تحریر : عندلیب عباس تاریخ اشاعت     22-03-2020

د نیا وقفے پر ہے

برق رفتار ‘ ہنگامہ خیزاور ہیجان خیز زندگی‘ آگے نکلنے کی دوڑ‘ نئی منازل طے کرنے کا جنون اور بقول علامہ اقبال انسانی زندگی ''ہے گرمی ٔ آدم سے ‘ ہنگامہ ٔ عالم گرم‘‘ کی عملی تفسیر ہے۔انسان ہوا کے گھوڑے پر سوار ‘علم کے قلزم کا شناور‘ کاروبار میں مشروم گروتھ ‘نت نئی مصنوعات اتنی تیزی سے سامنے آرہی تھیں کہ صارفین کو ایک چیز سے آشنائی ہوتی ہی تھی کہ اُس کی ایک اور جدت آفرین شکل سامنے آجاتی ۔ دنیا چوتھی نسل کے صنعتی انقلاب اور پانچویں نسل کے سائبر انقلاب کی طرف بڑھ رہی تھی۔ ہوائی جہاز زیادہ تیز رفتار ہونے کے علاوہ مزید آرام دہ اور وسیع ہوتے جارہے تھے ۔ دولت ‘معلومات اور وقت کی رفتار کے درمیان حد ِ فاضل مٹتی جارہی تھی۔الغرض ترقی کی یہ غیر معمولی رفتار ایک معمول بن چکی تھی ‘جب کورونا وائرس نے اچانک ایک پتھر گرا دیا‘ چکاچوند ترقی کے شیش محل میں دراڑیں پڑنا شروع ہوگئیں ‘ روشن مستقبل کی بنیادیں سرکنے لگیں‘ بڑھتے ہوئے قدم ٹھٹھک گئے‘ سفر کی رفتار جیسے تھم سی گئی۔ گزشتہ دوہفتوںکے دوران ہونے والی پیش رفت ناقابل ِ یقین دکھائی دیتی ہے۔ عام افراد سے لے کر ٹام ہانکس جیسے شہرت یافتہ اداکار اور فلم ساز بھی کورونا وائرس کے خطرے سے دوچار ہیں‘لیکن آنکھ جو کچھ دیکھ رہی ہے‘ اُس پر یقین کیے بغیر چارہ نہیں۔ ہیتھرو ایئرپورٹ پر اترتے ہی انسان مسافروں کے ہجوم اور امیگریشن اور سامان وصول کرنے والے کائونٹرز پر طویل قطاروں کے لیے ذہنی طور پر تیار ہوتا ہے ‘ اگر آپ اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں تو شاید دنیا کی کوئی چیز آپ کو یقین نہیں دلا سکتی کہ وسیع و عریض ٹرمینل 3ایک خالی ہال کا منظر پیش کررہا ہے ؛ ملازم بے کار کھڑے ہیں۔ وہاں کوئی مسافر نہیں‘ جسے وہ گائیڈ کرسکیں ‘ جس کام میں طویل وقت صرف ہوتا تھا۔اب‘ وہ چندمنٹوں میں ہوجاتا ہے ۔ ہر کوئی وہاں سے فوراً نکل جانے کی کوشش میں ہے ‘تاکہ کسی سے جسمانی رابطہ نہ ہونے پائے ۔ یہ مناظر آپ کو بتاتے ہیں کہ دنیا میں کیا ہوا ہے‘ اور مزید کیا ہوسکتا ہے ۔ سب سے پہلے سفر اور سیر وسیاحت کے بزنس پر ضرب پڑی ہے۔ ایئرپورٹس وائرس کے پھیلائو کا سبب سمجھے جارہے ہیں۔ سماجی میل جول خطرناک قرار دیا جاچکا ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ سیاحت‘ سفر‘ ملاقات‘ کانفرنس اور اجتماعات سمیت بہت کچھ بند ہے ۔ 5.7 ٹریلین ڈالر کا ریونیو رکھنے والی ٹریول انڈسٹری کا شمار دنیا کی عظیم ترین انڈسٹریز میں ہوتا ہے ۔یہ دنیا بھر میں 319 ملین ملازمت کے مواقع پیدا کرتی ہے ۔ دنیا کے ہر دس میں سے ایک شخص اس صنعت کے لیے کسی نہ کسی طور کام کرتا ہے۔ اس وقت یہ صنعت زمین بوس ہوچکی ہے ۔ 
سیاسی طور پر کورونا وائرس حکومتوں کے لیے بہت بڑا چیلنج بن چکا ہے ۔ زیادہ ترقی یافتہ دنیا میں وائرس نے معاشی نمو پر کاری ضرب لگاتے ہوئے اسے ڈرامائی انداز میں کم کردیا ہے۔ چین کی معاشی شرح ِ نمو سات فیصد سے کم ہوکر تین فیصد تک آچکی ہے ۔ یورپ میں ایک فیصد سے بھی کم کی پیش گوئی تھی۔ اب بہت سی ریاستوں میں شرح نمو منفی میں چلی گئی ہے ۔ یہ مالیاتی بحران 2008 ء کی کساد بازاری سے بھی زیادہ سنگین ہوسکتا ہے ۔ ترقی پذیر ممالک معاشی مسائل کے علاوہ وائرس کے پھیلائو کو روکنے کے چیلنج سے بھی نبردآزما ہیں۔ بہت سے ممالک میں وائرس کے پھیلائو کی شرح کم ہے ؟ یہاں یہ بھی سوال اٹھتا ہے کہ کیا واقعی کم ہے یا کم رپورٹ ہورہی ہے ؟ یہ تمام سوالات پوری دنیا میں خطرے کی گھنٹی بجا رہے ہیں۔ کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والے بحران کی قیمت کے اندازے ہر روز تبدیل ہوتے جارہے ہیں۔ چین2.7 ٹریلین ڈالر کا نقصان اُٹھا سکتا ہے ۔ یہ رقم برطانیہ کے مجموعی جی ڈی پی کے مساوی ہے ‘ لیکن حالات کہیں زیادہ بدتر ہوسکتے ہیں۔ معاشی ماہرین کے لیے گزشتہ دو معاشی بحران بنیادی طور پر طلب کی بابت تھے۔ معاشی جادوگروں نے معیشت کی رگوں میں تازہ خون بھر کر اسے قدموں پر لا کھڑا کیا‘ تاہم موجودہ بحران طلب اور رسد‘ دونوں کو متاثر کررہا ہے ۔ دنیا میں سامان ِرسد کا مرکز چین اس وقت بند پڑا ہے ۔ ایک چھوٹی سی مثال لے لیں کہ امریکہ میں فروخت ہونے والے 85 فیصد کھلونے چین سے آتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے موسم ِ بہار اور ایسٹر پر فروخت کرنے کے لیے امریکی مارکیٹوں میں کچھ نہیں ہوگا۔ ایک اور مثال؛ جب چینی فیکٹریاں بند ہوں گی‘ تو فونز سے لے کر دیگر مصنوعات میں استعمال ہونے والے پرزے کہاں سے ملیں گے؟یعنی ہر روز سامنے آنے والے اندازوں اور پیش گوئیوں کو دیکھتے ہوئے کچھ مبادیات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ‘کیونکہ وہ کبھی تبدیل نہیں ہوتیں۔ اس بحران سے نمٹنے کے لیے یقینا قیادت کی ضرورت ہے۔ اس قسم کے بحران میں جو کچھ ہوا ہے ‘اور جو عام طور پر ہوتا ہے‘ وہ خوف وہراس کی کیفیت ہے۔ زیادہ تر تنظیمیں اور ریاستیں آگے بڑھ کر خوف وہراس کا تدارک کرنے کی بجائے اسے ٹال دیتی ہیں۔ 2008 ء کے بحران میں زیادہ تر کاروباری تنظیمیں فلاپ ہوگئی تھیں۔ کسی بحران سے نمٹنا اہم ہے‘ لیکن اس موقع پر آپ اس کا حصہ ہوتے ہوئے ہنگامی اقدامات کی طرف توجہ دیتے ہیں۔ اگر آپ ہونے والے نقصان کی تلافی کرنا چاہیں تو بھی آپ کا اتنا نقصان ہوچکا ہوتا ہے اور آپ اس کے لیے اتنے ناکافی وسائل رکھتے ہیں کہ آپ بحران کے دوران یا اس کے بعد کوئی موقع پیدا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے ۔ اس مرحلے پر ناموافق حالات سے نمٹنے ‘ بلکہ اُنہیں موافق حالات میں ڈھالنے کیلئے بیدار مغز قیادت درکار ہوتی ہے ۔ 
1۔ اچھے ‘ برے حالات کے لیے تیار رہیں: بہترین حالات کی امید رکھیں‘ لیکن بدترین صورت ِحال کے لیے تیار رہیں۔ یہ ایک عمومی طور پر بولا جانے والا محاورہ ہے اور اس میں پوشیدہ دانائی مسلّم ہے ۔ ضروری ہے کہ تمام تر ممکنہ تفصیل کو سامنے رکھیں ۔ کورونا وائرس سے پیدا ہونے والے غیر یقینی پن سے نمٹنے کے لیے اس کے ممکنہ پھیلائو کی زد میں آنے والوں کا اندازہ لگایا جائے ۔ پیش گوئی کرنے والوں کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ کم از کم خطرے سے شروع کرتے ہوئے انتہائی خطرے کی صورت کو فی صدپوائنٹس کی مدد سے واضح کریں۔ ہر پیش گوئی درست بھی ہوسکتی اور غلط بھی۔ یہ قیادت ہے ‘جو ممالک اور کمپنیوں کو بحران کے وقت موقع تلاش کرنے کے قابل بناتی ہے ۔ 
2۔ مدد‘ سروس اور تعاون کی میکانیت تبدیل کریں: جس دوران دنیا سماجی روابط توڑ کر تنہائی میں جارہی ہے اور کاروباری تنظیمیں اپنی اکثر دہرائی جانے والی حکمت ِعملی ‘ جیسا کہ ملازمتیں ‘ سروسز اور روابط محدود کردینا‘ پر عمل پیرا ہیں‘ یہ وقت سوچنے ‘اور جہاں ممکن ہو‘ اس کے برعکس اقدامات کرنے کا ہے ۔ چین نے پہلے ہی دیگر ممالک کو اس مہلک وائرس کے متعلق آگاہی اور کٹ فراہم کرنا شروع کردی ہیں۔ ضروری ہے کہ کاروباری تنظیمیں اپنے صارفین سے روابط نہ توڑیں‘ بلکہ اب وہ آن لائن سروسز ‘ معلومات‘ صحت کے ٹپس اور اشیائے ضروریہ کی فری ہوم ڈلیوری فراہم کریں۔ اُنہیں سوچنا چاہیے کہ اُن کے صارفین تمام تر مشکلات کے باوجود اُن کے ساتھ کھڑے ہیں۔ 
3۔ مارکیٹ میں خالی ہونے والے گوشے تلاش کرنا: لگے بندھے امکانات سے ہٹ کر سوچنے اور جدت اختیار کرنے کا یہ بہترین موقع ہے۔ محدود مصنوعات‘ مارکیٹ اور حکمت ِ عملی رکھنے والے ممالک اور کمپنیوں کے پاس غیر معمولی امکانات کی طرف دیکھنے کا وقت اور موقع موجود ہے ‘ نیز جدت آمیز ذرائع ایجاد کرنے کاموقع ہے ۔ 
اس وقت برق رفتار بزنس اور زندگی میں ایک تعطل آچکا ۔ جب آج کے شہری ‘ملازمت اور بزنس کرنے والوں کو شکایت رہی تھی کہ اُن کے پاس اپنے لیے اور اپنے خاندان کے لیے وقت نہیں ‘ تو شاید اب زندگی کو متوازن کرنے کا وقت آگیا ہے ۔ شاید کمپنیوں کیلئے مقام ِفکر ہے کہ گھر سے کام کس طرح کیا جائے ؟ اسی طرح ممالک کے پاس بھی سوچنے کا وقت ہے کہ وہ دیگر ممالک پر حملے کرنے کی بجائے اپنے شہریوں کو بچانے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر زیادہ وسائل صرف کریں۔ سب سے بڑھ کریہ سوچنے اور غورو فکر کرنے کا وقت ہے اور یہی اس زیاں خانے میں ہمارا امتحاں ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved