تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     22-03-2020

سادگی کا تہذیبی ورثہ

ہم سب رسوم و رواج کے غلام بن چکے ہیں۔ شادی بیاہ سے لے کر مزارات کی زیارت تک سب رسومات ہماری ہی پیدا کردہ ہیں۔ وجہ کچھ بھی ہو جب ہم باہمی معاملات اور سماجی تعلقات کے حوالے سے تسلسل کے ساتھ رویوں کو دہراتے رہتے ہیں‘ تو وہ رواج کی سی حیثیت حاصل کر جاتے ہیں۔ پس ماندہ اور ترقی پذیر‘ خصوصاً قبائلی علاقوں میں رواج اخلاقی معیار کا درجہ بھی حاصل کر لیتا ہے۔ ایک ایسا پیمانہ جس سے بستیوں اور شہروں کے مکینوں کے لیے ہم آہنگ ہونا ناگزیر ہی نہیں ہوتا بلکہ اپنی شناخت اور حیثیت کو برقرار رکھنے کے لیے یہ ایک عادت سی بن جاتی ہے۔ رسوم و رواج معاشروں میں اس لحاظ سے ایک جبری پابندی کی علامت ہیں۔ گریز ممکن ہے‘ مگر مشکل۔ شاید یہ کہنا درست ہو گا کہ سب رسوم و رواج دقیانوسی‘ فرسودہ اور فضول نہیں ہوتے‘ کچھ اچھے اور مثبت بھی ہوتے ہیں۔ صدیوں اور نسلوں سے باقاعدگی کے ساتھ ان کی پاس داری اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کی سماجی افادیت علامتی ہو یا نفسیاتی بہرحال موجود ہے اورہر زمانے میں موجود رہی ہے۔ اس وقت میری توجہ ان رسومات کی طرف ہے جو فقط نمود و نمائش‘ دکھاوے‘ غرور اور دولت کے ضیاع سے متعلق ہیں۔ 
گزشتہ دو ہفتوں میں اپنی جامعہ کے محدود ماحول سے نکلنے کا موقع میسر آیا تو باہر کی بدلتی ہوئی وسیع دنیا کو پھر سے دیکھا۔ اس کا پھر سے مشاہدہ کیا۔ کچھ دیہات اور چھوٹے شہروں کا سفر کیا‘ جو پہلے بھی کئی بار زندگی کے مختلف ادوار میں کر چکا ہوں۔ یہ اب محاورہ نہیں بلکہ میری نسل کے عمر رسیدہ اساتذہ کے لیے ایک حقیقت ہے جس کا ادراک نئی نسل کے نوجوانوں کے لیے شاید اس لیے ممکن نہ ہو کہ انہوں نے بدلے ہوئے معاشرے میں آنکھ کھولی ہے۔ ماضی سے یکسر مختلف۔ یہ نا چیز سادہ زندگی‘ سادہ اطوار‘ فطری رعنائی اور قدرتی ماحول سے وابستہ رہنے والی انسانی حیات کو مسرت‘ اطمینان اور ذہنی و جسمانی صحت کا راز خیال کرتا ہے۔ یہ کامیاب زندگی کا صرف ایک ہی اور غالباً سب سے ابتدائی سبق ہے۔ اور بھی بہت کچھ پلے باندھنے کے لائق ہے‘ لیکن اسے خوش گوار زندگی کی کلید قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ یہاں مقصود اس علم اور فلسفے کا بیان ہے جو ہماری تہذیب‘ روایات اور ثقافت کا کسی زمانے میں مرکزی نکتہ تھے اور جن کو ہمیشہ مدِ نظر رکھا جاتا تھا۔ سادہ اور بے ریا طرزِ حیات‘ اپنے وسائل میں رہنے اور زندگی گزارنے کا سلیقہ‘ یہ اصول اختیار کر لیے جائیں تو کوئی شخص کسی دوسرے فرد کا محتاج کیسے ہو سکتا ہے؟ آج ہماری آبادی کا بہت بڑا حصہ دوسروں کا دستِ نگر ہے۔ اس لیے کہ ہم نے اپنے وسائل سے بڑھ کر رسوم و رواج کی پیروی کرنا اور نمود و نمائش کے لیے چھلانگیں لگانا شروع کر دی ہیں۔ اس کے برعکس وہ بھی ہیں کہ مال دار اور با حیثیت ہونے کے باوجود سادگی ان کا شعار اور اخلاقی معیار ہے۔ دوسروں کے لیے ایک روشن مثال۔
سب سے پہلے تو میں تذکرہ کرنا چاہوں گا ایک ایسی ہی تقریب کا‘ جو سادہ تھی اور پُروقار بھی۔ یہ تقریب ایک با وقار ادارے کے ایک سابق سربراہ کے ہاں منعقد کی گئی‘ جو دولت مند ہے‘ قومی سطح پہ ذاتی شناخت بھی رکھتا ہے مگر سادگی کا پیکر۔ اپنی ذاتی زندگی میں بھی اور معاشرتی رویوں کے حوالے سے بھی۔ ان صاحب کے اکلوتے بیٹے کی شادی کی تقریب میں صرف قریبی خاندان یا خاندانوں اور قریبی دوستوں کو مدعو کیا گیا تھا۔ عشائیہ گھر پہ ہی تیار ہوا تھا اور جو کچھ میز پہ سجایا گیا‘ وہ اپنی ہی زمین سے پیدا کیا گیا تھا۔ کڑی پکوڑا‘ ساگ‘ مکئی کی روٹی‘ چاول اور اپنے ہی پیڑوں سے اتارے گئے کینو۔ سب پُر لطف‘ سب پُر ذائقہ‘ سب خوش گوار۔ سب کچھ گھر پہ تیار کردہ دیسی گھی میں پکایا گیا تھا۔ اس دعوت کی حلاوت اور تازگی ہفتوں سے قائم ہے۔ پھر اہل خانہ کی طرف سے سہرے پڑھے گئے اور گیت بھی گائے گئے۔ وہی گیت جو صدیوں پہلے کبھی ایسی تقاریب میں بر صغیر کے شریف گھرانوں میں گائے جاتے تھے اور جو اب بھی ہمارے کلاسیکی ادب کا حصہ ہیں۔
مغربی دنیا میں بھی شادی بیاہ کی تقاریب شائستگی اور سادگی کی علامت ہوتی ہیں۔ امریکہ میں کم از کم تین دفعہ مختلف ریاستوں میں ایسی تقاریب میں شرکت کا موقع ملا۔ ان میں سے دو میرے کلاس فیلوز تھے۔ ایک محفل تو کسی پارک میں جھیل کے کنارے سجائی گئی تھی۔ پیانو پہ موسیقی کی دھنیں‘ کھلے میدان میں پھولوں کے درمیان تیس چالیس کے لگ بھگ مہمان دُلہا دلہن کے انتظار میں کھڑے تھے۔ وہاں رواج یہ ہے کہ سفید عروسی لباس میں ملبوس دلہن کرائے پہ حاصل کردہ لیموزین سے اترتی ہے۔ اس کا باپ اس کا ہاتھ تھامے ایک مناسب فاصلے سے پیدل چل کر درمیانی راستے سے گزرتا ہوا آخر میں منتظر مولوی صاحب اور دُلہا کے قریب آ کر رک جاتا ہے۔ فوراً ہی نکاح کی رسم ادا کی جاتی ہے۔ چند منٹوں میں وہ میاں بیوی کے رشتے میں منسلک مرتے دم تک اکٹھا رہنے کی قسمیں کھاتے وہاں سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ دعوت کا اہتمام کہیں اور یا قریب ہی کسی ہوٹل میں ہوتا ہے۔ زیادہ تر یہ تقاریب چرچ میں ہی ہوتی ہیں۔ میرے دوست سب سیکولر تھے۔ انہوں نے اپنی شادیوں کا انتظام پارکوں اور اپنے گھروں میں ہی کر رکھا تھا۔ مہمانوں نے تحفے ان کی ضرورت کے مطابق دئیے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ دوست مل کر ضرورت کی اشیا خرید کر ان کے گھر کسی سٹور پہ آرڈر کے ذریعے ترسیل کرا دیتے ہیں۔ وہاں بھی کم از کم متوسط طبقے میں سادگی ہی معیار ہے۔ 
پنجاب کے ایک ضلع میں جہاں حال ہی میں جانا ہوا‘ مشہور ہے کہ وہاں کے ایک زمیندار خاندان نے ایک شادی میں ایک ارب روپے خرچ کر ڈالے ۔ اس بارے میں کئی لوگوں سے سوال کئے گئے کہ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ کہاں سے ایک ارب روپے آئے اور ایک ہی تقریب میں کیسے خرچ ہو گئے۔ یقین نہیں آتا۔ ضرور اس میں مبالغہ آمیزی ہے‘ مگر اس مبالغہ آمیزی میں وہی خاندان پیش پیش ہے۔ فخر سے کہتے پھرتے ہیں کہ بھارت سے باورچی منگوائے‘ گانے بجانے والے بھی قریبی ہمسایہ ممالک سے آئے اور پاکستان کے سب مشہور فنکار مدعو کئے گئے تھے۔ دو ہفتے سے زیادہ ان تقاریب کا سلسلہ جاری رہا۔ یہ صرف ایک ہی مشہور شادی کا تذکرہ ہے۔ ایسی کئی اور مثالیں ہمارے ارد گرد موجود ہیں۔ آج کے دور کے بدلتے ہوئے تقاضوں میں دکھاوا غالب ہے۔ نو دولتیے بہت بڑی تعداد میں پیدا ہو چکے ہیں۔ کسی کی جائز دولت پر کون معترض ہو سکتا ہے‘ لیکن تہذیبی اخلاق اور سلیقے کا تقاضا ہے کہ اسے ایک امانت ہی خیال کیا جائے‘ خاندان اور سماج کی امانت۔ یہ تو پُرانے خیال ہیں‘ کون ان کو ماننے کے لیے تیار ہو گا‘ اور کس کو ہم سمجھائیں کہ دولت تو معاشرتی تعاون سے پیدا کی جاتی ہے یا حاصل ہوتی ہے‘ تو پھر اپنی تجوری میں رکھ کر اس پہ سانپ بن کر پہرہ دار بن جانا کہاں کا انصاف ٹھہرا؟ سب کا حصہ ہے اور جو کچھ خرچ ہو ضرورت‘ سادگی اور ذمہ داری کے تقاضے پورے کرتے ہوئے۔ 
یقین جانئے بڑی شادیوں کی تقاریب میں جاتے ہوئے گھبراتا ہوں۔ خصوصاً وہاں جہاں سادگی‘ خلوص اور برابری کے اصول پامال ہوں‘ جہاں دکھاوا غالب ہو اور وقار نام کی کوئی چیز دیکھنے میں نہ آئے۔ بڑی تقاریب کوئی عیب کی چیز نہیں۔ اگر سماجی حلقہ وسیع ہے تو یہ ایک ضرورت ہے مگر سادگی اور شائستگی تو قائم رکھی جا سکتی ہے۔ سادہ کھانا‘ سادہ انتظامات‘ اور نمود و نمائش سے پاک پُر وقار ماحول ہمارا حقیقی تہذیبی ورثہ ہے۔ مگر کیا کریں کہ آج مصنوعیت کا رنگ نمایاں ہے اور یہ پُر غرور خواہش کہ لوگ خاندان کی شادی کی تقریب کو نسلوں تک یاد رکھیں۔ اسی لیے تو جائز اور نا جائز دولت پانی کی طرح بہائی جاتی ہے‘ رعب جمانے کے لیے اور بناوٹی مقام کی تلاش میں۔ یہ سب کچھ دیکھ کر رنج نہیں ہوتا‘ ترس آتا ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved