پاکستان میں بھی کورونا وائرس تیزی سے پھیلنے لگاہے ‘لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ پوری قوم اس وبا سے لڑنے اور اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے میدان میں آگئی ہے‘ جہاں ایک طرف حکومت اورانتظامی ادارے الرٹ ہیں‘ وہیں سول سوسائٹی بھی متحرک ہوچکی ہے۔ سرکار کے ساتھ نجی اداروں نے بھی حفاظتی تدابیر اختیار کرلی ہیں‘ جبکہ ملکی تاریخ میں پہلی بار دیکھنے میں آیاہے کہ شہریوں نے بھی چہرے پر ماسک پہننے‘ رش والی جگہوں سے اجتناب اورمصافحہ سے گریز کرنے سمیت مختلف احتیاطی تدابیر پر عمل شروع کردیاہے ۔ کچھ ناسمجھ حالات کی نزاکت اورحقائق مدنظر رکھنے کی بجائے کہتے ہیں کہ میڈیا کورونا کے اعدادوشمار پیش نہ کرے‘ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ میڈیا انتہائی ذمہ دارانہ رپورٹنگ کررہاہے اوراگرحکومتی وعالمی اداروں کی جانب سے پیش کردہ اعدادوشمار اور حقائق عوام تک نہ پہنچتے تو شاید ہماری قوم آج اس عالمی وبا کیخلاف اتنی ذمہ دارانہ مہم کا حصہ بھی نہ بنتی۔ بروقت تعلیمی ادارے بند کرنا‘ تمام صوبوں میں قرنطینہ مراکز کاقیام اور سکریننگ کاعمل شروع کرنے سمیت اہم اقدامات نہ کیے جاتے تو شاید آج ہماری صورتحال بھی بہت خطرناک حد تک پہنچ چکی ہوتی ‘کیونکہ ہمارے شہری روزانہ ہزاروں کی تعداد میں ایران زیاراتِ مقدسہ کیلئے آتے جاتے تھے اور وہیں سے یہ وبا سب سے زیادہ باہر منتقل ہوئی۔ کچھ لوگوں کایہ بھی خیال ہے کہ شاید حکومت اتنے سنجیدہ اقدامات نہیں کررہی‘ جتنے ہونے چاہئیں ‘لیکن اگر ایسا ہوتا تو یہ وبا ابھی تک قابو میں نہ ہوتی اور خدانخواستہ زیادہ انسانی جانیں ضائع ہوتیں ‘لیکن پاک فوج سمیت تمام قومی اداروں کو داد دینی چاہیے کہ ابھی تک کیے گئے تمام اقدامات تسلی بخش ہیں۔
اگر کورونا وائرس سے بچائو کیلئے عالمی ادارۂ صحت کی جانب سے دی گئی ہدایات پر غور کریں تو سب سے اہم اور بنیادی بات صفائی ہے‘ جس کی اہمیت ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفی ﷺ نے چودہ سو سال پہلے ہمیں بتائی۔ میرا ایمان ہے کہ اگر ہم مسلمان حضور نبی کریم ﷺ کے بتائے ہوئے اصولوں پرعمل پیرا ہوجائیں تو پھر دنیا وآخرت دونوں جہانوں میں ہمارے لئے کامیابیاں ہی کامیابیاں ہیں‘ اسی طرح دنیا کے بیشتر ممالک نے انسدادِ کورونا مہم میں صفائی کے ساتھ متاثرہ شخص کی تنہائی کوبھی اہم قرار دیاتاکہ وہ اس وائرس کی دوسرے اشخاص میں منتقلی کاباعث نہ بن سکے اور اس پر عملدر آمد کیلئے لاک ڈائون جیسے آخری آپشن کوبھی استعمال کیاگیا۔ ہمارے ملک میں سندھ حکومت نے وبا کے بے قابو ہونے پر صوبے میں لاک ڈائون کیا‘ مگر وزیراعظم عمران خان زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے مکمل لاک ڈائون کے حق میں نہیں اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ہماری کمزور معیشت ایسے سخت فیصلوں کی متحمل نہیں ہوسکتی؛ چنانچہ حکومت نے فیصلہ کیاہے کہ تمام بازار اورشاپنگ مالز رات دس بجے بند کردئیے جائیں۔اسلام بھی ہمیں صبح سویرے کام کاروبار پر نکلنے کا حکم دیتا ہے اور دن کی روشنی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے کی تلقین کرتاہے ‘لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ دنیا کے کئی غیرمسلم ممالک میں کافروں نے توبعض اسلامی اصولوں کو اپنی عملی زندگی میں اپنا کر دنیاوی ترقی وکامیابی حاصل کرلی‘ لیکن ہم مسلمان اورصاحب ِقرآن ہوکر اسلامی اصولوں سے دور ہوتے جارہے ہیں اور یہی ہمارے بحرانوں کا سبب بھی ہے۔ ہمارے ملک میں صرف تعلیمی ادارے‘ عدالتیں اور دفاتر وبینک ہی وقت پر کھلتے ہیں‘ لیکن بازاروں سمیت تمام اہم کاروباری مراکز دوپہر سے پہلے کم ہی کھلتے ہیں اور پھرنصف شب تک کھلے رہتے ہیں جو ناصرف اسلام کے بتائے ہوئے بنیادی اصولوں سے ہٹ کرہے ‘بلکہ اس سے بجلی کی کئی گنا اضافی کھپت سمیت کئی دیگر مسائل بھی جنم لیتے ہیں۔ عوام بھی اب اسی شیڈول کے عادی ہوچکے ہیں اوران کی غلطی بھی نہیں‘ کیونکہ دوپہر بارہ بجے سے پہلے تو مارکیٹ کھلتی ہی نہیں اوراگر کوئی شریف آدمی صبح بازار چلا بھی جائے تو اسے طویل انتظار کرناپرتاہے یاپھر بغیر خریداری واپس لَوٹنا پڑتاہے‘ یہی وجہ ہے کہ اب ہمارے شہریوں کی اکثریت صبح یا دن کی بجائے رات کو مغرب یا عشاء کے بعد خریداری کیلئے بازاروں کارخ کرتی ہے‘ کیونکہ ایک تو اس وقت تک وہ دن بھر کے کاموں سے فارغ ہوچکے ہوتے ہیں اور ان کے پاس تسلی سے خریداری کاوقت ہوتاہے اوردوسرا رات کو رنگ برنگی روشنیاں بھی گاہکوں کی توجہ کامرکز بنتی ہیں۔
بات اسلامی اصولوں اور صبح سویرے کام کاج کیلئے نکلنے کی ہورہی تھی تو اگر ہم بحیثیت ِ مسلمان اپنے گریبان میں جھانکیں تو ہم فوراً اس نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ جب سے ہم نے باجماعت نماز فجر ترک کی تو آہستہ آہستہ ہمارا سارا نظام الاوقات ہی متاثر ہوتا چلاگیا ‘ ہم نے صبح سویرے اٹھنا ہی چھوڑ دیا‘ اسی طرح رات کوعشاء کی نماز کے بعد سونے کاٹائم ٹیبل بھی تبدیل ہوکر آٹھ گھنٹے آگے چلاگیا ‘ اس کے برعکس اگر ہم بیرونی دنیا کودیکھیں توان کی ترقی میں دن کی روشنی کابھی بڑا ہاتھ نظر آتاہے۔ ہم مسلمان مشرکوں (بت پرستوں) کو سب سے بڑا کافر سمجھتے ہیں ۔ 2016ء میں ویتنام جانے کاموقع ملا‘ یہ ایک غیرمسلم ملک ہے ‘جو طویل امریکی جنگ نے تباہ کردیاتھا ‘ وہاں کے باشندوں کامذہب بت پرستی ہے ‘لیکن ان کافروں نے اپنی زندگی میں بعض اچھے (اسلامی) اصول اپنائے اورپھر دنیاوی ترقی کے زینے چڑھتے چلے جارہے ہیں ‘ وہاں دیکھا کہ وہ لوگ ایمان کی روشنی سے تومحروم ہیں‘ لیکن دن کی روشنی کا استعمال خوب کرنا جانتے ہیں‘ وہ فجر کی نماز کے بارے تو نہیں جانتے‘ لیکن سحری کے وقت اٹھنا ان کامعمول ہے اور منہ اندھیرے (علی الصبح) ہی کام وکاروبار کیلئے گھروں سے نکل پڑتے ہیں اور سورج نکلنے سے پہلے اپنے کام کاآغاز کر لیتے ہیں‘ اسی طرح نوکری پیشہ مرد وخواتین بھی صبح سات بجے سے پہلے اپنی ڈیوٹی پر موجود ہوتے ہیں ‘ صبح تازہ دم ہونے کی وجہ سے نا صرف ان کی کارکردگی بہتر ہوتی ہے‘ بلکہ ہشاش بشاش چہرے خوش اخلاقی کاتاثر بھی دیتے ہیں ‘ وہاںطلوعِ آفتاب سے پہلے شروع ہونے والا کاروبارِ زندگی سورج کے غروب ہونے سے پہلے ختم بھی ہوجاتاہے اور مغرب سے پہلے تمام لوگ اپنا اپناکام ختم کرکے گھروں میں پہنچ جاتے ہیں ۔ شام کے بعد کوئی بازار یاشاپنگ مال کھلا نہیں ملتا ‘اس لئے جس نے کوئی چیز خریدنی ہوتو وہ دن کوہی خرید لیتاہے ‘کیونکہ اسے معلوم ہوتاہے کہ شام کے بعد صرف ہوٹل‘ وغیرہ ہی کھلا مل سکتاہے ‘ عام کاروباری مرکز کہیں کھلانہ ہوگا‘ اس طرح وہ اپنی اضافی بجلی کی بچت بھی کرلیتے ہیں اورشاید یہی وجہ ہے کہ وہاں اپنے دورے کے دوران ہم نے ایک لمحے کیلئے بجلی کی لوڈشیڈنگ نہیں دیکھی۔ اس کے برعکس جب سے ہم مسلمانوں نے دن کی روشنی کاصحیح استعمال ترک کیاتو ہماری نماز فجر بھی اکثر قضاء ہونے لگی‘ تاخیر سے اٹھنے کے باعث ہم اکثر کام پرجانے کیلئے لیٹ ہوتے ہیں اورپھر جلدبازی کی وجہ سے ہم مسکراہٹ اورخوش اخلاقی بھی کھودیتے ہیں ‘ اسی طرح رات کو دیر تک کام کرنے کی وجہ سے ہم مغرب اورعشاء کی نماز بھی قضاء کرلیتے ہیں‘ جبکہ ہمیں طویل لوڈشیڈنگ کاسامنا بھی کرناپڑتاہے۔ بات کورونا لاک ڈائون سے بچنے کیلئے رات دس بجے مارکیٹیں بند کرنے کی ہورہی تھی ‘ میرے خیال میں یہ بھی کوئی بہت مستحسن قدم نہیں‘ بلکہ میں تو یہ کہتاہوں کہ حکومت اس موقع کوغنیمت جانتے ہوئے ملک بھر میں عام مارکیٹ کانظام الاوقات صبح سات سے شام سات بجے تک کردے‘ اس کے بعد صرف ریسٹورنٹس اورمیڈیکل سٹورز ہی کھولنے کی اجازت ہواورکریانہ سٹور بھی شام سات بجے بند کردئیے جائیں تولوگ خودبخود اپنی خریداری کاوقت بھی ٹھیک کرلیں گے‘اس سے بجلی کی بچت بھی ہوگی اورہماری زندگیوں میں سکون بھی آئے گا۔
اگر وزیراعظم عمران خان ایک یہی کام بھی کرجائیں‘ تو ناصرف ملک کوتوانائی کے بحران سے نکال سکتا ہے ‘بلکہ وہ اپنانام تاریخ کے سنہری حروف میں بھی لکھواسکتے ہیں۔