تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     22-03-2020

سرخیاں‘ متن اور ابرار ؔاحمد کی نظم

لیڈر شپ کے بغیر تحریک چلے گی نہ الیکشن جیتا جا سکتا ہے: رانا ثنا
سابق وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ ''مقبول لیڈر شپ کے بغیر تحریک چلے گی نہ الیکشن جیتا جا سکتا ہے‘‘ اور چونکہ مقبول لیڈر شپ لندن جا کر بیٹھ گئی ہے اور واپس آنے کا نام ہی نہیں لے رہی‘ اس لیے اب ملک میں خاکسار ہی رہ گیا ہے‘ جو مقبول لیڈر شپ کا خلا پورا کرسکتا ہے‘ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ میری مقبولیت سے حسد کرنا چھوڑ دے اور میرے خلاف اپنی انتقامی کارروائی فوراً بند کر دے ‘کیونکہ ہم حکومت کی جملہ کارروائیوں کو انتقامی ہی سمجھتے ہیں‘ جو محض حسد پر مبنی ہیں اور کسی کو خوشحال اور کھاتا پیتا نہیں دیکھ سکتی اور جہاں تک آمدن سے زیادہ اثاثوں کا سوال ہے تو آمدن کے بغیر اثاثے بن ہی کیسے سکتے ہیں اور اگر بن سکتے ہیں تو کوئی بنا کر دکھائے‘ آپ اگلے روز لاہور میں خواجہ برادران کو مبارکباد دینے کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
صورت ِحال بگڑتی جا رہی ہے‘ حکومت تکبر کرنا چھوڑ دے: سراج الحق
جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''صورت حال بگڑتی جا رہی ہے‘ حکومت تکبر کرنا چھوڑ دے‘‘ اور میری طرف دیکھے ‘جس نے کبھی تکبر نہیں کیا؛ اگرچہ میرے پاس ایسی کوئی چیز ہے ہی نہیں‘ جس پر تکبر کیا جا سکے‘ ماسوائے روزانہ کی تقریر کے‘ جبکہ کوئی بھی اور لیڈر ملکِ عزیز میں روزانہ تقریر کرتا نہیں پایا جاتا اور ماشاء اللہ میرا یہ ریکارڈ ہے‘ جسے میں ہی توڑ سکتا ہوں‘ یعنی ایک دن میں دو دو تقریریں کر کے‘ اور جس دن تقریر نہ کروں کانوں سے شاں شاں اور پیٹ میں گڑ گڑ ہونے لگتی ہے‘ جبکہ کانوں کی شاں شاں تو میں برداشت کر سکتا ہوں ‘ پیٹ کی گڑ گڑ نہیں‘ جس کی وجہ بھوک بھی ہو سکتی ہے‘ کیونکہ جوں جوں میری تقریر چلتی جاتی ہے‘ پیٹ خالی ہوتا جاتا ہے۔ اس لیے میں نے سوچا ہے کہ کھانا ساتھ بھی رکھ لیا کروں اور تقریر کے دوران یہ نیک کام بھی جاری رکھوں۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
خواجہ برادران کی رہائی حق اور سچ کی فتح ہے: اویس نورانی
جمعیت علمائے پاکستان کے مرکزی جنرل سیکرٹری شاہ اویس نورانی نے کہا ہے کہ ''خواجہ برادران کی رہائی حق اور سچ کی فتح ہے‘‘ اور جو مقدمے کا فیصلہ آئے گا تو اسے بھی حق اور سچ کی فتح ہی تسلیم کرنا پڑے گا‘ اور اسی لیے میں نے خواجہ برادران کو مبارکباد بھی دے دی ہے‘ کیونکہ بعد میں تو ان کے ساتھ اظہار ہمدردی ہی کرنا پڑے گا‘ جبکہ میں ہر کام کو مناسب وقت پر کرنے میں یقین رکھتا ہوں ‘جبکہ خواجہ برادران نے بھی جو کام کیا ہے‘ اس کے لیے مناسب وقت وہی تھا‘ کیونکہ ایسے کارنامے اپنی حکومت کے دوران ہی کیے جا سکتے ہیں اور بعد میں وہی کچھ ہوتا ہے ‘جو ان کے ساتھ ہو رہا ہے اور شریف برادران کے ساتھ ہو چکا ہے‘ بلکہ ابھی مزید بھی ہونے والا ہے‘ جو کہ وہ بھی مناسب وقت ہی پر ہوگا؛ اگرچہ ان کی لندن سے واپسی کا کوئی مناسب وقت نہیں ہے‘ کیونکہ میری طرح وہ بھی مناسب وقت ہی پر یقین رکھتے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا کے لیے اپنا ایک تازہ ترین بیان جاری کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں ابرارؔ احمد کی نظم:
گردِ بے نیازی میں
کرو‘ جو جی میں آئے
توڑ کر رکھ دو
ہے جو کچھ بھی مرے
دل میں یا گھر میں
جس سے بھی
نسبت ہے کچھ میری
اسے کوڑے میں پھینکو
بارشوں میں
گندگی کے ڈھیر پر ڈالو
مجھے کرنا بھی کیا ہے‘ اب
کہ اپنی ہی کسی آواز میں گم ہوں
یہ رشتے بھی کبھی
خوش رنگ کپڑے تھے
سجا کرتے تھے ہم پر
اور انہیں میلا بھی ہونا تھا
اُدھڑ جانا تھا آخر کو
یہاں جو ہمدمی کا واہمہ ہے
اصل میں زنجیر ہے
جبر مشیت کی‘ معیشت کی
کہ کب کوئی بھی دل
جا کر کبھی دھڑکا کیا ہے‘ اور سینے میں
کہ کب اکڑی ہوئی گردن کو
سجدے نرم کرتے ہیں
رعونت---تلملاہٹ ہے!
ہنسی آتی ہے
ایسی بے ٹھکانا تمکنت پر
رحم آتا ہے---
تو بس یہ التفاتِ دائمی
کچھ بھی نہیں
ماتھے پہ
گہرائی تلک جاتے
نشاں کی ٹیس سے بڑھ کر
مدارِ وقت میں تنہا ہی چکر کاٹتا
آخرنکل جاتا ہے انساں
اور کھو جاتا ہے
گردِ بے نیازی میں
آج کا مقطع
اتنا ہی غم میں سوکھتا جاتا ہوں اے ظفرؔ
جتنا ہرا بھرا مرے بھائی کا باغ ہے

 

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved