تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     24-03-2020

فیس بک‘ واٹس ایپ اور افواہوں کے سیلاب میں …(2)

بالآخر پنجاب میں بھی چودہ دن کے لاک ڈاؤن کا فیصلہ ہو گیا ہے۔اس لاک ڈاؤن سے درج ذیل فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں:
-1 جو بیمار ہیں وہ گھر پر ہی بیمار رہیں گے۔ ان میں 81فیصدلوگ صرف اور صرف پیراسیٹامول اور عام سے کھانسی والے شربت سے صحتمند ہو جائیں گے۔
-2 زیادہ متاثرہ بیماروں کو آسانی سے ہسپتال میں منتقل کیا جا سکے گا۔
-3 اس طریقۂ کار کو بروئے کار لانے سے کوئی متاثرہ شخص اپنی بیماری دوسروں کو منتقل نہیں کر سکے گا۔ اسی اثنا میں چند ہفتوں کے اندر اندر قوم اس بدترین صورتحال سے باہر نکل آئے گی۔
اس سارے عمل سے آگاہی ہو جائے تو قوم کو سمجھ آ سکتی ہے کہ چند ہفتوں کے اس طرح آرام سے بیٹھ جانے کے طفیل بیماروں کی نشاندہی ہو جائے گی اور وائرس کا پھیلاؤ رُک جائے گا۔ اس دوران چند احتیاطیں کرنا ہوں گی۔
-1 ایک دوسرے سے چھ فٹ یا زائد کے فاصلے پر رہیں‘ تاکہ ایک دوسرے کی سانس لینے کی حدود سے باہر رہیں۔
-2 کھانسی یا چھینک کی صورت میں ٹشو پیپر یا کہنی کی اندرونی طرف کا استعمال عمل میں لائیں۔
-3 منہ‘ ناک یا آنکھ کو مت چھوئیں۔
-4 کسی قسم کی سطح کو چھونے کے بعد خود کو مت چھوئیں۔
-5 کپڑوں کو زیادہ دیر استعمال کیے بغیر دھو لیں۔
-6 ہاتھوں کو صابن سے تیس سیکنڈ تک اچھی طرح مل کر دھوئیں۔
-7 اگر آپ کو خشک کھانسی اور بخار ہو تو خود کو دوسروں سے الگ کریں اور گھر کے دیگر افراد کو بھی گھر کے اندر قائم قرنطینہ (Isolation) میں جانے کا کہیں۔
-8 اگر حالت زیادہ خراب ہو اور سانس لینے میں دقت محسوس کریں تب ہسپتال والوں کو اطلاع کریں اور وہاں پہنچ جائیں۔
-9 صحتمند لوگوں کیلئے ماسک پہننا بے فائدہ ہے۔
-10 علاج معالجے پر مامور افراد ماسک استعمال کریں۔
-11 خوب پانی پئیں اور اپنے مدافعتی نظام کو مضبوط رکھنے کیلئے خالی پیٹ نہ رہیں۔
چیزوں کوجلد قبول کرنے میں تامل‘ درست معلومات کی کمی اور سب سے بڑھ کر وسائل کی کمی کے باعث ہمارا سسٹم اس بیماری کو اس کی کمترین سطح پر قابو کرنے میں ناکام ہو سکتا ہے‘ لیکن کمترین سطح تک اس کو کنٹرول کرنے میں مشکل کے باوجود اسے کم تر سطح تک لے جانے میں کامیابی ہو سکتی ہے۔
سوشل میڈیا میں ہر چیز کو بلاتصدیق آگے پوسٹ کر دینے کے عمل نے اس کی ساری ساکھ برباد کر دی ہے۔ عام حالات میں شاید اس ساکھ اور اعتبار سے اتنا سروکار نہ ہو مگر اس طرح کی صورتحال میں جہاں پوری دنیا کو بالعموم اور ہمیں بالخصوص (یہ اس لئے کہ ہم خود اس خطرے کے براہ راست متاثرین میں شامل ہیں) ایک ایسی خوفناک صورتحال کا سامنا ہے کہ افواہ‘ غلط معلومات اور محض ذاتی خیالات پر بھروسہ کر کے زندگی کو داؤد پر نہیں لگایا جا سکتا۔ صورتحال یہ ہے کہ جس کا دل کرتا ہے موبائل فون کے سامنے بیٹھتا ہے۔ اپنا مرضی کا بھاشن دیتا ہے اور سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دیتا ہے جسے وہ ویڈیو ملتی ہے وہ اسے بلاتصدیق آگے بھیجنا صدقہ جاریہ سمجھتا ہے اور یہ صدقہ جاریہ بہت سی جانوں کا صدقہ لے کر ٹلتا ہے۔
ایسی صورتحال میں غیر سنجیدہ طرز عمل کسی طور مستحسن نہیں لیکن اگر ایسی گمبھیر صورتحال میں حسِ مزاح کام کررہی ہو تو یہ ایک مثبت علامت ہے۔ اسلام آباد میں بیوٹی پارلرز بند ہونے پر کسی دوست نے ایک میسج بھیجا ہے‘ سکول‘ پارک اور شادی ہال تک تو ٹھیک ہے‘ لیکن یہ بہت زیادتی ہے کہ حکومت نے بیوٹی پارلر بھی بند کر دیئے ہیں۔ اب تو سڑکوں پر کورونا سے بھی زیادہ خطرناک اور خوفناک چیزیں دیکھنے کو ملیں گی۔
کورونا کے حوالے سے کسی بزرجمہر نے ایک پوسٹ بھیجی ہے۔ اس پوسٹ کا عنوان ہے ''کورونا کے حوالے سے ایک نصیحت‘‘ ماہرین کے مطابق کورونا وائرس پھیپھڑوں تک پہنچنے سے پہلے گلے میں چار دن گزارتا اہے جس سے متاثرہ شخص کھانستا ہے اور گلے میں تکلیف محسوس کرتا ہے۔ اگر اس دوران مریض زیادہ پانی پیئے‘ نمکین یا سرکہ آمیز پانی سے بار بار غرارے کرے تو وائرس فنا ہو جاتا ہے۔ یہ معلومات صدقہ جاریہ سمجھ کر ہر مسلمان کو پہنچائیں۔
اللہ جانے یہ ''ماہرین‘‘ سے اس عقلمند کی کیا مراد ہے۔ یہ کون سا ماہر ہے جو سر کہ ملے پانی سے وائرس کو برباد کرنے کی تھیوری پیش کر رہا ہے؟ لیکن یہ صرف پاکستان میں ہی نہیں ہو رہا۔ پوری دنیا میں ایسا ہی کچھ چل رہا ہے۔ عجیب و غریب اور خوف وہراس۔امریکہ سے میری ڈاکٹر بیٹی بتا رہی تھی کہ وہاں لوگ دھڑا دھڑ کھانے پینے کی‘ علاج معالجے کی اور حفظانِ صحت کی چیزوں کی ذخیرہ اندوزی میں مصروف ہیں۔ ذخیرہ اندوزی کا یہ عالم ہے کہ چیزوں کو ذخیرہ کرنے کے لیے فریزر اس مقدار میں خریدے جا رہے ہیں کہ مارکیٹ میں فریزر نایاب ہو گئے ہیں۔ ٹشو پیپرز آئوٹ آف سٹاک ہیں۔ ہینڈ سینی ٹائزر وہاں بھی دیکھنے کو نہیں مل رہے۔اور فیس ماسک ناپید ہیں۔ خود غرضی اور خوف کا یہ عالم ہے کہ ممکنہ لاک ڈائون اور اس کے نتیجے میں امکانی قحط کی صورت میں لوٹ مار کے خوف سے امریکی دھڑا دھڑ اسلحہ اور ایمونیشن خرید رہے ہیں‘ تاکہ لوٹ مار کی صورت میں اپنا اور اپنی ذخیرہ شدہ چیزوں کی حفاظت کر سکیں۔ ٹی وی پر دکھایا گیا کہ اسلحہ کی دکانوں کے باہر خریداروں کی قطاریں لگی ہوئی ہیں۔ خریداری کے ایک امیدوار سے وجہ پوچھی تو وہ کہنے لگا کہ اس کی ہمسائیگی میں جو غریب لوگ رہتے ہیں ان کی طرف سے ممکنہ لوٹ مار سے بچائو کیلئے وہ اسلحہ خرید رہا ہے۔ ابھی ہمارے ہاں خوف اور ڈر کی وہ کیفیت نظر نہیں آ رہی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ معاشرہ جتنا محفوظ ہو وہاں بے یقینی کی صورت میں خوف‘ ڈر اور اندیشے کی سطح اسی حساب سے بلند ہوتی ہے۔
پشاور سے ایک مجذوب کورونا کے علاج کیلئے گندم کے دانے جتنی افیون قہوے میں ملا کر پینے کو شرطیہ علاج قرار دے رہا تھا۔ کچھ اہل ایمان موت کو برحق قرار دیتے ہوئے اس احتیاط کی خلاف ورزی کی تلقین کو باعث برکت قرار دے کر کورونا کا علاج قرار دے رہے ہیں۔ افواہوں کا موسم زوروں پر ہے۔ خوف کے عالم میں سب سے پہلے یقین رخصت ہوتا ہے اور ضعیف العتقادی زور پکڑتی ہے۔ ایسے میں درست راستے کی نشاندہی حکومتِ وقت کا کام ہے اور اس پر عمل کرنا عوام کافرض ہے۔ براہ کرم چند دن کیلئے فیس بک‘ واٹس ایپ اور افواہوں کے بجائے بااعتماد ذرائع پر بھروسہ کیا جائے۔ موجودہ ہیلتھ ایمرجنسی کی صور تِ حال میں حکومت صرف مشیر صحت سے کام چلا رہی ہے۔اگر وزیر اعظم ایک فل ٹائم ایک وزیر صحت بھی مقرر کر لیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ان کا ایک وزیر صحت اگر چار چھ بریف کیس بھر کر لے گیا ہے‘ تو اس کا حل یہ نہیں کہ وزیر صحت کا عہدہ ہی ختم کر دیا جائے۔ایک وزیر کی اس حرکت کی سزا عوام کو نہیں دی جا سکتی۔ حکومت کو یہ بھی چاہیے کہ وہ چین سے آنے والی کورونا وائرس کی تشخیصی کٹس شوکت خانم ہسپتال کو عطیہ کرنے کی بجائے ان سرکاری ہسپتالوں کو فراہم کرے جو غریب غربا کا آخری دنیاوی سہارا ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved