تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     22-03-2020

ایک سست معاشرے کی کہانی

ہمارے اندر کیسے ڈی این اے اور کیسے جینز ہیں کہ جب تک آسمان نہ آن گرے ہم کچھ کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔دو ماہ کا بہت اہم وقت تھا ہمارے پاس‘ لیکن ہم سب جگتیں مارتے رہے‘ خود بھی ریلیکس رہے اور حکومت سے بھی یہی توقع رکھی کہ وہ ریلیکس رہے گی۔ ٹوئٹر اور فیس بک پر ایسی ایسی جگتیں پڑھنے کو ملیں کہ یوں لگتا تھا کہ وائرس پاکستان میں داخل ہوگا تو یہاں اس کے استقبال کے لیے باقاعدہ رقص و سرود کی محفلیں ہوں گی‘ استقبالیے دیے جائیں گے۔
اس عوامی اپروچ کا یہ نتیجہ نکلا کہ حکومت بھی اس جگت بازی کے کھیل میں شریک ہوگئی۔ جب عوام کو ہی پروا نہ ہو تو حکومت کیوں زحمت کرے۔ ہمارے ہاں یورپین ٹائپ حکمران نہیں جو عوام کا رسپانس دیکھنے کی بجائے خود عوامی مفاد میں اقدامات شروع کر دیں کہ حکومتیں بنتی ہی اس لیے ہیں کہ عوام کا خیال رکھیں۔اس لیے اگر آپ جرمن چانسلر مرکل اور کینیڈا کے وزیراعظم کے اپنی قوم سے کئے گئے خطاب سنیں تو اندازہ ہوگا کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں کہ لیڈرشپ کیا ہوتی ہے اور اسے ایسے بحرانوں میں کیا کرنا چاہیے اور عوام ان سے کیا توقعات رکھتے ہیں؟لیکن کیا کریں ہمارے سامنے اٹلی کی مثال ہے‘ جنہوں نے وہی کچھ کیا جو پاکستانی قیادت کررہی ہے۔جو کچھ اٹلی میں ہوا‘ ایران میں ہوا ‘ اب خدانخواستہ وہی رویہ پاکستان میں نظر آرہا ہے۔اب اچانک افتاد سر پر آن کھڑی ہوئی ہے تو جیسے اچانک سوئے ہوئے بندے پر کوئی پانی کا جگ ڈال دے۔فوری طور پر میڈیا اینکرز کو بلا لیا گیا اور سارا ملبہ ان پر ڈال دیا گیا کہ وہ سنسنی خیز خبریں پھیلا کر ملک و قوم کی کوئی خدمت نہیں کررہے۔ یہ بات طے ہے کہ جب حکومتیں یا ادارے کچھ کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں تو ان کی پہلی کوشش یہی ہوتی ہے کہ کوئی ایسا بندہ یا ادارہ ڈھونڈا جائے جس پر سارا نزلہ گرایا جائے اور عوام کے غصے کا رخ اس طرف کر دیا جائے۔ اس کے لیے انگریزی میں ایک لفظ ہے punching bagجس کا مطلب ہے کہ اپنا سارا غصہ کسی اور پر نکالنا۔ پاکستان میں ایسے مواقع پر میڈیا پنچنگ بیگ بنتا ہے۔ اب اگر میڈیا عوامی مفادات اور جذبات کا خیال نہیں رکھتا تو عوام ناراض ہوتے ہیں کہ آپ لوگ بک گئے ہیں۔ اگر عوام کا خیال رکھتے ہیں تو حکومت وقت ناراض ہوجاتی ہے کہ لوگوں کو بھڑکایا جا رہا ہے۔
اب جس طرح کورونا وائرس پر سستی اور نااہلی کا مظاہرہ کیا گیاوہ اپنی جگہ ایک خوفناک تجربہ ہے اور اللہ سے دعا کی جا سکتی ہے کہ اس کے نتائج برے نہ نکلیں۔حیران ہوتا ہوں کہ ہماری حکومت اور ادارے کیوں اتنے سہل پسند ہیں۔ ہر بات پر کیوں ہم نے یہ رویہ اپنا لیا ہے کہ دیکھا جائے گا‘ کچھ نہیں ہوگا‘یہ بھی انسانی نفسیات ہے کہ وہ یہی سمجھتا رہتا ہے کہ جو برا دوسرے کے ساتھ ہوا ہے وہ ان کے ساتھ نہیں ہوگا۔جو کچھ اٹلی اور ایران میں ہورہا ہے وہ بہت خوفناک ہے۔ وہاں بھی یہی رویہ رکھا گیا‘ جو ہم اب پاکستان میں دیکھ رہے ہیں۔ جس لیول کا چیلنج سامنے آرہا ہے اس لیول کی تیاری اور رسپانس کہیں نظر نہیں آتا۔ ہماری اور اٹالین لوگوں کی عادتیں بہت ملتی ہیں‘ لہٰذا یہ فکر ہے کہ ہمارے ہاں بھی کورونا وائرس پر وہی نتائج نہ نکلیں جو وہاں نکلے ہیں۔ 
کیا ہمارے اندر کوئی بھی اس لیول کا شعور نہیں رکھتا کہ ہم چین اور ایران کی سرحد پر واقع ہیں‘ جہاں وائرس پھیلا ہوا ہے اور سب کو پتہ ہے۔ چین سے نہ سہی ایران سے وائرس آئے گا۔ اس کی وجہ پاکستان سے ہزاروں کی تعداد میں زائرین کا ایران کے شہر قم میں موجود ہونا تھا‘ جہاں وائرس کا حملہ سب سے زیادہ شدید ہوا۔بقول وزیراعلیٰ پنجاب: انہوں نے تین جنوری کو ہی انتظامات کا حکم دیا تھا جبکہ وزیراعظم فرماتے ہیں کہ پندرہ جنوری کو انہوں نے حکم دیا۔ چلیں پندرہ جنوری ہی مان لیں تو کیا ان دو ماہ میں ہم نے کوئی تیاری کی؟
یہ دو ماہ کی تیاری کا انجام ہے جو نظر آ رہا ہے؟
کیا حکومت کو پتہ نہیں تھا کہ ایران میں ہمارے بھائی‘ بہن‘ بچے ہزاروں کی تعداد میں گئے ہوئے ہیں‘ جنہوں نے واپس آنا ہے۔ ان کے لیے ایران پاکستان سرحد پر کیسا انتظام ہونا ہے کہ انہیں بھی تکلیف نہ ہو اور وائرس بھی پاکستان کے اندر نہ پھیلے۔ کیا دو ماہ میں وہاں ایک اچھا ہسپتال اور عارضی ہوٹل نہیں بن سکتا تھا‘ جہاں ان زائرین کو عزت و احترام سے رکھا جاتا؟ کیا چین سے مدد نہیں لی جاسکتی تھی کہ ہمیں فوری طور پر عارضی ہسپتال بنا کر دیں‘ جیسے انہوں نے ووہان میں کھڑا کر لیا تھا؟ کیا چین کے تجربات کا فائدہ نہیں اٹھانا چاہیے تھا کہ وہ اس وبا کو کیسے کنٹرول کررہے ہیں؟ ہمیں ڈاکٹروں کی ٹیموں کو ان سے ٹریننگ دلوانی چاہیے تھی اور سب سے بڑھ کر ہسپتالوں کو فوری طور پر بہتر کرنا چاہیے تھا کہ آئسولیشن وارڈز کہاں اور کیسے بنیں گے‘ وینٹی لیٹرز کتنے اور کہاں چاہیے ہوں گے؟اس طرح عوام کو ذہنی طور پر تیار کرتے کہ یہ وبا ہمارے ہاں آ سکتی ہے‘ لہٰذا احتیاط کرنا شروع کریں۔ میرا خیال ہے پاکستان خوش قسمت ہے کہ اسے پہلے پتہ تھا کہ ہمارے بارڈر پر یہ وبا ہے اور اس کے ہم پر کیا اثرات ہوسکتے ہیں؟
کم از کم ہمیں کچھ سبق سیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے تھی۔ چلیں چین نہ سہی‘ ایران میں جو کچھ ہورہا تھا وہیں سے ہم الرٹ ہوجاتے۔ایران میں کئی ہفتوں سے یہ سب کچھ ہورہا تھا ‘لیکن ہم رضائی اوڑھے سوئے رہے یا فیس بک پر جگتیں مارتے رہے۔اب ہمیں کہا جاتا ہے‘ دیکھیں اٹلی میں بھی یہی کچھ ہوا اورایران میں بھی۔ مطلب اٹلی اور ایران غلط کریں تو ہمارا جواز بن گیا۔ یہ سب سوالات اٹلی اور ایران کے عوام اپنی حکومتوں سے پوچھیں گے‘ ہمیں اپنی حکومتوں سے پوچھنا ہوگا کہ انہوں نے کیوں سہل پسندی کا مظاہرہ کیا؟ اب بھی حکومت یہی سمجھ رہی ہے کہ میڈیا سنسنی پھیلا رہا ہے‘ تو کیا میڈیا لوگوں کو ہسپتالوں کی حالت اور ڈاکٹروں کو درپیش خطرات کے بارے میں نہ بتائے؟ وہ حکومتوں پر دبائو نہ بڑھائے کہ خطرہ ہے کچھ خیال کریں؟ اب جو قرنطینہ مرکز یا لاہور سے ہولناک کہانیاں سامنے آرہی ہیں اس پر بھی میڈیا چپ رہے؟
اس میں کوئی شک نہیں پاکستانی عوام کو یہ سمجھانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے کہ ان کا فائدہ نقصان کیا ہے‘ ہم تو وہ قوم ہیں کہ پولیس کے کہنے پر سر پر ہیلمٹ اور گاڑی میں سیٹ بیلٹ نہیں باندھتے۔ ہمیں لگتا ہے شاید اس میں اس پولیس والے کا کوئی ذاتی فائدہ ہے۔ اس قوم کو کیسے سمجھا سکتے ہیں کہ ان کا باہر نکلنا کتنا خطرناک ہے؟ اب بھی اجتماعات جاری ہیں‘ شادی کی تقریبات چل رہی ہیں‘ پکنک اور تفریحی پروگرام ہورہے ہیں‘ ہلا گلا ہورہا ہے‘ کسی کو کوئی فکر نہیں۔ حکومت ڈری ہوئی ہے کہ اس نے لاک ڈائون کیا تو عوامی ردعمل آئے گا‘ لہٰذا انہوں نے بھی سوچا ٹھیک ہے عوام مرنے کو تیار ہیں اور انہیں یہ سب مذاق لگ رہا ہے تو پھر کیا کریں؟ لہٰذا اب سب کچھ اللہ توکل چھوڑ کر بیٹھ گئے ہیں۔
کالم لکھنے بیٹھا تو سوچا کس منہ سے میں یہ بھاشن دینے لگا ہوں‘ ساری عمر تو یہی کچھ کرتا آیا ہوں‘ جس کی تلقین ابھی دوسروں کو کرنے لگا ہوں۔ساری عمر ہم نے بھی کسی امتحان کے داخلے کی فیس وقت پر جمع نہ کرائی۔ اور تو اور جرمانے کے ساتھ داخلے کی ڈیٹ بھی گزاری۔ اکثر سفارشیں ڈھونڈ کر تاریخ گزرنے کے بعد چالان جمع کراتے۔ جب ہمارے ڈی این اے میں یہ چیزیں سرایت کر چکی ہیں کہ ہم نے اُس وقت جاگنا ہے جب بلا سر پر آ جائے گی‘ تو کیا ہوسکتا ہے؟ کس کوالزام دیں؟
ہاں حکومت کو اس لیے الزام دیا جاسکتا ہے کہ حکومتوں کو عوام سے زیادہ سمجھدار اور ایکٹو ہونا چاہیے۔ ایران ‘ اٹلی کی مثالیں دیکھ لیں عوام سمجھے حکومت جاگ رہی ہے‘ لہٰذا وہ مزے کرتے رہے۔ حکومت سمجھی عوام کو پروا نہیں تو ہم کیوں ایسے رولا ڈالیں۔
اس کہانی کا اخلاقی سبق یہ ہے کہ ہم جرمنی یا کینیڈا نہیں ‘جہاں لیڈرشپ کو پتہ ہے کہ انہوں نے عوام کو بچانے کے لیے کیاکرنا ہے۔
پاکستان جیسے ملکوں میں حکومتِ وقت سُستی اور جگت بازی افورڈ کرسکتی ہے‘ لیکن عوام نہیں۔ اٹلی اور ایران میں مارے عوام گئے ہیں حکمران نہیں...
باقی آپ سب ماشاء اللہ سمجھدار ہیں اور سب نے کرنی اپنی مرضی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved