تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     23-03-2020

کیا عرب اور ترک علما کی آرا خلافِ شریعت ہیں؟

''دنیا‘‘ ٹی وی پر جناب مجیب الرحمن شامی اور عزیزم اجمل جامی کے پروگرام ''نقطۂ نظر‘‘ میں پاکستان کے معروف اور بہت ہی محترم عالمِ دین نے رُولنگ دی کہ سنتیں اور نوافل گھر میں پڑھیں‘ جمعہ کا خطبہ مختصر ہو؛ تاہم ''مسجدوں کو بند کرنے کا کوئی سوال نہیں۔ جماعت بھی ہو گی۔‘‘ یہ سترہ مارچ کی بات ہے۔
دوسرے دن یعنی اٹھارہ مارچ کو خبر ملی کہ سعودی عرب کی سینئر علما کونسل کے فیصلے کی رُو سے سعودی عرب بھر کی مساجد میں پنجگانہ نماز اور جمعہ کے اجتماعات معطل کر دیئے گئے۔ میدانِ عرفات کو زائرین کے لیے بند کر دیا گیا۔ کونسل کے پچیسویں اجلاس میں اسلامی شریعت کے اس اصول کا حوالہ دیا گیا کہ ''ہر ممکن حد تک نقصان پہنچانے سے رکنا چاہئے‘‘ چنانچہ شریعت کے تحت یہ جائز ہے کہ وہ جمعہ کی نماز اور مساجد میں تمام فرض نمازوں کو روکیں۔ مساجد میں اذان دیتے وقت یہ جملہ کہا جائے کہ ''نماز اپنے گھروں میں پڑھو‘‘ نماز جمعہ کی جگہ گھروں میں چار رکعت ظہر کی ادا کی جائیں۔
انیس مارچ کو ترکی کے روزنامہ ''حریت‘‘ نے اطلاع دی کہ ترکی میں مسجدیں نمازِ جمعہ کے لیے اور دوسرے دن شبِ معراج کے لیے بند ہوں گی! ہاں انفرادی نماز مسجدوں میں ادا کی جا سکے گی۔
پھر پرسوں یعنی 21 مارچ کو ڈیٹ لائن ریاض کے ساتھ خبر ملی کہ مسجدالحرام اور مسجد نبوی کے اندرونی اور بیرونی حصوں میں نماز پنجگانہ اور نماز جمعہ کی ادائیگی پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ قطر میں دوحہ کی مرکزی مسجد غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دی گئی۔ دیگر مساجد جمعہ کے اجتماعات کے لیے بند کی گئیں۔ کویت، عراق اور مشرق وسطیٰ کے دیگر ملکوں میں نماز جمعہ کے اجتماعات منعقد نہیں کیے گئے۔
ایک عام پاکستانی اس صورت احوال میں کیا کرے؟ وہ اپنے علما کا احترام کرتا ہے۔ اسے پیدائش سے لے کر اب تک یہی بتایا گیا ہے کہ دین کے معاملات میں علما کا فرمان حرفِ آخر ہے۔ یہ ان کا دائرہ کار ہے، اس میں غیر علما داخل نہیں ہو سکتے۔ دوسری طرف اس کی عقیدتوں کا مرکز سر زمینِ حجاز ہے۔ وہاں کے علما کی قیادت میں مسجدِ نبوی اور مسجدِ حرام میں نمازیں ادا کی جاتی ہیں۔ پورے کرۂ ارض کے مسلمان ان کی اقتدا میں حج ادا کرتے ہیں۔ عمرے ادا کرتے ہیں! مشرق وسطیٰ کے دوسرے ممالک عربی بولنے والے ہیں۔ وہ قرآن و حدیث اور مذہبی منابع کو غیر عرب ملکوں کی نسبت بہتر سمجھ سکتے ہیں۔ پھر ترکی ہمیشہ سے ہماری محبت اور دینی حمیت کا بہت بڑا مظہر رہا ہے۔ سینکڑوں سال تک مرکزِ خلافت تھا۔ اگر سعودی عرب‘ ترکی اور دوسرے مسلمان ملکوں میں پنجگانہ نمازیں اور نمازِ جمعہ کے اجتماعات معطل کر دیئے گئے ہیں تو سوال اٹھتا ہے کہ کیا دین کے علم سے وہاں کے علما نابلد ہیں؟ یا ان کا اسلام ہمارے اسلام سے مختلف ہے؟ یا کیا ہم ان سے بڑے مسلمان ہیں؟ بقول اقبال ؔع
اب تو ہی بتا تیرا مسلمان کدھر جائے؟
میری محترم علماء کرام کی خدمت میں نہایت ادب سے گزارش ہے کہ اس ضمن میں قوم کی رہنمائی فرمائیں۔ دو ہی امکانات ہیں، یا تو سعودی عرب، کویت، یو اے ای، ترکی کے علماء کرام کی اجازت اور وہاں کی حکومتوں کا ایکشن درست ہے یا خلافِ شریعت ہے! اگر درست ہے تو جو ایکشن وہاں کے مسلمانوں کے لیے درست ہے، وہ یہاں کے مسلمانوں کے لیے بھی درست ہونا چاہئے اور اگر وہاں کے علماء کرام کی رائے اور وہاں کی حکومتوں کا نمازِ پنجگانہ اور نماز جمعہ معطل کرنے کا ایکشن خلافِ شریعت ہے تو ہمارے علما کرام اس پر خاموش کیوں ہیں؟ ہمارے علما کرام ماشاء اللہ شریعت کے حوالے سے اس درجہ حساس ہیں کہ شرعی احکام کی ذرا سی خلاف ورزی پر ان کا ٹویٹ یا میڈیائی بیان سامنے آ جاتا ہے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف جب غیر مسلم پاکستانیوں کے تہوار میں شریک ہوئے تھے تو ہمارے علما نے فوراً ان پر گرفت کی تھی حالانکہ وہ غیر مسلم پاکستانیوں کے بھی اتنے ہی وزیر اعظم تھے جتنے مسلمان پاکستانیوں کے تھے!
اگر ہمارے علماء کرام، عربوں اور ترکوں کے اس خلافِ شریعت اقدام پر خاموش رہتے ہیں تو اس خاموشی کے بھی ممکنہ اسباب دو ہو سکتے ہیں۔ یا وہ اپنے نہاں خانۂ دل میں اس اقدام کو درست سمجھتے ہیں یا اس کے خلاف احتجاج اس لیے نہیں کر رہے کہ مصلحت پسندی سے کام لے رہے ہیں! تو کیا شرعی معاملات میں مصلحت پسندی کا جواز موجود ہے؟
ایک دلیل یہ پیش کی جاتی کہ ان ملکوں کے علما کرام وہاں کی حکومتوں کے ماتحت ہیں اور سرکاری فیصلوں کی مخالفت کرنے کی تاب نہیں رکھتے۔ یہ ہمارے مذہبی طبقے کا مقبول ترین پوائنٹ ہے۔ مگر یہ دلیل دیتے وقت وہ یہ فرض کر لیتے ہیں کہ سرکاری فیصلے ان ملکوں میں اسلام کے خلاف ہوتے ہیں اور علما کرام اہلِ اقتدار سے مرعوب ہو کر خاموش ہو جاتے ہیں۔ یہ دلیل تکبّر کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ کیا ترکی، سعودی عرب اور مشرقِ اوسط کے دیگر ملکوں کے اربابِ حکومت مسلمان نہیں؟ وہ شریعت کے خلاف فیصلے کیوں کریں گے؟
علماء کرام کا سرکاری سرپرستی میں ہونے یا کام کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ حکومت سے مرعوب ہو کر، یا ڈر کر، یا مجبور ہو کر، ہاں میں ہاں ملائیں گے! خود ہمارے ہاں شریعت سے متعلق سب سے بڑا ادارہ اسلامی نظریاتی کونسل، سرکاری باڈی ہے۔ بظاہر آئینی ادارہ کہلانے کے باوجود، اس کے ارکان کی نامزدگی سو فیصد سرکار کی مرہون منت ہے۔ اس کے ارکان کسی مقابلے کا امتحان دے کر نہیں آتے نہ جمہوری طریق سے منتخب ہوتے ہیں۔ ان کے چنائو میں روابط سے لے کر اہلیت تک سب کچھ گڈ مڈ ہوتا ہے اور کوئی بھی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اس سے زیادہ اہل شخص کونسل کے باہر موجود نہیں! یہ ارکان حکومت کے خزانے سے تنخواہ لیتے ہیں اور مراعات بھی! تو کیا یہ ارکان فیصلے حکومت وقت کی طرف دیکھ کر، اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کرتے ہیں؟؟
سرکاری سرپرستی میں کام کرنے والے علما کی ایک کلاسیکل مثال فتاویٰ عالم گیری کی ہے۔ احناف کو متعدد منتشر حوالوں سے بے نیاز کرنے کے لیے اورنگ زیب عالم گیر نے اپنے وقت کے جیّد علما پر مشتمل ایک عالی شان کمیٹی بنائی جنہوں نے سالہا سال کی محنتِ شاقہ کے بعد فتاویٰ عالم گیری کو تالیف کیا، ان علما کرام کے لیے بادشاہ نے سرکاری خزانے سے وظائف مقرر کیے۔ اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ حکومتوں سے وابستہ علما کرام کے فیصلے قابلِ اعتبار نہیں ہوتے تو فقہ حنفی کی اس معتبر اور عہد ساز کتاب کی کیا وقعت رہ جائے گی؟
کوئی مانے یا نہ مانے، لیکن سچ یہی ہے کہ ہمارے یہاں حکومتی انتظام و انصرام تو زیادہ تر طوائف الملوکی کا شکار ہے ہی‘ لیکن معابد کے حوالے سے بھی صورتحال مختلف نہیں۔ وزیر اعظم کے حکم سے تعلیمی ادارے بند ہوئے تو مدارس نے دو دن اس حکم کو نظر انداز کیا۔ پاکستان بڑے مسلمان ملکوں میں واحد ملک ہے جہاں مساجد نجی شعبے کی تحویل میں ہیں اور حکومت کے ہر فیصلے سے بے نیاز! مصر سے لے کر ترکی تک، ملائیشیا سے لے کر سعودی عرب، یو اے ای، قطر اور کویت تک، مسجدیں ریاست کی تحویل میں ہیں۔ اسی لیے ان ملکوں میں حکومتیں علماء کرام کو قائل کرنے کی محتاج نہیں! انہوں نے وہی کچھ کیا جس کا مشورہ ماہرین نے دیا اور علماء کرام نے تائید کی! ہمارے ہاں اس سے بڑا ظلم اور کیا ہو گا کہ '(ایک معروف ٹی وی اینکر کی اطلاع کے مطابق) لاہور کی ایک مشہور بڑی مسجد میں جمعہ کے روز اردو تقریر چالیس منٹ پر محیط تھی ‘ جس کا لب لباب یہ تھا کہ کورونا اصل میں مسجدیں بند کرنے کی سازش ہے! ایک وڈیو جو وائرس ہو چکی ہے آپ نے بھی دیکھی ہوگی، اس میں ایک عالم دین پورے جوش و خروش سے عوام کو تلقین کررہے ہیں کہ ایک دوسرے سے ہاتھ ملائو اورصفوں میں کندھے سے کندھا ملائو۔ مولانا ذاتی گارنٹی دیتے ہیں کہ کچھ نہیں ہوگا!! سامعین نے ان کی تائید کی!!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved