ان کے گھر پہلے بچے کی پیدائش ہوئی‘ بہت پیارا صحت مند بیٹا تھا‘ سبھی بہت خوش تھے۔ اس کا نام شان رکھا گیا ‘لیکن چند ہی دن میں ایسا محسوس ہوا کہ بچے کے جسم کا ایک حصہ دوسرے حصے سے تھوڑا چھوٹا ہے اوروہ صحیح طرح حرکت نہیں کر رہااور رو بھی نہیں پارہا۔ جب اس کو ہسپتال لے کر گئے تو پتہ چلا کہ بچہ سیربرل پالسی کا شکار ہے۔زارا اور بختیار حیران تھے کہ بظاہر بالکل ٹھیک نظر آنے والا بچہ اس بیماری کا شکار کیسے ہوگیا؟سیربرل پالسی بیماری میں بچوں کے دماغ کی نشوونما مکمل نہیں ہوپاتی‘ جس کی وجہ سے ان کے اعصاب پر فرق پڑتا ہے۔اکثر بچے اس میں چل نہیں پاتے‘ بول نہیں پاتے اور کچھ کیسز میں بات کرنے اورچیزیں سمجھنے سے بھی قاصر ہوتے ہیں‘ یعنی دماغی اور جسمانی بیماری دونوں ایک ساتھ حملہ آور ہوتی ہے۔کچھ کیسز میں بچوں کو دورے بھی پڑتے ہیں جوکہ بچے کو دماغی اور اعصابی طور پر مزید کمزور کردیتے ہیں۔
یہ خبر ان دونوں کے لیے بہت تکلیف دہ تھی۔اتنے چھوٹے سے بچے کے ٹیسٹ‘ اتنی دوائیاں اور ان کا بچہ روتا بھی نہیں تھا کیونکہ بیماری کی وجہ سے اس کے پاس قوت ِگویائی نہیں تھی۔جیسے جیسے بیٹا بڑا ہونے لگا تو اس کی معذوری سب کے سامنے آگئی‘ وہ چل نہیں سکتا تھا‘ بول نہیں سکتا اور چیزیں پکڑ نہیں سکتا تھا۔ یہاں سے کڑا امتحان شروع ہوا۔لوگوں نے ان کو طعنے دینا شروع کردیے کہ یہ بچہ ایسا کیوں ہے ‘تم دونوں نے ضرور کوئی گناہ کیا ہوگا‘ لگتا ہے کسی کی بددعا لگ گئی ہے۔ان کے اپنے خاندان میں گود بھرائی کی تقریب تھی‘ زارا کو صرف اس لیے رسم نہیں کرنے دی گئی کہ کہیں ان کے جیسا بچہ نا پیدا ہوجائے۔ وہ ساری تقریب میں مجرم کی طرح کھڑی رہی اور اپنے آنسو روکتی رہی۔وہ اپنے بچے کے کپڑے دھو کر رسی پر ڈال رہی تھی‘ اس کی اپنی بھابھی نے یہ کہہ دیا کہ اپنے بچے کے کپڑے ہمارے بچوں کے ساتھ نہ ڈالیں ان کو جراثیم نہ لگ جائیں۔وہ بہت روئی‘ سب اس کو مشکوک نظروں سے دیکھتے تھے۔لوگ اس کو طعنے دیتے تھے‘ اس کو کہتے‘ اور بچے پیدا نہ کرنا تم میں کوئی نقص ہے ‘جبکہ ایسا نہیں تھا ‘زارا اور بختیار اچھے انسان تھے۔
بیٹے کی بیماری اور لوگوں کی نفرت نے زارا کو ذہنی مریض بنا دیا‘ وہ ہر وقت روتی رہتی‘تاہم اس کے شوہر نے اس کا بہت ساتھ دیا‘ وہ بچے کا بھی خیال کرتا اور اس کا بھی دھیان کرتا۔پھر ایک ماہر نفسیات سے ملنے کے بعد اس کی زندگی میں تبدیلی آئی ۔ اُس نے دونوں میاں بیوی کا سمجھایا کہ دماغی اور جسمانی معذوری کے پیچھے طبی وجوہات ہوتی ہیں‘ یہ کسی بددعا یا جادو ٹونے کا نتیجہ نہیں ۔یہ قسمت میں لکھا تھا کہ آپ دونوں نے دنیا میں جنت کمانی تھی۔ ایک خصوصی بچے کی خدمت اور اس سے پیار کرکے آپ کو جو روحانی سکون ملے گا وہ شاید کسی اور چیز سے میسر نہ آئے۔نابینا پن ‘ قوت گویائی قوت سماعت سے محروم تو عام انسان بھی ہوسکتا ہے‘ کچھ حادثات میں انسانوں کا ذہنی توازن بگڑ جاتا ہے اسی صورت میں علاج اور تھراپی سے کوشش کی جاتی ہے کہ انسان کو اس قابل کیا جائے کہ وہ روزمرہ زندگی میں اپنا تھوڑا حصہ ڈال سکے۔ماہر نفسیات نے ان دونوں کو سنٹر برائے خصوصی اطفال میں بھیج دیا‘یہ سرکاری ادارہ تھا‘ سہولیات تو کم تھیں‘ لیکن سٹاف بہت اچھا تھا‘ انہوں نے شان کو مختلف ورزشیں کروانا شروع کیں‘فزیو تھراپی کروائی گئی‘ اس کے لیے خصوصی جوتے بنوائے گئے۔تھراپی ‘علاج اور اساتذہ کی وجہ سے شان میں بہت تبدیلی آئی۔پہلے جو شان ہر وقت بستر پر رہتا تھا‘ اس نے چیزیں پکڑنا شروع کردیں اور چلنے کی کوشش کرنے لگا۔دو سال میں شان بیٹھنے اور ہاتھ سے چیزیں کھانے کے قابل ہوگیا۔زارا اور بختیار دونوں مل کر شان کا کام کرتے‘تاہم وہ یہ دیکھتے کہ خصوصی بچوں کے لیے نہ ہی پارکس میں جھولے ہیں اور نہ ہی ان کیلئے کھلونے بازار میں ملتے ہیں۔وہ اکثر یہ ناانصافی دیکھ کر اداس ہوجاتے۔شان کو اپنے سکول میں بہت سے دوست مل گئے ‘کوئی بول نہیں سکتا تھا ‘کوئی چل نہیں سکتا تھا ‘کوئی دیکھ نہیں سکتا تھا‘ لیکن سب بہت پیارے ۔یہ بچے تو دنیا کی ہر چیز سے زیادہ معصوم تھے‘ ایک دوسرے سے کوئی نفرت نہیں تھی‘ وہاں سب کی مل کی سالگرہیں منائی جاتی۔بہت سے خاندان ان خصوصی بچوں کی بدولت قریب آگئے۔بختیار کی ٹرانسفر ہوگی‘ جب دوسرے شہر میں آکرانہوں نے شان کو خصوصی بچوں کے سکول میں داخل کروایا تو وہ یہ سن کر حیران رہ گئے کہ فیس پچاس ہزار روپے ماہانہ تھی‘ یہ سکول صرف خصوصی بچوں کے والدین کو لوٹنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ایسے سکول شاید پورے ملک میں بہت جگہ ہوں‘ لیکن حکومت کی دلچسپی نہیں ‘شاید خصوصی بچے ان کی ترجیح نہیں۔زارا نے شان کی ہوم سکولنگ شروع کروادی اور ساتھ ہی ڈاکٹر سے سپیچ تھراپی اور ایکسر سا ئز بھی۔وقت گزرتا گیا آج شان آٹھ سال کا ہے‘ وہ خود چل سکتا ہے ‘ اپنے ہاتھ سے کھانا کھاسکتا ہے اور تھوڑا تھوڑا بول لیتا ہے۔بہت اچھی تصویریں بناتا ہے‘ سب کہتے ہیں یہ بڑا ہوکر آرٹسٹ بنے گا۔وہ خصوصی بچوں کیلئے قائم سرکاری سکول میں جاتا ہے ‘اس کی والدہ خود اس کو لے کر جاتی ہیں‘ تھراپی‘ کونسلنگ اور علاج نے اس کو پہلے سے بہت فعال کردیا ہے۔ طبی بنیادوں پر وہ مکمل طور پر صحت یاب نہیں ہوسکتا‘ لیکن وہ اب کسی پر بوجھ نہیں ہے۔
خصوصی ضروریات کی چار اقسام ہیں‘ وہ جن کو جسمانی مسائل ہوں‘جنہیں نشوونما میں مسائل کا سامنا ہو‘ جن کو جذباتی رویے اور دماغ کے مسائل ہوں اور جس میں کمزوری شامل ہے۔بچوں میں یہ بیماریاں عام ہیں:Down syndrome‘ Autism‘ ADHD ‘Bipolar disorder ‘Dystrophy‘ Epilepsy‘ Dyslexia‘Visually impaired and Blindness ۔ان سے مکمل صحت یاب تو نہیں ہوسکتے‘ لیکن تھراپی اور ادویات سے جزوی فعال کیا جاسکتا ہے۔
خصوصی بچے بھی اللہ کی تخلیق ہیں‘ یہ کسی گناہ‘ جادو یا نظر بد کا نتیجہ نہیں ۔بچوں میں معذوری طبی وجوہات کی وجہ سے ہوتی ہے‘ ایسے بچوں سے پیار کرکے اوران کی خدمت کرکے ہم دنیا میں جنت کماسکتے ہیں۔کسی بھی بچے کی معذوری کا مذاق نہ اُڑائیں‘ اس کے والدین کو طعنہ نہ دیں‘ یہ سب قدرت کے فیصلے ہیں‘ جن پر ہم سب کو راضی ہونا چاہیے۔پاکستان میں خصوصی بچوں کے لیے سہولیات کا فقدان ہے‘ سرکاری سطح پر قائم سکولز میں ان کیلئے سہولیات بہت کم ہیں۔پرائیویٹ سیکٹر میں فیس بہت زیادہ ہے‘اس لیے ہم سب کو ان بچوں کیلئے کام کرنا ہوگا اورا ن کے والدین کا بھی ساتھ دینا ہوگا۔ صرف بچے نہیں والدین کو بھی طریقہ کار سمجھنا ہوگا کہ خصوصی بچوں کی دیکھ بھال کیسے کرنا ہوگی۔ان کے ساتھ نفرت نہیں دوستی اور پیار سے پیش آنا ہوگا۔خصوصی بچوں کو علاج ‘ تھراپی‘ مختلف قسم کے آلات اور خصوصی کتابوں کی ضرورت ہے۔ ان کے جوتے اور کپڑے بھی الگ ہوتے ہیں۔ اس پر حکومت کو توجہ دینی چاہیے۔خصومی بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں پرکام کرنا چاہیے‘ کل کو ان ہی بچوں میں سے بڑے خطاط‘ مصور اورآرٹسٹ پیدا ہوں گے۔خصوصی بچوں کے سکول ‘ ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ اور ریمپ بنائے جائیں۔ان کیلئے پارکس‘ مالز اور سینماز میں خصوصی انتظامات ہونے چاہئیں۔ہمیں خصوصی بچوں کے لیے سپیچ تھراپسٹ‘ فزیو تھراپسٹ‘ایکسرسائز انسٹرکٹرز اورسپشل ایجوکیشن ماہرین اساتذہ کی ضرورت ہے۔
خصوصی بچے اللہ کی نعمت ہیں‘ جن سے شفقت اور خدمت کرکے ہم جنت کماسکتے ہیں۔ جب بھی کسی خصوصی بچے کو دیکھیں‘ اس کے والدین سے غیر ضروری سوال نہ کریں۔ والدین کی اجازت سے اس بچے کے سر پر پیار سے ہاتھ رکھ دیں اور دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس کے والدین کو استقامت دے اور وہ اسی طرح اپنے بچے کا خیال کرتے رہیں۔خصوصی بچے عذاب نہیں جنت کے پھول ہیں‘انہیں پاگل مت کہیں‘ ان کے والدین کے ساتھ بدتمیزی نہ کریں‘ ان کو تکلیف نہ دیں۔