مرکزمیں پی ٹی آئی حکومت کو گورننس اور معیشت کے مسائل درپیش ہیں‘تاہم فوری طور پر اسے حزبِ مخالف کی جماعتوں کی جانب کوئی ایسا خطرہ درپیش نہیں کہ وہ سڑکوں پر احتجاج یا قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کے ذریعے حکومت کو نکال باہر کرے گی۔حزب ِمخالف کے مختلف رہنما اکثر و بیشتر مارچ کے آخر تک وزیر اعظم کو گھر بھیجنے کی بات کرتے ہوئے تو دکھائی دیتے ہیں لیکن اس بات کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے کہ اگلے چند ماہ میں ایسی کوئی تبدیلی وقوع پذیر ہو گی۔
سیاسی طور پر پی ٹی آئی حکومت کے قائم ودائم رہنے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ان کی کارکردگی میں کوئی نمایاں بہتری آ گئی ہے‘ بلکہ ان کا وجود حزبِ مخالف کی تین بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن)‘ پاکستان پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کے بڑھتے ہوئے مسائل کا مرہونِ منت ہے۔ ان جماعتوں کے نمایاں مسائل میں لیڈر شپ‘ ان جماعتوں کے مابین بڑھتا ہوا عدم اعتماد‘ ان کے اندرونی تنظیمی مسائل اور احتسابی عمل کا دبائو شامل ہیں۔پی ایم ایل این کے رہنما شہباز شریف اگرچہ وطن واپس آ چکے ہیں ‘ تاہم نواز شریف بدستور لندن میں ہیں اور ان کی جلد واپسی کا امکان نظر نہیں آتا۔ اس کی وجہ سے نہ صرف خود پی ایم ایل این کے اندر قیادت کا خلا پیدا ہوا ‘بلکہ مجموعی طور پر ساری حزب مخالف ہی اس سے متاثر دکھائی دیتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے حزب مخالف کی جماعتوں کو اپنی قیادت میں یکجا کرنے کے لیے سیاسی طور پر کچھ فعالیت دکھائی‘ اس میں 2019ء میں کیا جانے والا لانگ مارچ اور اسلام آباد میں دھرنا شامل ہیں۔ مولانا چاہتے تھے کہ پی ایم ایل این اور پی پی پی انہیں حزبِ مخالف کے مرکزی رہنما کے طور پر قبول کر لیں۔ اگرچہ یہ دونوں سیاسی جماعتیں اس بات پر خوش تھیں کہ مولانا نے پی ٹی آئی حکومت پر سیاسی دبائو بڑھایا ہے اور انہوں نے اس حوالے سے علامتی سی مدد بھی فراہم کی‘ تاہم وہ کسی صورت اپنی جماعتوں کو مولانا کی قیادت میں دینے کو تیار نہ تھے‘ کیونکہ مولانا ایک تگڑی مذہبی شناخت رکھنے والی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں اور ان کا اثر و رسوخ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے چند حلقوں تک محدود ہے۔ اگرچہ مولانا نے خود کو عمران خان کے سب سے بڑے مخالف کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی‘ تاہم وہ اپنا یہ مقصد اُس وقت تک حاصل نہیں کر سکتے جب تک بڑی جماعتیں اپنا وزن ان کے پلڑے میں نہیں ڈال دیتیں اور مستقبل قریب میں ایسا ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔
پی ایم ایل این اور پی پی پی بھی کسی ایسے سیاسی بندوبست پر متفق نہیں ہو سکیں جس کے تحت یہ دونوں جماعتیں مل کر کام کریں۔ اگرچہ دونوں جماعتیں پی ٹی آئی کی کٹر مخالف ہیں اور ان کے رہنما اکثر ایک دوسرے سے ملتے بھی رہتے ہیں‘ لیکن اس سب کے ساتھ ساتھ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کو مخالف فریق کے طور پر بھی دیکھتی ہیں۔ پیپلز پارٹی کی پنجاب میں بحالی کے لیے بلاول بھٹو کوشاں تو ہیں تاہم ان کی اس کاوش نے پی پی اور مسلم لیگ ن کو ایک دوسرے کے سامنے لا کھڑا کیا ہے‘ کیونکہ (ن) لیگ کا سیاسی وجود تو پنجاب ہی کی مرہون منت ہے۔ اس وجہ سے دونوں جماعتوں کے مابین طویل تعاون کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہونا مشکل کام ہے۔ بلاول بھٹو کی تنقید کا مرکزی نشانہ پی ٹی آئی اور عمران خان ہیں‘ تاہم مختلف مواقع پر وہ پی ایم ایل این اور نواز شریف کو نشانہ بنانے سے بھی نہیں چوکے اور اسی سبب سے دونوں جماعتوں کے مابین تنائو پیدا ہوا۔
نواز شریف اور شہباز شریف کی پاکستان سے غیر حاضری کے سبب‘ پی ایم ایل این کے اندر قیادت اور تنظیمی بحران جنم لے چکا ہے۔ وہ تین اشخاص جو اس دوران جماعت کے معاملات چلا رہے تھے اُن کی شخصیت ایسی نہیں کہ وہ جماعت کے رہنمائوں‘ سینئر اور فعال قیادت اور ارکانِ پارلیمان کے لیے کلی طور پر قابل قبول بن سکیں۔ کچھ اراکین پارلیمان تو ان کے حوالے سے کھلے بندوں اپنی پرخاش کا اعلان کر چکے ہیں۔مریم نواز جو پارٹی معاملات میں فعال نہیں تھیں‘ انہیں ناراض اراکین پارلیمان کو ٹھنڈا کرنے کے لیے سامنے آنا پڑا۔اب شہباز شریف کی واپسی کے بعد مریم نواز اور ان کے مابین پائی جانے والی مخاصمت کے سبب نئی طرح کے مسائل جنم لے سکتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ شہباز شریف کا طرزِ سیاست ہے جو مفاہمت اور مل جل کر آگے بڑھنے پر مبنی ہے‘ جبکہ مریم نواز کی سیاست مزاحمت اور سرکشی سے عبارت ہے۔ یہ کھینچا تانی زیریں سطح پر پارٹی قیادت کے لیے جاری رسہ کشی کو سامنے لانے کا باعث بنے گی۔
دوسری جانب بلاول بھٹو اپنی قیادت منوانے کے لیے بہت کاوشیں کر رہے ہیں‘ تاہم ان کے والد آصف علی زرداری اور ان کی پھوپھی فریال تالپور کی وجہ سے ابھی تک ان کی تمام کوششیں رائیگاں نظر آتی ہیں۔ان کے لیے ایک اور چیلنج یہ بھی ہے کہ وہ پی ٹی آئی کی قیادت پر تنقید کے ساتھ ساتھ ایک ایسا متبادل سماجی ومعاشی پروگرام پیش کریں جو پاکستان کے اوسط اور نچلے طبقے کو ان کی جانب راغب کرے اور وہ اپنے لیے دیہی سندھ سے باہر بھی کوئی سیاسی بنیاد قائم کر سکیں۔ اگر سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت انسانی فلاح و بہبود پر توجہ دے کر اس میدان میں بہتری لا پائے گی تو اس کارکردگی کی بنیاد پر سندھ سے باہر بھی ان کے لیے امکانات روشن ہوں گے۔ احتسابی عمل کی وجہ سے بھی پی ایم ایل این کوشدید مسائل کا سامنا ہے اور شریف خاندان کے بڑے بشمول نواز شریف اور مریم نوازاور شریف خاندان کے دیگر کئی افراد یا تو نیب کے شکنجے میں ہیں یا لندن فرار ہو چکے ہیں۔ پی ایم ایل این کے بہت سے دیگر رہنما بھی احتسابی عمل کا سامنا کر رہے ہیں۔یہ الگ بات کہ یہ لوگ اس عمل کو سیاسی انتقام قرار دیتے ہیں۔ اس کی وجہ سے پارٹی کی کارکردگی پر منفی اثرپڑ رہا ہے‘ کیونکہ پارٹی کی مرکزی قیادت کی توانائیاں خود کو اور اپنی دولت کو احتساب سے بچانے میں صرف ہو رہی ہیں۔ پی پی پی کی قیادت کا بھی یہی معاملہ ہے اور وہ بھی احتسابی شکنجے میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ سے ان کے لہجوں میں بہت تلخی نظر آتی ہے اور وہ پی ٹی آئی کی مرکزی حکومت اور نیب کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے دکھائی دیتے ہیں کہ احتساب کا عمل غیر جانبدار نہیں ہے۔ اگرچہ نیب کے احتسابی عمل کے حوالے سے پی پی پی اور پی ایم ایل این کو شدید تحفظات ہیں پھر بھی یہ دونوں جماعتیں پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر نیب کے اُن قوانین میں تبدیلی لانے کے لیے تیار دکھائی نہیں دیتیں جو ان کے خیال میں نیب کو ایک مطلق العنان ادارہ بناتے ہیں۔
حزب مخالف کے غیر مؤثر ہونے اور معاملات میں سدھار لانے کی حکومتی کوششوں کی ناکامی کی وجہ دونوں فریقین کی اپنی کوتاہیاں ہیں۔ تاہم یہ دونوں ہی ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرانے میں مصروف ہیں۔ ان کے مابین موجود تلخی کا اظہار اکثر پارلیمان کی کارروائی کے دوران ہوتا ہے۔ یہ ایک دوسرے پر الزام تراشیوں پر کمر بستہ ہیں‘ یہاں تک کہ ایک دوسرے کے متعلق بازاری زبان استعمال کرنے سے بھی نہیں چُوکتے ‘ ان کے اسی رویے کے سبب پارلیمان کا کردار محدود ہوتا ہے اور یہی چیز جمہوریت کے لیے خسارے کا باعث بنتی ہے۔اگر پاکستان میں جمہوریت کو بہتر شکل دینا مقصود ہے تو حکومت اور حزب اختلاف کو اپنے رویوں میں تبدیلی لانی ہوگی۔ پی ٹی آئی حکومت کو اپنی کارکردگی بہتر بنانا ہوگی‘ جبکہ حزب مخالف کی جماعتوں کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی اندرونی ہم آہنگی میں اضافے اور قیادت کے معاملات کو سلجھا ئیں۔حزب اقتدار اور حزبِ اختلاف کے مابین مخاصمانہ رویہ سمجھ میں آنے والی شے ہے‘ لیکن انہیں کم از کم ایسا ورکنگ ریلیشن شپ ضرور قائم کرنا چاہیے جو کلیدی مقامی و عالمی مسائل کے حل میں مشاورتی عمل کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ایشو کی بنیاد پر حکومت و اپوزیشن کو اپنے رویے میں لچک پیدا کرنا ہوگی۔