تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     24-03-2020

وہ ارب پتی خواتین…!

ان دو ارب پتی خواتین کا ذکر بعد میں ہوگا‘ کیوں نہ ہم پہلے تین اور امیر کبیر خواتین سے آپ کو متعارف کروائیں۔ تیسری خاتون کا نام بے نظیر بھٹو ہے۔ مجھ جیسے شخص کی ذہنیت اُس کا ہاتھ پکڑتی ہے کہ وہ ایک ایسے فرد کے خلاف سچی باتیں نہ لکھے جواب اپنے رب کے حضور میں پیش ہوکر معافی مانگنے کیلئے سجدہ ریز ہوگی۔ ایک اور وجہ بھی ہے جو بالکل ذاتی ہے۔ میں 23 مارچ 1970 ء کو پاکستان گیا تو لاہور سے لندن واپس جاتے ہوئے کلفٹن کراچی میں بھٹو صاحب کو ملنے بھی گیا ‘تاکہ جے اے رحیم صاحب‘جناب حنیف رامے اور ڈاکٹر مبشر حسن صاحب کا تیار کردہ پیپلز پارٹی کے منشور کا مسودہ انہیں دے سکوں‘ تو لان میں بیٹھے غلام مصطفی جتوئی صاحب نے میرا تعارف ایک بچی سے کرایا جو امریکہ میں ہائی سکول میں پڑھتی تھی۔ ان سے گفتگوجاری تھی کہ بھٹو صاحب کے اندرون سندھ کے دورہ سے گھر واپس آجانے سے منطقع ہو گئی اور اُن کی بیٹی مودبانہ ہاتھ ہلاتے ہوئے گھر کے اندر چلی گئی۔ چند لمحوں کی ملاقات اور وہ بھی میزبان کے گھر میں جہاں‘ میزبان کے ملاقاتی اُن کی بیٹی کو اپنی بیٹی سمجھیں۔ لیکن مروّت‘مشرقی اقدار اور وضع داری کالم نگار کو چاہے کتنی عزیز ہو‘ وہ اُسے یہ تلخ سچائی لکھنے سے نہیں روک سکتی کہ ارجنٹائن کی Maria Estela Martinez de Peron اور فلپائن کی Imelda Marcosکے برعکس (جن کی دولت کا ماخذ اُن کے صدر مملکت شوہر تھے‘ بے نظیر کے شوہر نے اپنی بیوی کے برسر اقتدار ہونے کی وجہ سے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے ۔ 
یہ کالم نگار جب بھی اپنی پرانے کرم فرما ذوالفقار علی بھٹو کی مغفرت کیلئے ہاتھ اُٹھاتا ہے تو وہ اُن کی ایک بیٹی اور دو بیٹوں کو ہر گز نہیں بھولتا۔ بے نظیر کے بعد‘ اُن کے دبئی میں جلاوطن شوہر کو پاکستان واپس آکر ایوانِ اقتدار کی دیواروں سے پھوٹنے والی گنگا میں ہاتھ پائوں دھونے کا دوسری بار موقع ملا۔ اجازت دیجئے کہ میں اپنے تخیل کے گھوڑے دوڑائوں‘ جب بے نظیر کی روح اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہو کر اپنے ساری غلطیوں کا اعتراف کر کے معافی کی طلبگار ہوں گی توغالباًجن دو سنگین جرائم کی معافی سب سے مشکل سے ملے گی وہ ہوں گے ناہید خان کو اپنا سیاسی مشیر بنانا اور اپنے شوہرِ نامدار کے صدر مملکت بن جانے کا براہِ راست ذمہ دار ہونا۔ صد افسوس کہ بے نظیر نے نہ سانحۂ کراچی‘ جس میں اُن کا استقبال کرنے والے سینکڑوں افراد مارے گئے‘ سے سبق سیکھا ‘ نہ آستین میں چھپے سانپ دیکھے اور نہ اپنی شہادت سے سب سے زیادہ مستفید ہونے والے لوگوں کو‘ جو اِن کی میراث پر غاصبانہ قبضہ کرنے کی بدولت پورے پانچ سال قائداعظم کی کرسی پر بیٹھے رہے۔ شاہ نامہ لکھنے والے فردوسی کی زبان میں ‘ تفو بر تو اے چرخِ گردوں تفو۔
آدھا کالم ختم ہوا اور ابھی تک ہم نہ لاطینی امریکہ کے ارجنٹائن جا سکے اور نہ جنوب مشرقی ایشیا کے فلپائن کی طرف۔ آیئے جلدی جلدی رختِ سفرباندھیں اور وہاں کا رخ کریں۔ قادر الکلام شاعر (جن کی نظم میٹرک کے اُردو نصاب میں شامل تھی) دیا شنکر نسیم کی ایک کمال کی نظم کا ایک بھولا بسرا مصرع یاد آیا۔ ع
نسیم جاگو کمر کو باندھو اُٹھائو بستر کہ رات کم ہے
کیوں نہ ہم دور کا سفر پہلے کر لیں۔ María Eva Duarte de Perón ،1931ء میں ایک غریب گھرانے میں پیدا ہونے والی لڑکی خوش شکل اور اچھی رقاص ہونے کی وجہ سے اُس مقام کو حاصل کرنے میں کامیاب رہی جو آج کل فلمی ستاروں کی اجارہ داری ہے۔ وہ Juan Domingo Peronکی دوسری بیوی تھی۔ اُس کا شوہر 1973ء میں ارجنٹائن کا صدر بنا اور چوتھی بیوی نائب صدر بنی۔ صرف ایک سال بعد وہ بیوہ ہوئی تو 1974 Evaء میں ارجنٹائن کی صدر بن گئی۔مگر اچھی شکل اور اچھا رقص مل کر بھی EVA کے اقتدار کو طول نہ دے سکے اور صرف دو سال بعد فوج نے اُس کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا۔ اُس پر بڑے پیمانہ پر کی جانے والی بدعنوانی کا مقدمہ چلا۔ اُس نے پانچ سال قید بھگتی اور 1981ء میں ملنے والی رہائی کے بعد سپین میں جلا وطن ہو کر زندگی کے آخری ایام بے بسی اور بے کسی کے عالم میں گزارے۔
اب فلپائن کی باری آتی ہے۔ بحر اوقیانوس (Pacific Ocean) میں 7100 جزیروں پر مشتمل‘ آبادی تقریباً دس کروڑ جو 95 فی صد پڑھی لکھی ہے۔ پارلیمان کے ایوان بالا کے 24 اراکین کو چھ سالوں کیلئے سارے ملک کے ووٹر براہ راست انتخاب کے ذریعہ منتخب کرتے ہیں۔ ایوانِ نمائندگان کے 204 اراکین ووٹوں سے چنے جاتے ہیں ‘مگر 50 اراکین کو صدر نامزد کرتا ہے جو مذہبی (مسلمان اور بدھ) اور پسانی (Tagalogبولنے والوں ) کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ٹوٹا پھوٹا جمہوری نظام ساٹھ کی دہائی تک اُفتاںو خیزاں چلتا رہا۔ فرڈنینڈ مارکوس 1965ء اور دوبارہ 1969 ء میں صدر بنا۔ سارے ملک کے ووٹروں کی اکثریت کی حمایت سے۔ 1972ء میں اُس کی سوئی ایسی پھری کہ اُس نے آئین معطل کر کے مارشل لاء نافذ کر دیا۔ ایک لاکھ فوج کی سربراہی کے بل بوتے پر۔ اگلے 16 برس اُس کا ملک اندھیرے میں ڈوبا رہا۔ شہری حقوق اور جمہوری آزادیوں کا فقدان‘ جبرو تشدد اور قومی مسائل کی بڑے پیمانہ پر لوٹ مار۔ مارکوس نے اس پیمانہ پر کرپشن کی کہ اُس کا اندازہ اُس کی بیوی کی خیرہ کن طرز زندگی ‘ شاندارمحلات اور اُن کے اندر مہنگی اشیا کی بھر مار سے لگایا جا سکتا ہے۔ یہ خاتون اپنے ذاتی ہوائی جہاز میں سفر کرتی تھی تو اُس جہاز کے پیچھے ایک اورطیارہ (وہ بھی اُسی کی ملکیت تھا) بھی پرواز کرتا تھا جو خاتونِ اوّل کے لباس کے ہزاروں جوڑوں اور اُن کے رنگوں سے مناسبت کرنے والے اُتنے ہی ہزاروں جوتوں سے بھرا ہوتا تھا۔ 1986ء میں زبردست عوامی ریلا (جس کی قیادت قتل کروائے جانے والے Cory Aquinoکی بیوی نے کی‘ مارکوس کے آمرانہ نظام (جو ناقابل شکست سمجھا جاتا تھا) کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے گیا۔ وہ دن اور آج کا دن فلپائن پہ آمریت کے عفریت نے دوبارہ سر نہیں اُٹھایا۔ موجودہ صدر (جو سابق پیشہ ور باکسر ہیں) کے ہاتھ پر ہزاروں مجرموں مگر اُتنے ہی زیادہ بے گناہ لوگوں (جن پر منشیات فروش ہونے کا محض الزام تھا اور اُن کے نام مشکوک افراد کی فہرست میں تھے) کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ جوئے خوں ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لیتی‘ مگر قتل عام کا مرتکب صدر مملکت اپنے ملک سے منشیات فروشی کا قلع قمع نہیں کروا سکا۔ مارکوس 1989ء میں فوت ہوا تو اُس کی ارب پتی بیوی کو امریکہ میں‘ جہاں اُس نے سیاسی پناہ لے رکھی تھی‘ فراڈ اور کرپشن کے مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔ اُس نے کروڑوں ڈالر بطور زرِ تلافی اور جرمانہ دے کر بمشکل اپنی جان بچائی اور جان کی امان مل جانے پر فلپائن واپس چلے جانے میں کامیاب ہوئی۔ آپ کو شاید یہ پڑھ کر اپنی آنکھوں پر اعتبار نہ آئے مگر آپ مان لیں کہ وہ ایک بار پھر انتخابات میں حصہ لے کر فلپائن کے سیاسی نظام میں اپنے لیے جگہ بنانے پر کمر بستہ ہوئی‘ مگر اُس کی بے پناہ دولت بھی اُسے دوبارہ اقتدار نہ دلوا سکی اور وہ یہی کہتی ہوئی دنیا سے رخصت ہوئی کہ'' فلپائن کے لوگ کتنے بدقسمت ہیں وہ یسوع مسیح کی برکتوں سے اُنہیں دوبارہ مل جانے والی خاتون کی بے مثال قائدانہ صلاحیتوں سے فیض یاب نہ ہو سکے‘‘۔ 
کالم نگار اپنے اس بے بنیاد قیاس کے اظہار کی اجازت چاہتا ہے کہ اس سے پہلے والی سطور میں جو ذہنی کیفیت امیلڈا مارکوس کی بیان کی گئی ہے وہ اس وقت تین اور مریضوں کے دل و دماغ کی بھی ہوگی۔ ایک مریض لندن میں زیرِ علاج ہے‘ دوسرا مریض دبئی میں اور تیسرا مریض کراچی میں۔ آپ جانتے ہیں کہ مذکورہ بالا دونوں افرادلندن پہنچ جانے کیلئے ہر ممکن جتن کر رہے ہیں۔ افسوس کہ یہ کالم نگار ان تینوں کیلئے دعائے صحت مانگنے کیلئے ہاتھ نہیں اُٹھا سکتا۔ ان تینوں کے نام ذہن میں آئیں تو وہ رسمِ دعا بھی بھول جاتا ہے۔ رسمِ دعا بھولنے کیلئے فیضؔ صاحب جیسا بلند مرتبت ہوناضروری نہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved