تحریر : جویریہ صدیق تاریخ اشاعت     23-03-2020

افواہ سازی اور ہماری ذمہ داری

ہمارے ہاںجب بھی کوئی ہنگامی صورت ِ حال پیدا ہوتی ہے‘ تو افواہ سازی بھی عروج پر پہنچ جاتی ہے اور سوشل میڈیا پر مختلف جعلی خبریں‘ پوسٹیں اور تصاویر گردش کرنا شروع ہوجاتی ہیں۔افواہ سازی کیلئے سب سے زیادہ استعمال واٹس ایپ کا ہوتا ہے‘اسی لیے اب واٹس ایپ نے صرف5 افراد کیلئے فارورڈ میسیج بھیجنے کی حد مقرر کردی ہے۔
گزشتہ برس جب 26 فروری کو بھارتی ایئر فورس کے ایک جہاز نے پاکستان میں جابہ کے مقام پر اپنا پے لوڈ گرایا تھا تو اس وقت آئی ایس پی آر نے پاکستانی عوام کو صورتِ حال سے فوراً مطلع کرکے وطن ِعزیز میں افواہ سازی کا بر وقت تدارک کر دیاتھا۔اگلے روز جب پاکستان نے بھارتی ایئر فورس کے دو طیارے گرائے‘ تو اس وقت بھی آئی ایس پی آر نے خبروں کی بروقت اورمستند ذرائع سے ترسیل کر کے ایک بار پھر وطن ِعزیز کوافواہ سازی سے محفوظ رکھا۔الغرض ہمارے ہاں ایک عمومی رویہ ہے کہ بغیر تصدیق کیے کسی بھی سچی یا جھوٹی خبر کو آگے پھیلا دیا جاتا ہے ۔ایسا ہی موجودہ کورونا کی وبا کے دنوں میں بھی ہورہا ہے۔
گزشتہ دنوں ایک افواہ سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہی کہ شہر اقتدار اسلام آباد کے ایک معروف ریستوران کے منیجرصاحب میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوگئی ہے‘ جبکہ اس کے برعکس انتظامیہ کے مطابق ‘وہ ریسٹورنٹ میں فیومی گیشن کروارہے تھے ‘جس کو اردو میں جراثیم کش سپرے کہا جاتا ہے‘لیکن سوشل میڈیا پر خبر یں کچھ اور ہی پھیلا دی گئیں کہ ریسٹورنٹ کے ملازمین بیمار ہورہے ہیں۔جب سے عالمی وبا کورونا منظر عام پرآئی ہے‘ بھانت بھانت کے لوگ واٹس ایپ پر غیر مستند خبریں اور پوسٹیں شیئر کررہے ہیں ۔سب سے زیادہ ایک ڈاکٹرصاحبہ کے نام سے پیغام فارورڈ کیا جا رہا ہے۔ جب اس ہسپتال میں فون کیا تو پتا چلا اس نام کی ڈاکٹر وہاں کام ہی نہیں کرتی اورنہ ہی ہسپتال نے یہ پیغام جاری کیا ہے۔
دوسری طرف پیر‘ فقیر اور بنگالی بابے بھی پیچھے نہیں۔ بس ایک پھونک مارنے پر کوروناآپ کے قدموں میں‘ جیسے دعوے کیے جا رہے ہیں‘ جیسے کورونا وائرس ‘ کوئی سنگ دل محبوب ہے۔اس کے ساتھ ساتھ نیم حکیم بھی میدان میں آچکے ہیں اور ان کے مطابق‘ فلاں چیز کو فلاں چیز کے ساتھ کھا لیں ‘ توآپ کو کورونا چھو بھی نہیں سکے گا ۔وطن عزیز میںاس تمام تر صورت ِ حال میں کورونا وائرس بھی پریشان ہوگا کہ میں کہاں آگیا؟اس کے علاوہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں‘ جو مختلف تھیوریز واٹس ایپ کے ذریعے پھیلا رہے ہیں کہ جن کا نہ کوئی سر ہے‘ نہ پیر ۔ ان تھیوریز کے مطابق ‘یہ کورونا وائرس لیب میں بنایا گیا تھا اور یہ کسی بم کی صورت میں دنیا کے مختلف ممالک میں گرا کر پھیلایا جا رہا ہے ۔
مذکورہ بالا تھیوریز پڑھ کر دل کرتا ہے کہ اس میسیج سینڈ ر سے کوئی تو یہ پوچھے کہ جتنے وثوق سے آپ یہ تھیوری پیش کر رہے ہو‘اس سے تو لگتا ہے کہ کورو ناوائرس یا تو آپ نے خود لیب میں بنوایا ہے یا پھر شاید آپ کے سامنے یہ لیب میں تیار کیا گیا ہے۔بات صرف واٹس ایپ تک نہیں رکتی ‘ بلکہ سوشل میڈیا کی دیگر ویب سائٹس پربھی مسلسل افواہیں پھیلا ئی جارہی ہیں ۔مختلف مرد و خواتین کی تصاویر بغیرتصدیق کے پھیلا کر یہ کہا جارہا ہے کہ ان کو کورونا وائرس ہوگیا ہے۔اس کے ساتھ مختلف ویڈیوز جوکہ جنگوں وغیرہ کی ہیں‘ ان کو یہ کہہ کر پھیلایا جارہا ہے کورونا وائرس کے باعث لوگ مرے پڑے ہیں اور شہر کے شہر تباہ ہورہے ہیں۔
کچھ لوگ مختلف ٹوٹکے اورعملیات بھی شیئر کررہے ہیں۔ٹویٹر پر الگ ماحول ہے‘ وہاں مریضوں اور مرنے والوں کی غلط تعداد کے حوالے سے ایک سفاکانہ مقابلہ جاری ہے۔ غلط خبر دینے کے بعد معافی بھی نہیں مانگی جاتی‘پھریہ افواہ پھیلائی گئی کہ ماسک پہننے سے کورونا سے بچا جاسکتا ہے۔ یہ خبرآتے ہی مارکیٹوں سے ماسک غائب ہوگئے اور بلیک میں بکنے لگے۔اس کے بعد ہینڈ سینیٹائزر کے بارے میں افواہ پھیلا دی گئی تو یہ بھی مارکیٹوں میں نایاب ہو گیا۔ بہت سے تاجروں نے اس خبرکا بھی خوب فائدہ اٹھایا اور اصل ہینڈسینیٹائزرچھپا دئیے اور بوتلوں میں کوئی محلول ڈال کر اپنے برینڈ کا نام چسپاں کرکے بیچنا شروع کردیا ہے ‘جبکہ ماہرین کہہ رہے ہیں کہ سینیٹائزر سے بہتر ہے کہ انسان صابن سے دھوئے اور بارہا ہاتھ دھونے سے کورونا وائرس سے بچا جا سکتا ہے۔
قصہ مختصرسوشل میڈیا پرجعلی خبریں فیک پوسٹیں اور پرانی ویڈیوز کو خوب شیئر کیا جارہا ہے اور خوف و ہراس پھیلایا جارہا ہے۔لاک ڈاؤن کی قبل از وقت خبریں پھیلا پھیلا کر لوگوں میں بے چینی اور گھبراہٹ پیدا کر دی گئی اور ان میں سے بعض نے راشن جمع کرنا شروع کر دیا‘ نیزاضافی ادویات بھی خرید لی ہیں‘جبکہ اس وقت ملک میں تمام بڑے کیش اینڈ کیری اور میڈیکل سٹورز کھلے ہیں۔میری آپ سب سے صرف اتنی گزارش ہے کہ مشکل حالات میں خبر صرف تصدیق کے ساتھ آگے شیئر اور پوسٹ کریں۔کسی بھی ایسی خبر‘ جس کی بابت آپ کو ذرا سا بھی شک ہو‘ اس کوآگے مت پھیلائیں۔ہمارادین اِسلام بھی ہمیں اس بات کی تلقین کرتا ہے کہ پہلے خبر کی تصدیق کی جائے‘ پھر اس کے بارے میں کوئی بات یا رائے دی جائے۔ایسی کوئی چیز لائیک ہٹس اور ویوز کے لیے شیئر نہیں کریں‘ جس سے عوام میں خوف و ہراس پھیلے۔واٹس ایپ ‘فیس بک ‘ ٹویٹر ‘ یوٹیوب ‘ انسٹاگرام اور دیگر سماجی رابطے کی سائٹس کا استعمال محتاط ہوکر کریں اور جھوٹی خبروں کو نہ پھیلائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ میڈیا کو بھی بہت محتاط ہوکر خبر چلانے کی ضرورت ہے۔ کوئی بھی ایسی چیز نشر نہیں کی جانی چاہیے ‘جو تصدیق شدہ نہ ہو۔ 
سوشل میڈیا پر موجود ہر چیز درست نہیں ہوتی ہے۔اس کے ساتھ بہت سے ڈاکٹرز اور دیگر شخصیات کے نام پر فیک اکاؤنٹس بنے ہوئے ہیں۔ مشکل اور ہنگامی حالات میں یا وبائی امراض کے پھوٹنے کے دوران ہمیں ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دینا ہو گا۔ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس سے نمٹنے کیلئے فزیکل ڈومین اور انفارمیشن ڈومین دونوں شامل ہیں۔لوگوں کو بروقت درست صورت ِ حال سے آگاہ رکھنا ضروری ہے۔اس حوالے سے ایک خصوصی کمیٹی بنائی گئی ہے‘ جس میں وزارت ِصحت ‘ وزارتِ اطلاعات اورآئی ایس پی آر بین الاقوامی طریقہ کار کو مدنظر رکھتے ہوئے کرائسسیز اور رسک کمیونی کیشن حکمت عملی بناچکے ہیں۔بروقت اور درست اطلاعات ہی ایسے حالات میں افواہوں اور خوف و ہراس کو روک سکتی ہیں۔یہ بھی ضروری ہے کہ اطلاعات کا فقدان نہ ہو‘ تاکہ غلط خبریں نہ پھیل سکیں۔اس حکمت عملی میں اہم چیز عوام سے مسلسل رابطہ ہے۔اس میں ڈیموگرافک ڈیٹا بہت اہم ہے ‘تاکہ لوگوں کو صرف باوثوق ذرائع سے معلومات دی جائیں‘ جبکہ فرد ‘خاندان اور کمیونٹی سب کو انفرادی اور اجتماعی طور پر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہے۔موبائل فونز‘ ریڈیو‘ پرنٹ الیکٹرانک میڈیا اس حوالے سے زبردست کام کررہے ہیں اور عوام تک احتیاطی تدابیر اور معلومات پہنچا رہے ہیں۔کسی بھی ناگہانی صورت حال میں یونائیٹڈ سور س آف انفارمیشن ہی معلومات کا بہترین ذریعہ ہوتا ہے ۔اس کام کیلئے نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر قائم کیا گیا ہے‘ تاکہ بروقت معلومات عوام تک پہنچ سکیں۔
آخر میں یہی کہنا چاہوں گی کہ ہم بطورِ قوم متحد ہوکر اس وبا کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ہر مشکل میں اللہ کی مدد بھی کام آتی ہے‘ لہٰذا ہمیں اللہ تبارک و تعالیٰ سے رجوع کرنا ہو گا۔صفائی ‘نصف ایمان ہے اور کو رونا وائرس جیسی وبا کیخلاف مؤثر ہتھیار ہے۔ ہمیں افواہ سازی سے بچتے ہوئے نہایت احتیاط اور پرہیز کے ساتھ اس وبا کا مقابلہ کرنا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved