معلومات درست کیں وہ بلا شبہ کسی بھی چیف ایگزیکٹو عہدے پر فائز شخص کی صلاحیتوں کی پہچان تھی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved